الحویجہ میں بھی ’اسلامک اسٹیٹ‘ کو شکست، عراقی فوج قابض
عابد حسین
5 اکتوبر 2017
عراقی فوج نے اعلان کیا ہے کہ الحویجہ کا قبضہ پوری طرح چھڑا لیا گیا ہے۔ اس اسٹریٹیجیک نوعیت کے شہر پر جہادی تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ نے سن 2014 میں قبضہ کیا تھا۔
اشتہار
عراقی فوج نے بدھ چار اکتوبر کو صوبے کرکوک میں واقع اہم شہر الحویجہ کے اطراف میں زور دار حملوں کے بعد مسلسل پیش قدمی کا سلسلہ جاری رکھا ہوا تھا، جس کے نتیجے میں اس شہر میں جہادیوں کو شکست کا سامنا رہا۔ آج پانچ اکتوبر کی صبح عراقی فوج کے آپریشن کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل عبدالامیر یار اللہ نےاعلان کیا کہ الحویجہ میں بھی جہادی تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ کو شکست دے کر باہر نکال دیا گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اب شہر کو بارودی سرنگوں اور نصب شدہ بموں سے صاف کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے۔
الحویجہ کو شامی سرحد کے قریبی علاقوں میں جہادیوں کا ایک بڑا گڑھ تصور کیا جاتا تھا۔ اس کا قبضہ چھڑانے کی مہم میں عراقی فورسز کو جنگی حکمت عملی مرتب کرنے میں امریکی فوج کے اہلکاروں کی معاونت حاصل تھی۔ داعش کو شکست دینے کے لیے قائم امریکی قیادت والے عسکری اتحاد کے جنگی طیارے بھی عسکریت پسندوں کو نشانہ بناتے رہے۔ اب شمالی عراق میں شام کی سرحد کے ساتھ ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے قبضے میں علاقے کا حجم عراقی فوج کی مسلسل کامیابیوں کے بعد انتہائی سکڑ کر رہ گیا ہے۔ موصل اور تل عفر میں سے داعش کو پہلے ہی شکست دی جا چکی ہے۔
اقوام متحدہ نے بتایا ہے کہ الحویجہ کی عسکری مہم کی وجہ سے تقریباً ساڑھے بارہ ہزار افراد کو شہر میں سے نکل مکانی کرنا پڑی ہے۔ اس سے قبل اقوام متحدہ کے انسانی بنیادوں پر امداد کے ادارے نے بتایا تھا کہ اس فوجی آپریشن کے باعث الحویجہ میں سے مجموعی طور پر 78 ہزار انسانوں کو بےگھری کا سامنا ہو سکتا ہے۔ ان افراد کے لیے اس شہر کے قریبی علاقوں میں خیمے نصب کیے جا چکے ہیں۔
عراق: موصل میں خوف سے فرار ہوتے ہوئے شہری
عراق کے دوسرے بڑے شہر موصل پر مکمل قبضے کے لیے عراقی فورسز دن رات حملوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہزاروں افراد متاثرہ علاقے چھوڑ کر فرار ہو رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/G. Tomasevic
موصل کے مغربی حصے پر قبضے کے لیے اس فوجی آپریشن کا آغاز انیس فروری کو کیا گیا تھا لیکن خراب موسم اور داعش کی طرف سے مزاحمت کے بعد یہ سست روی کا شکار ہو گیا۔ اتوار کے روز سے عراقی فورسز اس حصے پر قبضے کے لیے اپنی بھرپور کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
تصویر: Reuters
عراقی فورسز نے ملک کے دوسرے سب سے بڑے شہر موصل کے مغربی حصے میں مزید کامیابیاں حاصل کرنے کا دعویٰ کیا ہے جبکہ مغربی موصل میں جاری اس جنگ کی وجہ سے تقریباﹰ پچاس ہزار افراد یہ علاقہ چھوڑ کر فرار ہو چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/S. Salem
موصل کو دہشت گرد تنظیم داعش سے آزاد کرانے کے لیے کارروائی جاری ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق اس دوران موصل کے بچوں کی ایک بڑی تعداد دہشت زدہ ہو کر رہ گئی ہے۔
تصویر: Reuters/G. Tomasevic
ان بچوں کے دہشت زدہ ہونے کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے سامنے اپنے رشتہ داروں یا اہل محلہ کو بے دردی سے مرتے اور قتل ہوتے دیکھا ہے۔
تصویر: Reuters/G. Tomasevic
فلاحی اداروں سے منسلک افراد کا کہنا ہے کہ موصل کے متاثرہ بچوں کی ذہنی تربیت ضروری ہے کیونکہ ان میں سے زیادہ تر شدید صدمے کا شکار ہیں:’’ کچھ بچے سکتے میں بھی ہیں، اچانک رو بھی پڑتے ہیں اور چیختے چلاتے ہیں جبکہ کچھ کا رویہ انتہائی جارحانہ ہے‘‘۔
تصویر: Reuters/S. Salem
داعش کے خلاف بغداد حکومت کا فوجی آپریشن جوں جوں آگے بڑھ رہا ہے، توں توں اس سے زمین کا ماحول تباہ ہو رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ آلودگی انسانوں کے لیے کئی برسوں تک مضر صحت رہے گی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
موصل پر قبضے کی مہم میں داعش نے تیل کے کنوئیں کو آگ لگانے کے علاوہ گندھک کی ایک فیکٹری کو بھی آگ لگا دی تھی۔ آگ اور پانی کی آلودگی کے ساتھ فضا میں تباہ ہونے والی عمارتوں سے اٹھنے والی زہریلی گرد اور خاک، ہتھیار اور جنگی آلات بھی موصل اور گردونواح کے لوگوں کی جانوں کے لیے خطرے کا باعث ہوں گے۔
تصویر: Reuters/World Press Photo Foundation/The New York Times/S. Ponomarev
موصل میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی رپورٹوں کے بعد عراق میں ہیومینیٹیرین کوآرڈینیٹر لیزا گرانڈے کا کہنا تھا کہ کیمیائی ہتھیاروں کا مبینہ استعمال جنگی جرم کے زمرے میں آسکتا ہے اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ گرانڈے کے مطابق، ’’یہ انتہائی خوفناک ہے‘‘۔
تصویر: Reuters
امدادی گروپوں کے اندازوں کے مطابق موصل کے مغربی حصے میں تقریباﹰ ساڑھے چھ لاکھ شہری موجود ہیں اور ان میں سے بچوں کی تعداد تقریبا ساڑھے تین لاکھ بنتی ہے۔
تصویر: Reuters/S. Salem
عراقی فورسز نے ملک کے دوسرے سب سے بڑے شہر موصل کے مغربی حصے میں مزید کامیابیاں حاصل کرنے کا دعویٰ کیا ہے جبکہ امریکی عسکری حکام کے مطابق داعش کے غیر ملکی عسکریت پسند یہ علاقہ چھوڑ کر فرار ہونے کی کوششوں میں ہیں۔
تصویر: Reuters/Z. Bensemra
موصل کو دریائے دجلہ نے تقسیم کر رکھا ہے۔ عراقی فورسز نے تین ماہ سے زائد کی لڑائی کے بعد جنوری میں موصل کے مغربی حصے پر تو قبضہ کر لیا تھا لیکن دریائے دجلہ کی دوسری جانب مغربی حصے کا کنٹرول ابھی تک داعش کے ہاتھوں میں ہے۔
تصویر: Reuters/G. Tomasevic
امریکی فضائیہ کے بریگیڈیئر جنرل میتھیو آئیلر کا کہنا تھا، ’’کھیل ختم ہو چکا ہے۔ وہ اپنی جنگ ہار چکے ہیں اور جو آپ اس وقت دیکھ رہے ہیں، وہ وقت حاصل کرنے کے طریقے ہیں۔‘‘ امریکی کمانڈر کے مطابق مغربی موصل کی لڑائی سے پہلے ہی داعش کے متعدد سرگرم لیڈر مار دیے گئے تھے۔
تصویر: Reuters/G. Tomasevic
داعش کے خودکش حملہ آوروں کو ابھی بھی خطرہ تصور کیا جا رہا ہے لیکن اب فی الحال ایسے دس حملہ آوروں میں سے ایک ہی کامیاب ہو رہا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
اقوام متحدہ کی ترجمان روینا شمداسنی کا جنیوا میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’آئی ایس آئی ایل جان بوجھ کر بعض مقامات پر مغوی عورتوں اور بچوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرنے کی بزدلانہ حکمت عملی استعمال کر رہی ہے تاکہ فوجی کارروائیوں سے محفوظ رہا جا سکے۔‘‘
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. Mohammed
14 تصاویر1 | 14
الحویجہ کا قبضہ چھڑانے والے فوجی دستوں کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل عبدالامیر یار اللہ نے گزشتہ روز ہی نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا تھا کہ عراق کی فوج، فیڈرل پولیس اور سریع الحرکت فوج کے مشترکہ حملوں سے جہادیوں کے قدم اکھڑ گئے ہیں اور اب قبضہ چند گھنٹوں کی بات ہے۔ اسی طرح فیڈرل پولیس کے سربراہ رعد شاکر نے بھی بدھ چار اکتوبر کی شام کو بتایا تھا کہ اُن کے مسلح اہلکار الحویجہ کے نواحی علاقے ریاض پر قبضے کے بعد آگے بڑھ گئے ہیں۔
عراقی فوج نے الحویجہ پر قبضے کی مہم اکیس ستمبر کو شروع کی تھی۔