مصری فوج کے سابق سربراہ اور ملک کے نئے صدر عبدالفتح السیسی نے دارالحکومت قاہرہ میں واقع صدراتی محل میں اپنی نئی کابینہ کے پہلے اجلاس کی صدارت کی ہے۔
تصویر: Reuters
اشتہار
نئی کابینہ کے ارکان نے آج ہی اپنے عہدوں کا حلف اٹھایا ہے۔ مئی کے آخر میں منعقد ہونے والے صدارتی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد السیسی نے آٹھ جون کو اپنے عہدے کا حلف اٹھایا تھا۔
نئی مصری کابینہ میں وزیرخارجہ سامح شُکری سمیت 13 نئے چہرے شامل ہیں۔ شُکری قبل ازیں واشنگٹن میں مصر کے سفیر رہ چکے ہیں۔ نئی حکومت میں چار خواتین سمیت 34 وزراء شامل کیے گئے ہیں۔ حکومت کی سربراہی وزیراعظم ابراہیم مہلب کر رہے ہیں۔ وہ گزشتہ پانچ ماہ تک عبوری حکومت کی بھی سربراہی کرتے رہے ہیں۔ عبدالفتح السیسی کی قیادت میں فوج کی طرف سے ملک کے پہلے منتخب صدر محمد مُرسی کی حکومت گزشتہ برس تین جولائی کو ختم کیے جانے کے بعد مہلب دوسرے عبوری وزیراعظم تھے۔
السیسی ملک کے سابق وزیر دفاع بھی رہ چکے ہیں۔ انہوں نے گزشتہ ماہ ہونے والے صدارتی انتخابات میں فتح یاب ہونے کے بعد رواں ماہ جون میں ہی اپنے عہدے کا حلف اٹھایا ہے۔ انہوں نے عزم ظاہر کیا ہے کہ وہ ملک میں سلامتی کی صورتحال کو بہتر کرنے کے علاوہ مشکلات میں گھِری معیشت کی بہتری کے لیے بھی اقدامات کریں گے۔ مصر کے سابق صدر اور کئی دہائیوں تک اقتدار میں رہنے والے حکمران حسنی مبارک کی حکومت کے خلاف شروع ہونے والی تحریک کے بعد سے یہ ملک مسلسل سیاسی حوالے سے عدم استحکام کا شکار ہے۔ عرب اسپرنگ کے نام سے جانی جانے والی تحریک کے نتیجے میں حُسنی مبارک کو 2011ء میں اقتدار سے الگ ہونا پڑا تھا۔
مرسی کے حامیوں کے خلاف کریک ڈاؤن، سینکڑوں ہلاک
مصر میں معزول صدر محمد مرسی کے اسلام پسند حامیوں کو منتشر کرنے کے لیے سکیورٹی اہلکاروں نے کارروائی کی ہے، اخوان المسلمون کے مطابق ان کے سینکڑوں کارکنوں کو ہلاک کر دیا گیا ہے۔
تصویر: STR/AFP/Getty Images
مصر میں سکیورٹی فورسز اور سابق صدر محمد مُرسی کے حامیوں کے درمیان جھڑپوں کے نتیجے میں ہلاکتوں کی تعداد 525 سے بھی تجاوز کر گئی ہے۔ اس کے برعکس اخوان المسلمون کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں کریک ڈاؤن کے دوران ان کے دو ہزار سے زائد حامی مارے گئے ہیں۔
تصویر: Mosaab El-Shamy/AFP/Getty Images
دریں اثناء ترک وزیراعظم رجب طیب ایردوآن نے مصری سکیورٹی فورسز کی طرف سے اس کریک ڈاؤن کو ’قتل عام‘ قرار دیتے ہوئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے فوری طور پر عملی ردعمل ظاہر کرنے کی اپیل کی ہے۔
تصویر: Reuters
محمد مرسی کی حامی جماعت اخوان المسلمون نے کہا ہے کہ وہ فوجی بغاوت کے خاتمے تک اپنی پر امن جدوجہد جاری رکھیں گے۔ اس جماعت کے ترجمان کا کہنا ہے انہوں نے ہمیشہ عدم تشدد اور امن کی بات کی ہے۔
تصویر: Reuters
کریک ڈاؤن کے دوران احتجاجی کیمپ کے نزدیک واقع مسجد بھی بری طرح متاثر ہوئی۔ دریں اثناء مصری فوج کے حمایت یافتہ عبوری وزیر اعظم نے معزول صدر محمد مرسی کے حامیوں کے خلاف پرتشدد کریک ڈاؤن کا دفاع کیا ہے۔
تصویر: Reuters
مصر میں معزول صدر محمد مرسی کے اسلام پسند حامیوں کو منتشر کرنے کے لیے سکیورٹی اہلکاروں نے کارروائی کی ہے۔ اخوان المسلمون کے مطابق ان کے سینکڑوں کارکنوں کو ہلاک کر دیا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
محمد مرسی کے حامی کئی ہفتوں سے دارالحکومت میں احتجاجی کیمپ لگائے ہوئے ہیں، ان کا مطالبہ ہے کہ معزول صدر کو بحال کیا جائے۔ قاہرہ کے شمال مشرق میں سب سے بڑے احتجاجی کیمپ میں مظاہرین کے خلاف آنسو گیس کا استعمال بھی کیا گیا ہے۔
تصویر: Reuters
سرکاری ٹیلی وژن کے مطابق آج ملکی فوج تمام احتجاجی کیمپ ختم کروانے کی کوشش کرے گی۔ دوسری طرف مصر پولیس نے اخوان المسلمون کے اہم رہنما محمد البلتاجی کو گرفتار کر لیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
اخوان المسلمون کے کارکن پولیس کی کارروائی سے متاثر ہونے والی ایک خاتون کو پانی پلا رہے ہیں۔ اخوان المسلمون کے مطابق ہلاکتوں کے علاوہ پانچ ہزار افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔
تصویر: KHALED DESOUKI/AFP/Getty Images
احتجاجی کیمپوں کے خلاف عبوری حکومتی کارروائی کے آغاز کے بعد اخوان المسلمون کی جانب سے مصری عوام سے اپیل بھی کی گئی کہ وہ سڑکوں پر نکل آئیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
اخوان المسلمون کے ترجمان جہاد الحداد کا کہنا تھا کہ یہ احتجاجی کیمپوں کو منتشر کرنے کا عمل نہیں بلکہ فوجی بغاوت کے بعد اپوزیشن کی آواز کو دبانے کی ایک خونی کارروائی ہے۔
تصویر: Reuters
رابعہ العدویہ مسجد کے قریب ایک مسجد کو مبینہ طور پر عارضی مردہ خانے کے طور پر استعمال کیا گیا اور اس میں کُل 43 لاشیں پہنچائی گئی۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ہلاک ہونے والے تمام مرد تھے اور ان کو گولیاں لگی ہوئی تھیں۔
تصویر: KHALED DESOUKI/AFP/Getty Images
وزارت داخلہ کے مطابق النہضہ اسکوائر کا علاقہ اب مکمل طور پر احتجاجیوں سے خالی کرا لیا گیا ہے اور پوری طرح حکومتی سکیورٹی کے کنٹرول میں ہے۔ اس چوک میں نصب تمام خیمے بھی ہٹا دیے گئے ہیں۔
تصویر: STR/AFP/Getty Images
سکیورٹی اہلکاروں کے مطابق اس کیمپ سے درجنوں افراد کو حراست میں بھی لیا گیا ہے۔ حکام کے مطابق علاقے کے مکینوں نے بھی سکیورٹی اہلکاروں کی معاونت کی ہے۔
تصویر: STR/AFP/Getty Images
قاہرہ میں معزول صدر کے حامیوں نے دو احتجاجی کیمپ قائم کر رکھے تھے۔ ان میں سے ایک قاہرہ یونیورسٹی کے باہر تھا جو قدرے چھوٹا اور اپنے حجم کے اعتبار سے بڑا کیمپ رابعہ العدویہ مسجد کے باہر تھا۔
تصویر: KHALED DESOUKI/AFP/Getty Images
سکیورٹی آپریشن کے شروع ہونے پر فوج نے سینکڑوں ریت کے تھیلوں کو بھاری ٹرکوں پر لاد دیا تھا۔ اس کے علاوہ مظاہرین کی جانب سے تیار کردہ اینٹوں کی حفاظتی دیواروں کو بھی توڑ دیا۔ اس کام کے لیے فوج نے بلڈوزر کا استعمال کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
یورپی یونین سمیت، ترکی، ایران، قطر اور برطانیہ نے احتجاجی کیمپوں پر سکیورٹی فورسز کے کریک ڈاؤن اور ہلاکتوں پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔
تصویر: KHALED DESOUKI/AFP/Getty Images
فوج کی مدد سے پولیس نے اس آپریشن کا آغاز بدھ کی صبح کیا۔ اگلے تین گھنٹوں کی بھرپور کارروائی کے بعد دونوں کیمپوں کو تقریباً خالی کرا لیا گیا اور احتجاجی مظاہرین کو منتشر کر دیا گیا۔
تصویر: STR/AFP/Getty Images
17 تصاویر1 | 17
السیسی یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ ایسے لوگوں سے کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی جو حکومت اور مصریوں کے خلاف ہتھیار اٹھائیں گے۔ اس بات کا درپردہ اشارہ دراصل سابق صدر محمد مُرسی کے حامیوں کی طرف تھا۔ یاد رہے کہ مُرسی کی حامی اخوان المسلمون کو کالعدم قرار دیا جا چکا ہے اور اس کے سینکڑوں حامیوں اور رہنماؤں کے خلاف مقدمات زیر سماعت ہیں۔
محمد مُرسی کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے ان کے حامیوں کی طرف سے دھرنوں اور مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا تھا۔ تاہم ملکی سکیورٹی فورسز کی طرف سے دھرنوں میں شریک مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن کے نتیجے میں اخوان المسلمون کے سینکڑوں ارکان ہلاک ہوئے تھے جبکہ ہزاروں مظاہرین کو گرفتار بھی کیا گیا تھا۔
یہ پہلا موقع ہے کہ ملکی کابینہ میں وزیر اطلاعات کو شامل نہیں کیا گیا۔ یہ فیصلہ دراصل ملک میں نئے بنائے گئے آئین کے تحت کیا گیا ہے جس میں ایک میڈیا اور پریس کو ریگولیٹ کرنے کے لیے ’ایک آزاد ادارے‘ کے قیام کا کہا گیا ہے۔
2011ء میں حُسنی مبارک کی حکومت کے خاتمے کے بعد فعالیت پسندوں اور میڈیا کے حق کے لیے آواز بلند کرنے والوں کی جانب سے وزارت اطلاعات اور سرکاری میڈیا کے خاتمے کے مطالبات سامنے آئے تھے۔ حُسنی مبارک کے بعد عبوری طور پر عنان اقتدار سنبھالنے والی ملٹری کونسل نے اس فیصلے کی حمایت کی تھی تاہم بعد میں یہ وزارت دوبارہ بحال کر دی گئی تھی۔