1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

الزامات کا پتہ نہ وکیل تک رسائی، سعودی خاتون پر مقدمہ شروع

14 مارچ 2019

سعودی عرب میں انسانی حقوق کی ایک خاتون کارکن کے خلاف مقدمے کی کارروائی شروع ہو گئی ہے۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے دیگر کارکنوں کا کہنا ہے اس خاتوں کو دوران حراست جسمانی اور جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

Saudische Frauenrechtlerin 
Loujain al-Hathloul
تصویر: Reuters/ Amnesty International/M. Wijntjes

سعودی عرب کی ایک عدالت نے انسانی حقوق کی معروف کارکن لجين الهذلول کے خلاف مقدمے کی کارروائی بدھ 13 مارچ کو شروع کی۔ الھزلول کو ایک برس قبل اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب سعودی حکام نے انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا تھا۔

لجين الهذلول سعودی عرب میں عورتوں کو کار چلانے کی اجازت دینے کے حق میں مہم چلاتی رہی تھیں اس کے علاوہ وہ سعودی عرب میں مردانہ سرپرستی کے نظام کے خلاف جاری مہم کا حصہ تھیں۔ الھزلول کو اُس وقت شہرت ملی تھی جب انہوں نے 2014ء میں سعودی عرب سے بذریعہ کار متحدہ عرب امارات میں داخل ہونے کی کوشش کی تھی۔

سعودی عرب: خواتین کے لیے مرد سرپرست کی شرط کے خلاف احتجاج

02:36

This browser does not support the video element.

لجين الهذلول کیس کے بارے میں ہم اب تک کیا جانتے ہیں:

  • الھزلول کو گزشتہ برس دیگر خواتین کے ساتھ اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب سعودی حکومت نے انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا۔

  • الھزلول کے خاندان کے ارکان اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے دیگر افراد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ الھزلول کو دوران حراست کوڑوں اور جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

  • الھزلول کے خاندان کے مطابق انہیں اس مقدمے کے لیے کسی وکیل کی خدمات حاصل کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔

  • مقدمے کی کارروائی شروع ہونے سے چند گھنٹے قبل سعودی حکام نے مقدمہ سنے جانے کا مقام تبدیل کر دیا اور دہشت گردی کی عدالت کے بجائے ان کا مقدمہ فوجداری عدالت میں بھیج دیا گیا۔

انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے منگل 12 مارچ کو سعودی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ الھزلول کو فی الفور رہا کریں کیونکہ وہ کوئی غلط کام نہیں کیا۔ ایمنسٹی کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق، ’’انہیں پر امن فعالیت پسندی پر کئی ماہ سے حراست میں رکھا گیا ہے اور ممکنہ طور پر انہیں جنسی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔‘‘

لجين الهذلول سعودی عرب میں عورتوں کو کار چلانے کی اجازت دینے کے حق میں مہم چلاتی رہی تھیں.تصویر: picture-alliance/AP Photo/Loujain al-Hathloul

الھزلول کے بھائی ولید نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کے خاندان کو ابھی تک ان الزامات سے آگاہ نہیں کیا گیا جن کی بنیاد پر لجين الهذلول کے خلاف مقدمہ شروع کیا گیا ہے۔ ولید کے مطابق ان کی بہن کو سعودی بادشاہ سے معافی طلب کرنے کے لیے ایک دستاویز پر دستخط کرنے پر مجبور کیا گیا۔

ولید کے مطابق الھزلول کو دوران حراست بجلی کے جھٹکے دیے گئے، ان کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور جنسی طور پر ہراساں کیا گیا۔ڈی ڈبلیو کے ایڈیٹرز ہر صبح اپنی تازہ ترین خبریں اور چنیدہ رپورٹس اپنے پڑھنے والوں کو بھیجتے ہیں۔ آپ بھی یہاں کلک کر کے یہ نیوز لیٹر موصول کر سکتے ہیں۔

ڈرائیونگ کی اجازت ملنے پر سعودی خواتین کے ارادے کیا ہیں؟

01:40

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں