البانیا نے مہاجرین کے یورپی مراکز کی میزبانی سے انکار کر دیا
27 جون 2018
مشرقی یورپی ملک البانیا کا کہنا ہے کہ پناہ کی تلاش میں یورپی یونین کا رخ کرنے والے تارکین وطن کے لیے البانیا میں خصوصی مراکز کے قیام کے بارے میں کسی قسم کے مذاکرات نہیں کیے جائیں گے۔
اشتہار
اپنے ہاں مہاجرین کے خصوصی مراکز کے قیام کی یورپی تجویز مسترد کرتے ہوئے البانیا کے وزیر اعظم ایڈی راما کا یہ بھی کہنا تھا کہ انسانوں کے ساتھ ’زہریلے فاضل مادے‘ جیسا برتاؤ نہیں کیا جانا چاہیے۔ گزشتہ چند ہفتوں سے یہ موضوع زیر بحث تھا کہ یورپی یونین میں مہاجرین کے بحران سے نمٹنے کے لیے پناہ کے متلاشی افراد کو یونین کی حدود سے باہر کسی ملک میں بنائے گئے خصوصی مراکز میں رکھا جائے گا۔ ایسے تارکین وطن کی سیاسی پناہ کی درخواستیں انہی مراکز میں قیام کے دوران ہی نمٹائی جائیں گی۔
البانیا کی سرحدیں یونان سے بھی ملتی ہیں اور یہ مشرقی یورپی ملک اٹلی سے بھی زیادہ دور نہیں۔ اسی وجہ سے یہ تجویز سامنے آ رہی تھی کہ یورپی یونین کی حدود سے باہر مہاجرین کے مراکز کے قیام کے لیے البانیا ہی موزوں جگہ ہو گی۔
تاہم آج ستائیس جون بروز بدھ البانیا کے وزیر اعظم ایڈی راما نے جرمن روزنامے ’بلڈ‘ سے گفتگو کرتے ہوئے اس تجویز کو مسترد کر دیا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایسے خصوصی مراکز کے قیام کا مطلب ’پناہ کے متلاشی افراد کو ایسے زہریلے فاضل مادے کی طرح کسی جگہ پھینک دینے کے مترادف ہے، جسے کوئی بھی اپنانا نہیں چاہتا‘۔
مشرقی یورپ میں واقع ملک البانیا یورپی یونین کی رکنیت کے حصول کی بھی کوشش میں ہے۔ تاہم البانوی وزیر اعظم نے بلڈ سے گفتگو کرتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ انہوں نے برسلز پر واضح کر دیا ہے کہ رکنیت کے حصول کے مذاکرات میں تارکین وطن کے خصوصی مراکز کے قیام کی شرط شامل کر کے البانیا کو اس معاملے پر قائل نہیں کیا جا سکتا۔
یورپی یونین نے گزشتہ روز ہی آئندہ برس جون میں البانیا کی رکنیت کے سلسلے میں مذاکرات شروع کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ مہاجرین کے لیے خصوصی مراکز کے بارے میں البانیا کے اس واضح اعلان کے بعد امکان ہے جمعرات کے روز شروع ہونے والی یونین کی سمٹ میں مہاجرین کے بحران سے نمٹنے کے لیے ’مشترکہ یورپی حل‘ کی تلاش مزید مشکل ہو جائے گی۔
ش ح/ ص ح (اے ایف پی)
تارکین وطن کی سماجی قبولیت، کن ممالک میں زیادہ؟
’اپسوس پبلک افیئرز‘ نامی ادارے نے اپنے ایک تازہ انڈیکس میں ستائیس ممالک کا جائزہ لے کر بتایا ہے کہ کن ممالک میں غیر ملکیوں کو مرکزی سماجی دھارے میں قبول کرنے کی صلاحیت زیادہ ہے۔
تصویر: picture-alliance/ dpa
۱۔ کینیڈا
پچپن کے مجموعی اسکور کے ساتھ تارکین وطن کو معاشرتی سطح پر ملک کا ’حقیقی‘ شہری تسلیم کرنے میں کینیڈا سب سے نمایاں ہے۔ کینیڈا میں مختلف مذاہب، جنسی رجحانات اور سیاسی نظریات کے حامل غیر ملکیوں کو مرکزی سماجی دھارے میں شامل کر لیا جاتا ہے۔ ترک وطن پس منظر کے حامل ایسے افراد کو، جو کینیڈا میں پیدا ہوئے، حقیقی کینیڈین شہری کے طور پر قبول کیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Images/N. Denette
۲۔ امریکا
انڈیکس میں امریکا دوسرے نمبر پر ہے جس کا مجموعی اسکور 54 رہا۔ امریکی پاسپورٹ حاصل کرنے والے افراد اور ترک وطن پس منظر رکھنے والوں کو حقیقی امریکی شہری کے طور پر ہی سماجی سطح پر قبول کیا جاتا ہے۔
تصویر: Picture-Alliance/AP Photo/S. Senne
۳۔ جنوبی افریقہ
تارکین وطن کی سماجی قبولیت کے انڈیکس میں 52 کے مجموعی اسکور کے ساتھ جنوبی افریقہ تیسرے نمبر پر ہے۔ مختلف مذاہب کے پیروکار غیر ملکیوں کی سماجی قبولیت کی صورت حال جنوبی افریقہ میں کافی بہتر ہے۔ تاہم 33 کے اسکور کے ساتھ معاشرتی سطح پر شہریت کے حصول کے بعد بھی غیر ملکیوں کو بطور ’حقیقی‘ شہری تسلیم کرنے کا رجحان کم ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Khan
۴۔ فرانس
چوتھے نمبر پر فرانس ہے جہاں سماجی سطح پر غیر ملکی ہم جنس پرست تارکین وطن کی سماجی قبولیت دیگر ممالک کی نسبت کہیں زیادہ ہے۔ تاہم جنوبی افریقہ کی طرح فرانس میں بھی پاسپورٹ حاصل کرنے کے باوجود تارکین وطن کو سماجی طور پر حقیقی فرانسیسی شہری قبول کرنے کے حوالے سے فرانس کا اسکور 27 رہا۔
تصویر: Reuters/Platiau
۵۔ آسٹریلیا
پانچویں نمبر پر آسٹریلیا ہے جس کا مجموعی اسکور 44 ہے۔ سماجی سطح پر اس ملک میں شہریت حاصل کر لینے والے غیر ملکیوں کی بطور آسٹریلین شہری شناخت تسلیم کر لی جاتی ہے۔ علاوہ ازیں غیر ملکی افراد کے ہاں پیدا ہونے والے بچوں کو بھی معاشرہ حقیقی آسٹریلوی شہری قبول کرتا ہے۔
تصویر: Reuters
۶۔ چلی
جنوبی افریقی ملک چلی اس فہرست میں بیالیس کے اسکور کے ساتھ چھٹے نمبر پر ہے۔ ہم جنس پرست غیر ملکی تارکین وطن کی سماجی قبولیت کے حوالے سے چلی فرانس کے بعد دوسرا نمایاں ترین ملک بھی ہے۔ تاہم دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کو ملکی مرکزی سماجی دھارے کا حصہ سمجھنے کے حوالے سے چلی کا اسکور محض 33 رہا۔
تصویر: Reuters/R. Garrido
۷۔ ارجنٹائن
ارجنٹائن چالیس کے مجموعی اسکور کے ساتھ اس درجہ بندی میں ساتویں نمبر پر ہے۔ تارکین وطن کی دوسری نسل اور ہم جنس پرست افراد کی سماجی سطح پر قبولیت کے حوالے سے اجنٹائن کا اسکور 65 سے زائد رہا۔
تصویر: Reuters/R. Garrido
۸۔ سویڈن
سویڈن کا مجموعی اسکور 38 رہا۔ ہم جنس پرست تارکین وطن کی قبولیت کے حوالے سے سویڈن کو 69 پوائنٹس ملے جب کہ مقامی پاسپورٹ کے حصول کے بعد بھی تارکین وطن کو بطور حقیقی شہری تسلیم کرنے کے سلسلے میں سویڈن کو 26 پوائنٹس دیے گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
۹۔ سپین
تارکین وطن کی سماجی قبولیت کے لحاظ سے اسپین کا مجموعی اسکور 36 رہا اور وہ اس فہرست میں نویں نمبر پر ہے۔ ہسپانوی شہریت کے حصول کے بعد بھی غیر ملکی افراد کی سماجی قبولیت کے ضمن میں اسپین کا اسکور محض 25 جب کہ تارکین وطن کی دوسری نسل کو حقیقی ہسپانوی شہری تسلیم کرنے کے حوالے سے اسکور 54 رہا۔
تصویر: picture-alliance/Eventpress
۱۰۔ برطانیہ
اس درجہ بندی میں پینتیس کے مجموعی اسکور کے ساتھ برطانیہ دسویں نمبر پر ہے۔ اسپین کی طرح برطانیہ میں بھی تارکین وطن کی دوسری نسل کو برطانوی شہری تصور کرنے کا سماجی رجحان بہتر ہے۔ تاہم برطانوی پاسپورٹ حاصل کرنے کے بعد بھی تارکین وطن کو حقیقی برطانوی شہری تسلیم کرنے کے حوالے سے برطانیہ کا اسکور تیس رہا۔
تصویر: Reuters/H. Nicholls
۱۶۔ جرمنی
جرمنی اس درجہ بندی میں سولہویں نمبر پر ہے۔ جرمنی میں دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کی سماجی قبولیت کینیڈا اور امریکا کے مقابلے میں انتہائی کم ہے۔ اس حوالے سے جرمنی کا اسکور محض 11 رہا۔ اسی طرح جرمن پاسپورٹ مل جانے کے بعد بھی غیر ملکیوں کو جرمن شہری تسلیم کرنے کے سماجی رجحان میں بھی جرمنی کا اسکور 20 رہا۔
تصویر: Imago/R. Peters
۲۱۔ ترکی
اکیسویں نمبر پر ترکی ہے جس کا مجموعی اسکور منفی چھ رہا۔ ترکی میں دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کو سماجی سطح پر ترک شہری تسلیم نہیں کیا جاتا۔ اس ضمن میں ترکی کو منفی بارہ پوائنٹس دیے گئے۔ جب کہ پاسپورٹ کے حصول کے بعد بھی تارکین وطن کو حقیقی ترک شہری تسلیم کرنے کے حوالے سے ترکی کا اسکور منفی بائیس رہا۔