1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
صحتبرطانیہ

الزائمر کی تشخیص: برطانیہ میں نئے ’انقلابی‘ بلڈ ٹیسٹ شروع

مقبول ملک ، ڈی پی اے اور پی اے میڈیا کے ساتھ
14 ستمبر 2025

برطانیہ میں مریضوں کے ایسے نئے لیکن ممکنہ طور پر ’انقلابی‘ قرار دیے جانے والے بلڈ ٹیسٹ تجرباتی طور پر شروع کر دیے گئے ہیں، جو مستقبل میں الزائمر کی بیماری کی تشخیص میں فیصلہ کن سنگ میل ثابت ہو سکتے ہیں۔

پی ای ٹی ٹوموگرافی کے ذریعے حاصل ہونے والی دو تصایر: دائیں طرف الزائمر کے ایک مریض کا دماغی اسکین، بائیں طرف ایک صحت مند انسان کے دماغ کا اسکین
پی ای ٹی ٹوموگرافی کے ذریعے حاصل ہونے والی دو تصایر: دائیں طرف الزائمر کے ایک مریض کا دماغی اسکین، بائیں طرف ایک صحت مند انسان کے دماغ کا اسکینتصویر: Lutz Kracht/MPI/dpa/picture alliance

برطانوی دارالحکومت لندن سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق ڈیمنشیا کے مشتبہ مریضوں کی ملک بھر میں کام کرنے والے 'میموری کلینکس‘ کے ذریعے اس مقصد کے تحت لسٹنگ شروع کر دی گئی ہے کہ یہ دیکھا جا سکے کہ نیشنل ہیلتھ سروس یا NHS کے تحت کیے جانے والے ایسے ٹیسٹ الزائمر کی تشخیص میں کتنے مددگار ثابت ہوتے ہیں۔

تجربات میں ٹاؤ نامی پروٹین کے تناسب کا کردار

مشتبہ مریضوں کے خون کے معائنوں کا یہ تجرباتی سلسلہ 'بلڈ بائیو مارکر چیلنج‘ نامی اس پروگرام کے تحت شروع کیا گیا ہے، جس کے لیے کئی ملین پاؤنڈ مہیا کیے گئے ہیں اور جس میں کئی سرکردہ اداروں کی طرف سے فیصلہ کن تعاون بھی کیا جا رہا ہے۔

اس پروگرام کے لیے عملی مدد کرنے والے ملکی اداروں میں الزائمر سوسائٹی اور الزائمر ریسرچ یو کے بھی شامل ہیں۔ ماہرین کو امید ہے کہ اس تجرباتی پروگرام کے نتائج سے الزائمر کی طبی تشخیص کے عمل سے متعلق کئی اہم سوالات کے جوابات اگلے تین برس کے اندر اندر واضح ہو جائیں گے۔

الزائمر کے ایک مریض کے دماغی اعصابی نظام کی ایک تصویرتصویر: Gladden W. Willis/OKAPIA KG/picture-alliance

اس تجرباتی تحقیقی پروگرام کی قیادت یونیورسٹی کالج لندن (UCL) کے ماہرین کی ایک ٹیم کر رہی ہے۔ ان تجربات سے یہ پتا چلانے کی کوشش کی جائے گی کہ متعلقہ افراد کے خون میں p-tau217 نامی پروٹین کا تناسب کتنا ہے اور آیا اس پروٹین کے تناسب کی بنیاد پر کسی بھی انسان میں الزائمر کے مرض کی قبل از وقت لیکن بالکل درست تشخیص کی جا سکتی ہے؟

تحقیق کے دوران کیا کیا جائے گا؟

یونیورسٹی کالج لندن کے ماہرین کے مطابق ایسے بلڈ ٹیسٹ پہلے ہی اس حوالے سے کسی حد تک مؤثر ثابت ہوئے ہیں کہ کسی مریض کے خون میں p-tau217 نامی مخصوص پروٹین کا تعین کیا جا سکے۔

اب آئندہ تقریباﹰ تین برسوں میں ماہرین یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ اگر کسی مریض کی یادداشت یا سوچنے کی صلاحیت متاثر ہونے لگی ہو، تو کیا اس کی یادداشت کا طبی جائزہ لینے کے عمل کے آغاز پر اس کے خون میں یہی پروٹین شامل کرنے سے الزائمر کی تشخیص اور علاج میں کوئی مدد مل سکتی ہے؟

ڈیمیشیا کے مریض رفتہ رفتہ اپنی یادداشت کھونے لگتے ہیں: تصویر میں ایک بزرگ مریضہ تھیراپی کے دوران چند میموری کارڈز کے ساتھتصویر: Sven Hoppe/dpa/picture-alliance

اس ریسرچ کے دوران تقریباﹰ 1,100 مشتبہ مریضوں کی ذہنی صحت کا مختصر وقفوں سے مسلسل طبی مطالعہ کیا جائے گا۔

ان میں مختلف جغرافیائی، نسلی اور اقتصادی پس منظر والے مرد اور خواتین شامل ہوں گے اور ایک مختلف گروپ ایسے مریضوں کا بھی ہو گا، جنہیں ممکنہ طور پر ڈیمنشیا کے علاوہ ذیابیطس یا دیگر طبی مسائل کا بھی سامنا ہو۔

فٹبال کھلاڑیوں میں ڈیمنشیا کی بیماری کا زیادہ خطرہ کیوں ہوتا ہے؟

زیر مطالعہ افراد کے اس تنوع سے اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ خون کے ایسے معائنوں سے حاصل ہونے والے تحقیقی نتائج ملکی آبادی کے وسیع تر حصے کے لیے قابل اطلاق ہوں۔

الزائمر کے مریض کے دماغی اعصابی خلیات میں آنے والی تبدیلیاں، ایک السٹریشنتصویر: xanimaxx3dx/Depositphotos/IMAGO

ڈیمنشیا کے مرض سے جڑی دو کلیدی پروٹینز

طبی ماہرین کی طرف سے اب تک کیے گئے تجزیوں کے مطابق اس بلڈ ٹیسٹ سے یادداشت کی کمزروی کے شکار 80 فیصد تک افراد کے بارے میں یہ معلوم کیا جا سکتا ہے کہ آیا وہ مستقبل میں الزائمر کی بیماری کا شکار ہو سکتے ہیں۔

الزائمر کی بیماری بین الاقوامی سطح پر ڈیمنشیا کے مرض کی سب سے عام وجہ ہے اور اس کا تعلق پروٹینز کی ان دو مخصوص لیکن کلیدی اقسام سے ہے، جو دماغ میں پائی جاتی ہیں۔

ان میں سے ایک پروٹین کا نام ایمی لوئڈ (amyloid) ہے جبکہ دوسری ٹاؤ (tau) کہلاتی ہے۔ برطانیہ میں کیے جانے والے بلڈ ٹیسٹ تجربات میں ماہرین کی توجہ ٹاؤ نامی پروٹین کی ایک خاص ذیلی قسم 'پی ٹاؤ 217‘ پر مرکوز رہے گی۔

ادارت: شکور رحیم

مقبول ملک ڈی ڈبلیو اردو کے سینیئر ایڈیٹر ہیں اور تین عشروں سے ڈوئچے ویلے سے وابستہ ہیں۔
ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں