الشباب کے جنگجُو اپنے اہم بندرگاہی ٹھکانے سے پسپا
6 اکتوبر 2014صومالیہ کے جنوب مشرقی علاقے زیریں شبیلی کے بندرگاہی قصبے کو الشباب کے جنگجو گزشتہ کچھ عرصے سے اپنی سمندری سرگرمیوں کے لیے استعمال کر رہے تھے۔ اسی قصبے کی پورٹ پر وہ اپنے لیے اسلحے کی رسد وصول کرتے تھے۔ یہ الشباب کا خاصا اہم ٹھکانا تصور کیا جاتا رہا ہے۔ اتوار کے روز افریقن یونین کے دستوں اور صومالیہ کے فوجیوں نےکامیاب پلاننگ کے ذریعے براوہ کے قصبے سے انتہا پسند جہادیوں کو فرار ہونے پر مجبور کر دیا۔
افریقن یونین کے صومالیہ کے مشن اور متعین فوجی دستوں کی قائم مقام سربراہ لیڈیا وانیوٹو کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ وہ صومالیہ کی عوام کو ایک اہم اور پرمسرت خبر دینا چاہتی ہیں کہ الشباب کا اہم ترین گڑھ براوہ اب صومالی حکومت کے کنٹرول میں آ گیا ہے۔ فوجی ذرائع کے مطابق افریقی یونین کے فوجی دستے اور صومالی فوجی اتوار کے روز براوہ کے گردونواح میں جمع ہو گئے تھے اور اب آج پیر کے روز یہ تمام شہر میں داخل ہوں گے۔ ایک اعلیٰ فوجی افسر نے نیوز ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ شہر میں اب الشباب کا نام و نشاں نہیں لیکن عقل مندی کا تقاضا ہے کہ شہر میں جلد بازی سے داخل نہ ہوا جائے۔
صومالیہ کے جنوب مشرقی علاقے زیریں شبیلی کے گورنر عبد القادر محمد سیدی کا کہنا ہے کہ افریقی یونین کے فوجی دستوں اور صومالی فوج کی آمد سے قبل ہی الشباب نے شہر خالی کر دیا تھا۔ اِن فوجیوں نے پہنچتے ہی شہر کا محاصرہ بھی کر لیا۔ گورنر عبدالقادر محمد سیدی کا کہنا ہے کہ فوج تیزی سے شہر میں اِس لیے بھی داخل نہیں ہوئی کہ کہیں مقامی آبادی بہت زیادہ خوفزدہ نہ ہو جائے۔ گورنر نے اِس کی تصدیق کی ہے کہ کچھ پیدل فوجی دستے اِس وقت شہر میں موجود ہیں اور شہر کی مجموعی صورت حال پرسکون ہے اور کسی جانب سے مزاحمت محسوس نہیں کی جا رہی ہے۔
الشباب کے مسلح کارروائیوں کے لیے مقرر ترجمان شیخ عبدالاسیس ابُو مصعب نے براوہ پر صومالی فوج کے قبضے اور اپنے عسکریت پسندوں کے فرار پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ صومالیہ کے بڑے شہر موغادیشو میں یونیورسٹی کے ایک استاد حسین نور نے براوہ پر صومالی حکومتی کنٹرول کو انتہائی اہم پیش رفت قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ انتہا پسند تنظیم الشباب کے لیے بہت بڑا دہچکا ہے۔ حسین نور کے مطابق الشباب اسی بندرگاہ سے کوئلہ ایکسپورٹ کر کے سرمایہ حاصل کرتی تھی اور پھر اسی سرمایے سے غیرقانونی انداز میں اسلحہ خرید کر براوہ لایا جاتا تھا۔ براوہ پر حکومتی فوج کے قبضے کے بعد اب موغادیشو سے دو سو کلومیٹر تک الشباب کا کوئی ٹھکانا نہیں رہا ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ براوہ سے الشباب کی پسپائی سے انتہا پسند تنظیم کی مکمل شکست نہیں ہوئی کیونکہ ابھی بھی یہ صومالیہ کے ایک بڑے علاقے پر قابض ہے۔