البانیہ میں ہم جنس پسندوں کی ’تصحیح‘ کی متنازعہ تھراپی بند
17 مئی 2020
البانیہ میں انسانی حقوق کے کارکنان نے ہم جنس پسندوں کی ’تصحیح‘ کی متنازعہ تھراپی کی بندش کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔
اشتہار
البانیہ میں ماہرین نفسیات کی ملکی تنظیم کی گورننگ باڈی کی جانب سے ہم جنس پسندوں کی 'تصحیح‘ قرار دی جانے والے متنازعہ تھراپی کی بندش کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس پیش رفت کا خیرمقدم کیا ہے۔
اس متنازعہ 'علاج‘ کے ذریعے ہم جنس پسندوں کی جنسی رغبت، صنفی شناخت اور جنسی اظہاریے تبدیل کرنے کی کوشش کی جاتی تھی۔
البانیہ میں ہم جنس پسندوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی مرکزی تنظیم 'پنک ایمبیسی‘ نے کہا ہے کہ اس فیصلے کے ذریعے ماہرین نفسیات نے ہم جنس پسندوں کے حقوق کے لیے احترام کا پیغام دیا ہے۔
یورپ میں البانیہ اب وہ چھٹا ملک بن گیا ہے، جہاں اس طرز کے طریقہ کار پر پابندی عائد ہو گئی۔ اس سے قبل اسپین، سوئٹزرلینڈ، مالٹا، برطانیہ اور جرمنی بھی صنفی شناخت اور جنسی رغبت کی تبدیلی کے ایسے نفسیاتی طریقہ کار ترک کر چکے ہیں اور ان ممالک میں اب ایسی کسی بھی 'تھراپی‘ پر پابندی عائد ہے۔
البانیہ میں ماہرین نفسیات کی تنظیم کی اس گورننگ باڈی 'آرڈر آف سائیکالوجسٹس‘ نے اپنے اعلان میں کہا ہے کہ تمام رجسٹرڈ تھراپسٹس اس فیصلے پر عمل درآمد کریں۔
پنک ایمبیسی کے مطابق یہ پیش رفت اس لیے نہایت اہم ہے کہ ہم جنس پسندوں کے والدین کو مجبور کیا جاتا رہا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اس متنازعہ تھراپی کے لیے بھیجیں۔
ایسے ممالک جہاں ہم جنس پسند شادی کر سکتے ہیں
تائیوان ایشیا کا پہلا ملک بن گیا ہے، جہاں ہم جنس پسند قانونی طور پر شادی کر سکتے ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ اب تک کن ممالک میں ہم جنس پسندوں کی شادیوں کو ریاستی تحفظ فراہم کیا جا چکا ہے۔
تصویر: AFP/Getty Images/S. Yeh
ہالینڈ، سن دو ہزار ایک
ہالینڈ دنیا کا پہلا ملک تھا، جہاں ہم جنس پسندوں کے مابین شادی کی اجازت دی گئی۔ ڈچ پارلیمان نے اس تناظر میں سن دو ہزار میں ایک قانون کی منظوری دی تھی۔ یکم اپریل سن دو ہزار ایک کو دنیا میں پہلی مرتبہ دو مردوں کے مابین شادی کی قانونی تقریب منعقد ہوئی۔ یہ شادی تھی اس وقت ایمسٹرڈیم کے میئر جاب کوہن کی۔ اب ہالینڈ میں ہم جنس جوڑے بچوں کو بھی گود لے سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/ANP/M. Antonisse
بیلجیم، سن دو ہزار تین
ہالینڈ کا ہمسایہ ملک بیلجیم دنیا کا دوسرا ملک تھا، جہاں پارلیمان نے ہم جنس پسندوں کی شادی کو قانونی اجازت دی گئی۔ سن دو ہزار تین میں ملکی پارلیمان نے قانون منظور کیا کہ خواتین یا مرد اگر آپس میں شادی کرتے ہیں تو انہیں وہی حقوق حاصل ہوں گے، جو شادی شدہ جوڑوں کو حاصل ہوتے ہیں۔ اس قانون کے منظور ہونے کے تین برس بعد ہم جنس جوڑوں کو بچے گود لینے کی اجازت بھی دے دی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/EPA/J. Warnand
ارجنٹائن، سن دو ہزار دس
ارجنٹائن لاطینی امریکا کا پہلا جبکہ عالمی سطح پر دسواں ملک تھا، جہاں ہم جنسوں کے مابین شادی کو ریاستی تحفظ فراہم کیا گیا۔ جولائی سن دو ہزار دس میں ملکی سینیٹ میں یہ قانون 33 ووٹوں کے ساتھ منظور ہوا جبکہ 27 ووٹ اس کے خلاف دیے گئے۔ اسی برس پرتگال اور آئس لینڈ نے بھی ہم جنس پسندوں کی شادی کو قانونی بنانے کے حوالے سے قوانین منظور کیے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/EPA/L. La Valle
ڈنمارک، سن دو ہزار بارہ
ڈنمارک کی پارلیمان نے جون سن دو ہزار بارہ میں بڑی اکثریت کے ساتھ ہم جنس پسندوں کے مابین شادی کی قانونی اجازت دی۔ اسکینڈے نیویا کا یہ چھوٹا سا ملک سن 1989 میں اس وقت خبروں کی زینت بنا تھا، جب وہاں ہم جنس جوڑوں کو سول پارٹنرشپ کے حقوق دیے گئے تھے۔ ڈنمارک میں سن دو ہزار نو سے ہم جنس پسندوں کو اجازت ہے کہ وہ بچے گود لے سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/CITYPRESS 24/H. Lundquist
نیوزی لینڈ، سن دو ہزار تیرہ
نیوزی لینڈ میں ہم جنس پسند مردوں اور خواتین کو شادی کی اجازت سن دو ہزار تیرہ میں ملی۔ یہ ایشیا پیسفک کا پہلا جبکہ دنیا کا پندرہواں ملک تھا، جہاں ہم جنس پسندوں کو شادی کی اجازت دی گئی۔ نیوزی لینڈ میں انیس اگست کو ہم جنس پسند خواتین لینلی بنڈال اور ایلی وانیک کی شادی ہوئی۔ فرانس نے بھی سن دو ہزار تیرہ میں ہم جنس پسندوں کو شادی کی قانونی اجازت دی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/EPA/Air New Zealand
آئر لینڈ، سن دو ہزار پندرہ
آئرلینڈ ایسا پہلا ملک ہے، جہاں ایک ریفرنڈم کے ذریعے ہم جنس پسندوں کے مابین شادی کی اجازت کا قانون منظور ہوا۔ اس ریفرنڈم میں دو تہائی سے زائد اکثریت نے ہم جنسوں کے مابین شادی کی حمایت کی تو تب ہزاروں افراد نے دارالحکومت ڈبلن کی سڑکوں پر نکل کر خوشیاں منائیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/EPA/A. Crawley
امریکا، سن دو ہزار پندرہ
امریکا میں چھبیس جون سن دو ہزار پندرہ کو سپریم کورٹ نے تاریخی فیصلہ سنایا کہ ملکی آئین ہم جنسوں کی مابین شادیوں کی قانونی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ اسی فیصلے کی بدولت امریکا بھر میں ہم جنس جوڑوں کے مابین شادی کی راہ ہموار ہوئی۔ اس سے قبل بارہ برس تک امریکی سپریم کورٹ نے ہم جنس پسند افراد کے مابین شادی کو غیر آئینی قرار دیے رکھا تھا۔
جرمنی یورپ کا پندرہواں ملک تھا، جہاں ہم جنس پسندوں کے مابین شادی کی قانونی اجازت دی گئی۔ تیس جون کو بنڈس ٹاگ میں 226 کے مقابلے میں یہ قانون 393 ووٹوں سے منظور کیا گیا۔ اگرچہ جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے اس قانون کے خلاف ووٹ دیا تاہم انہوں نے اس کے منظور کیے جانے میں کوئی رکاوٹ کھڑی نہ کی۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA Wire/O. Messinger
آسٹریلیا، سن دو ہزار سترہ۔ اٹھارہ
آسٹریلوی میں ایک پوسٹل سروے کرایا گیا، جس سے معلوم ہوا کہ اس ملک کی اکثریت ہم جنس پسندوں کے مابین شادی کی حمایت کرتی ہے تو ملکی پارلیمان نے دسمبر 2017 میں اس سلسلے میں ایک قانون منظور کر لیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. Hamilton
تائیوان، سن دو ہزار انیس
تائیوان ایشیا کا پہلا ملک ہے، جہاں ہم جنس پسندوں کے مابین شادی کو قانونی تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ سترہ مئی سن دو ہزار سترہ کو ملکی پارلیمان نے اس حوالے سے ایک تاریخی مسودہ قانون منظور کیا۔ اس قانون کی منظوری پر صدر نے کہا کہ ’حقیقی برابری کی طرف یہ ایک بڑا قدم ہے‘۔
تصویر: dapd
10 تصاویر1 | 10
اس سے ایک روز قبل دارالحکومت تیرانہ میں ہم جنس پسندوں کی سالانہ پریڈ کا اہتمام کورونا وائرس کی وبا کے تناظر میں فقط ورچوئل طور پر ہی کیا جا سکا۔ البانیہ میں گزشتہ روز اہم ملکی وزارتوں اور دیگر عوامی عمارت میں ہم جنس پسندوں کے لیے مخصوص کثیر رنگوں والے پرچم بانٹے گئے۔ اس بار اس مہم کا نعرہ 'فخر کیجیے، پرچم لہرائیے‘ تھا۔
واضح رہے کہ البانیہ میں سن 2010 میں صنفی امتیاز کے خاتمے کا ایک قانون منظور کیا گیا تھا، جس کے تحت ہم جنس پسندوں کے حقوق کو قانونی تحفظ فراہم کیا گیا تھا، تاہم اب بھی البانیہ میں ہم جنس پسندوں کو شادی کی اجازت نہیں ہے۔ اس کے علاوہ معاشرے میں ہم جنس پسندوں کے حوالے سے عمومی امتیازی رویے بھی موجود ہیں۔ یہ بات اہم ہے کہ البانیہ میں ہم جنس پسندوں پر گھریلو تشدد کے واقعات تو سامنے آتے رہتے ہیں، مگر ان کی سالانہ پریڈ پر کبھی کوئی حملہ نہیں ہوا۔