الحدیدہ کے بندرگاہی شہر پر قبضے کی جنگ کو یمنی تنازعے کی سب سے اہم اور بڑی لڑائی قرار دیا گیا ہے۔ اس شہر پر سعودی عسکری اتحادی گزشتہ کئی ایام سے حملے کی منصوبہ بھی کیے ہوئے تھے۔
اشتہار
سعودی عرب کی قیادت میں قائم عسکری اتحاد کی افواج کو زمینی حملے کے دوران جنگی طیاروں کی مدد بھی حاصل ہے۔ زمینی دستوں کو فی الحال ایران نواز حوثی ملیشیا کی مزاحمت کا سامنا ہے۔ اتحادی جنگی طیارے حوثی ملیشیا کے اگلے مورچوں کو خاص طور پر نشانہ بنانے میں مصروف ہیں۔ اس حملے کے آغاز کی تصدیق یمن کی بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ منصور ہادی حکومت نے کی ہے۔
منصور ہادی کی حکومت کی جانب سے جاری کردہ بیان میں واضح کیا گیا کہ الحدیدہ کی بازیابی یمن میں خانہ جنگی کے کنٹرول اور خاتمے کے لیے انتہائی اہم پیش رفت ہو گی۔ بیان کے مطابق الحدیدہ پر غیرملکی ایجنڈے کے تسلسل کے لیے عسکریت پسندوں نے قبضہ رکھا ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ اس بندرگاہ پر قبضے سے باب المندب کی آبنائے میں کمرشل بحری جہازوں کی آزادانہ نقل و حمل ممکن ہو گی۔
بدھ کی صبح سے شروع کیے جانے والے حملے کی ابتداء اُس مہلت کے اختتام کے بعد کی گئی جو متحدہ عرب امارات کی فوج کی جانب سے حوثی ملیشیا کو شہر سے انخلا کے لیے دی گئی تھی۔ یہ امر اہم ہے کہ یمنی خانہ جنگی کے شکار لاکھوں انسانوں کی زندگیوں کا انحصار الحدیدہ کی بندرگاہ پر پہنچنے والی ضروریات زندگی کی بین الاقوامی امداد پر ہے۔ الحدیدہ حوثی ملیشیا کی زیرکنٹرول سب سے بڑی بندرگاہ ہے۔
اقوام متحدہ کے انسانی امداد کے ادارے کی خاتون کوآرڈینیٹر لیزے گرانڈے نے کہا ہے کہ اگر یمن کے بندرگاہی شہر الحدیدہ میں عسکری آپریشن شروع کیا گیا تو اس کی لپیٹ میں آ کر ڈھائی لاکھ تک ہلاکتیں ہو سکتی ہیں۔ گرانڈے کے مطابق اس بندرگاہی شہر پر حملے یا محاصرے سے ہزاروں معصوم شہریوں کی زندگیوں کو شدید خطرات لاحق ہو جائیں گے۔
یمن کی اسٹریٹیجک نوعیت کی بندرگاہ الحدیدہ بحیرہ احمر پر واقع ہے اور اس پر ایران نواز حوثی ملیشیا کا کنٹرول ہے۔ منصور ہادی حکومت اور سعودی عرب کی قیادت میں قائم عسکری اتحاد اس شہر پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوششوں میں ہے۔
یمن، امن کی ترویج آرٹ سے
یمن میں ایک اسٹریٹ آرٹسٹ نے صنعا کے مقامی رہائشیوں کو مدعو کیا ہے کہ وہ گلیوں میں اپنی مرضی کی تصاوير بنائیں، موضوع لیکن یمن کے خانہ جنگی اور شورش ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/C. Gateau
شعور و آگہی
مشرق وسطیٰ، افریقہ، ایشیا اور یورپ کے دس شہروں میں ’اوپن ڈے فار آرٹ‘ کے موقع پر مراد سوبے نامی مصور کی جانب سے منعقدہ گلیوں میں تصویری اظہار کے ایونٹ میں مقامی لوگ شریک ہوئے اور انہوں نے اس کاوش کا خیر مقدم کیا۔ گلیوں میں تصاویر بنانے کے اس عمل میں ہر عمر کے مصور اور طالب علم یمن میں امن کی ترویج کے لیے شعور و آگہی پھیلا رہے ہیں۔
تصویر: Najeeb Subay
امن کا پیغام
اس ایونٹ کے بعد، جو ایک ہی وقت میں یمن کے چھ مختلف علاقوں بہ شمول مارب شہر میں منعقد ہوا، مراد سوبے نے کہا، ’’اس ایونٹ کا پیغام نہایت سادہ ہے۔ اس میں حصہ لینے والے ایک امید کا اظہار کر رہے ہیں اور یہ بتا رہے ہیں کہ وہ ملک کے اس انتہائی مشکل دور میں کیا محسوس کر رہے ہیں۔ یہ اقدام امن کی ترویج سے بھی عبارت ہے۔‘‘
جنوبی کوریا کے شہر گوانگجو میں اس تصویری نمائش میں سو سے زائد افراد شریک ہوئے۔ اس موقع پر ایونٹ کے منتظم من ہی لیز، جو خود بھی کوریائی جنگ کا حصہ رہے، نے کہا کہ نمائش دیکھنے آنے والوں پر ان تصاویر کا نہایت مثبت اثر ہوا۔ ’’امن کبھی کسی ایک شخص کی کوششوں سے ممکن نہیں ہوتا۔ مگر مراد اور ہماری ملاقات سے ہم نے یہ سیکھا کہ دل جنگ سے نفرت کریں تو امن کے قریب آ جاتے ہیں۔‘‘
تصویر: Heavenly Culture/World Peace/Restoration of Light Organization
بھرپور تعاون
تعز شہر میں اس نمائش میں مقامی افراد کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ دیگر یمنی شہروں کی طرح یہاں بھی ایسا ایک ایونٹ رکھا گیا تھا۔ عدن اور حدیدہ میں بھی ایسی ہی نمائشیں منعقد ہوئیں۔ یمنی تنازعے کو خطے کے ممالک سعودی عرب اور ایران کے درمیان پراکسی جنگ بھی قرار ديتے ہيں۔ اس جنگ میں پانچ ہزار سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں۔
تصویر: Odina for Artistic Production
ایک گہرا پیغام
مصور صفا احمد نے مدغاسکر کے دارالحکومت انتاناناریوو میں ایک تقریب کا انعقاد کیا۔ اس تقریب میں بچوں سے کہا گیا کہ وہ اپنی محسوسات کا تصویری اظہار کریں۔ یہ وہ بچے تھے، جو اپنے ماں باپ کھو چکے تھے۔ اس طرح ایک نہایت گہرا اور دل کو چھو لینے والا پیغام دیا گیا۔
تصویر: Raissa Firdaws
ایک مسکراہٹ بھی
جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیول میں یمنی اسٹونٹ یونین کی مدد سے کلچرل ڈائورسٹی آرگنائزیشن نامی تنظیم نے ورلڈ کلچر اوپن کے نام سے ایک تقریب منعقد کی۔
تصویر: Yemeni Student Union/World Culture Open
تعریف پیرس سے بھی
پیرس میں قریب 25 افراد نے اس مہم کے تحت ایک تقریب میں شرکت کی۔ اس تقریب کی آرگنائز خدیجہ السلامی، جو خود ایک فلم ساز ہیں، نے بتایا کہ وہ کیوں اس مہم میں شامل ہوئیں۔ ’’یہ بہت اہم تھا کہ مراد کے ساتھ مل کر یمنی شہریوں کو درپیش مشکلات اور پریشانیوں کو تصویری شکل میں دنیا کے سامنے لایا جائے۔‘‘
تصویر: Khadija Al-Salami
امن کی مہم پھیلتی ہوئی
مراد کی یہ آرٹ مہم بین الاقوامی سطح پر مشہور ہوتی جا رہی ہے۔ اس مہم کے تحت جنگ کے عام شہریوں پر پڑنے والے اثرات، جبری گم شدگیوں، ہیضے کی وبا اور ڈرون حملوں جیسے امور کو اجاگر کیا جا رہا ہے۔ آئندہ مہنیوں میں کینیڈا، امریکا اور جبوتی تک میں اس مہم کے تحت تصویری نمائشیں اور تقاریب منعقد کی جائیں گی۔