1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

الزامات کی بارش: اسلام آباد کو قربانی کا بکرا بنانے کی کوشش

عبدالستار، اسلام آباد
10 اگست 2021

امریکہ کی طرف سے پھر طالبان کی خفیہ پناہ گاہوں کا تذکرہ اور کابل انتظامیہ کی طرف سے اسلام آباد پر الزامات کی بارش جاری ہے۔ کئی حلقوں کا خیال ہے کہ کہیں افغان صورت حال پر پاکستان کو قربانی کا بکرا تو نہیں بنایا جارہا ہے۔

Pakistan Grenzstadt Chaman Menschen mit Taliban-Flagge
تصویر: Asghar Achakzai/AFP/Getty Images

کینیڈا کے ایک سابق سفیر برائے افغانستان اور دوسرے کئی حلقے بھی پاکستان پر تابڑ توڑ حملے کر رہے ہیں اور اسلام آباد پر پابندیوں کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

واضح رہے کہ کل وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی اس طرح کے جذبات کا اظہار کیا اورخبردار کیا کہ اسلام آباد کو قربانی کا بکرا نہ بنایا جائے۔ پاکستان میں کئی حلقے وزیر خارجہ کے اس بیان سے متفق نظر آتے ہیں۔

دس برس سے پاکستان کی دوغلی پالیسی پر تنقید کر رہا ہوں، کینیڈین سفارتکار

امریکی ناکامی اور پاکستان

دفاعی تجزیہ نگار جنرل ریٹائرڈ امجد شیعب کا کہنا ہے کہ امریکہ اپنی ناکامی چھپانے کے لئے پاکستان کوبدنام کر رہا ہے اور اسلام آباد کو قربانی کا بکرا بنایا جارہا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "امریکہ میں یہ سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ دو ٹریلین ڈالرزخرچ کر کے امریکہ کو کیا فائدہ ہوا اور واشنگٹن وہاں سے جلد بازی میں کسی سیاسی تصفیے کے بغیر کیوں نکلا، جس کی وجہ سے حالات خراب ہوئے۔ ان خراب حالات کی ذمہ داری امریکہ اور اس کے اتحادی پاکستان پر ڈال رہے ہیں۔‘‘

پاکستانی وزیر اعظم عمران خان اور ان کا وفد افغان صدر اشرف غنی کے ساتھ بات چیت میں مصروفتصویر: ARG

جنرل امجد کے بقول افغان صدر اشرف غنی نے اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے امن مذاکرات کو کامیاب نہیں ہونے دیا اور ایک غیر جانب دار حکومت نہیں بننے دی اور اب کابل اور واشنگٹن یہ تاثر دے رہے ہیں کہ وہ افغانستان میں اس لیے ناکام ہوئے کیونکہ پاکستان میں طالبان کی خفیہ پناہ گاہیں ہیں۔

لاکھوں افغان مہاجرین

جنرل ریٹائرڈ امجد شیعب کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان نے متعدد مرتبہ امریکہ کو کہا کہ یہ تین ملین سے زیادہ جو افغان مہاجرین ہیں ان کو واپس بلایا جائے، '' کیونکہ ہم پر الزام لگایا جاتا ہے کہ ہم نے طالبان کو خفیہ پناہ گاہیں فراہم کی ہیں۔ لیکن 30 لاکھ مہاجرین میں سے اگر کوئی وہاں جاتا ہے اور وہاں جاکے لڑائی میں حصہ لیتا ہے تو ہم اسے کیسے پکڑ سکتے ہیں۔ ہم کیسے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ان میں سے کون مہاجر ہے اور کون جنگجو ہے۔ اگر بالفرض مان بھی لیا جائے کہ ایسی کوئی خفیہ پناہ گاہیں تو امریکہ نے بیس سال میں ان کو ختم کیوں نہیں کیا۔‘‘ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر پاکستان پر پابندی لگائی گئی تو پاکستان مکمل طور پر چینی کیمپ میں ہوگا۔

افغان نیشنل آرمی مختلف سرحدی مقامات پر گشت جاری رکھے ہوئے ہےتصویر: AA/picture alliance

افغان طالبان کی حمایت کا تاثر غلط

پشاور یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات سے وابستہ ڈاکٹر حسین شہید سہروردی کا کہنا ہے کہ یہ تاثر بالکل غلط ہے کہ پاکستان افغان طالبان کی حمایت کر رہا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "پاکستان نے ماضی کی غلطیوں سے سیکھا ہے اور وہ یہ تسلیم نہیں کرے گا کہ طالبان بزور طاقت کابل پر قبضہ کر لیں کیونکہ اس سے مہاجرین کا بہت بڑا بہاؤ پاکستان کی طرف ہوگا اور افغان طالبان کی کامیابی کے نتیجے میں پاکستان میں مذہبی جماعتیں مزید انتہا پسندی کی طرف جائیں گے۔‘‘

کیا پاک امریکا تعلقات میں رومانس ختم ہونے جا رہا ہے؟

ڈاکٹر سہروردی کے مطابق طالبان کی 60 فیصد قیادت دوحہ میں بیٹھی ہوئی ہے، جو خود امریکہ نے وہاں بٹھائی ہے۔ " بقیہ طالبان رہنماؤں کی موجودگی ایران اور دوسرے ممالک میں بھی ہے جبکہ پاکستان میں بمشکل دس فیصد قیادت ہے اور وہ بھی غیر فعال ہے۔ یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ پاکستان میں خفیہ پناہ گاہیں ہیں۔‘‘

انہوں نے سوال کیا کہ افغان فوجی بڑی تعداد میں ہتھیار ڈال رہے ہیں، ''جو افغان پشتون سپاہی کسی غیر پشتون افغان آفیسر کو سلوٹ نہیں مار رہا کیا یہ بھی پاکستان کی سازش ہے۔‘‘

ڈاکٹر سہروردی کا کہنا تھا کہ اس طرح کے الزامات سے پاکستان اور مغرب کے درمیان تعلقات مزید کشیدہ ہونگے۔

پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ بھی اعلیٰ افغان مصالحتی کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ سے ملاقات کر چکے ہیںتصویر: Press Office High Council for Reconciliation

فوری جنگ بندی میں پاکستانی کردار

 نیشنل پارٹی کے رہنما سینیٹر محمد اکرم بلوچ کا کہنا ہے کہ پاکستان کو فوری طور پر جنگ بندی کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "معید یوسف صاحب نے یہ کہا ہے کہ پاکستان کابل پہ طالبان کے قبضے کو برداشت نہیں کرے گا لیکن طالبان تو مسلسل مختلف صوبائی دارالحکومتوں پر قبضہ کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے جنگ میں شدت آ رہی ہے اور اس کا پاکستان کو بہت بھاری نقصان ہو گیا۔ لہذا پاکستان کو فوری طور پر جنگ بندی کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اگر اس نے ایسا نہیں کیا تو بین الاقوامی طور پر پابندیاں لگ سکتی ہیں جس سے معیشت کا جنازہ نکل جائے گا۔‘‘

پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے کا نوے فیصد کام مکمل

ان کا مزید کہنا تھا کہ دنیا یہ نہیں مانے گی کہ پاکستان کا طالبان پر کوئی اثر رسوخ نہیں ہے یا اسلام آباد کے طالبان رہنماؤں سے تعلقات نہیں ہے۔ "پاکستان اور افغان طالبان کے تاریخی تعلقات ہیں اور خود انہوں نے بھی اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے طالبان کو اس بات پر قائل کیا کہ وہ مذاکرات میں شرکت کریں تو آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ان سے تعلقات نہیں ہے۔ آنے والے ہفتوں میں پاکستان پر مزید دباؤ بڑھے گا۔‘‘

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں