1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

القاعدہ کا مستقبل، ایک تجزیہ

زبیر بشیر14 اگست 2013

القاعدہ کے قیام کو ربع صدی مکمل ہونے کے موقع پر بعض تجزیہ کاروں نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ پاکستان میں ڈرون حملوں میں القاعدہ کی قیادت کی اکثریت کی ہلاکت کے بعد اب اس کا مرکز جزیرہ نما عرب میں منتقل ہو رہا ہے۔

تصویر: imago stock&people

رواں مہینے کے دوران القاعدہ کے قیام کو پچیس برس مکمل ہوجائیں گے۔ حالیہ دنوں میں یہ دیکھا گیا ہے کہ یمن اور دیگر عرب ممالک میں اس تنظیم کا اثر ونفوذ بڑھ رہا ہے۔ اس کی ایک بڑی مثال گذشتہ ہفتے اس تنظیم سے وابستہ ایک شاخ کی جانب سے ممکنہ حملوں کے پیشِ نظر مشرق وسطیٰ اور افریقہ میں امریکی اور مغربی سفارت خانوں کی بندش دیکھی گئی تھی۔

امریکی صدر باراک اوباما نے بھی جزیرہ نما عرب میں موجود شدت پسند گروپ (AQAP) سے خبردار کیا ہے۔ یہ گروپ اِس وقت یمن میں بہت زیادہ مؤثر ہے۔ القاعدہ سے وابستہ اس گروپ کی مرکزی قیادت کے خلاف انتہائی کامیاب کارروائیوں کے باوجود اب بھی یہ گروپ ایک بڑا خطرہ بنا ہوا ہے۔

یمن میں القاعدہ کی ایک شاخ کا رہنما ناصر الوحشیتصویر: picture-alliance/dpa

صدر اوباما کی جانب سے جاری کیا جانے والا یہ انتباہ اس امریکی اقدام کے فوری بعد سامنے آیا ہے جس کے تحت مشرق وسطیٰ اور افریقہ میں دہشت گردی کے خطرات کے پیشِ نظر 19 سفارت خانوں کو عارضی طور پر بند کر دیا گیا تھا۔ اس حوالے سے جاری کی گئی انٹلیجنس رپورٹس میں کہا گیا تھا کہ القاعدہ کی عرب میں موجود شاخ امریکی یا مغربی سفارت خانوں کو نشانہ بنانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ ان خفیہ رپورٹوں کی بنیاد اس ٹیلی فونک گفتگو کا پکڑا جانا قرار دیا جارہا ہے، جس میں القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری اور (AQAP) کے سربراہ ناصر الوحشی بات چیت کر رہے ہیں۔

پاکستان میں مئی 2011ء میں ہونے والے امریکی آپریشن میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد ایمن الظواہری نے القاعدہ کی قیادت سنبھال لی تھی۔ باسٹھ سالہ ایمن الظواہری کے بارے میں شبہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ وہ افغانستان کے ساتھ منسلک پاکستان کے کسی سرحدی علاقے میں روپوش ہے۔

اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد ایمن الظواہری نے القاعدہ کی قیادت سنبھالیتصویر: picture-alliance/ dpa

پاکستان میں اسلام پسند عسکری گروپوں کے امور کے ماہر اور معروف تجزیہ کار رحیم اللہ یوسف زئی کے مطابق القاعدہ کی بنیاد سن 1988 میں پشاور میں ضرور رکھی گئی تھی اور اب وہاں موجود اس گروپ کی قیادت کی صرف علامتی اہمیت ہی باقی ہے۔ اس جماعت کی قیادت کا مرکز اب تبدیل ہوچکا ہے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ’’ اگر ہم طاقت، مضبوطی اور مؤثر ہونے کے معنوں میں دیکھیں تو القاعدہ کا مرکز پاکستان سے تبدیل ہوچکا ہے۔‘‘ اس حوالے سے ان کا مزید کہنا تھا، ’’ اب یہ (القاعدہ) پاکستان یا افغانستان میں موجود نہیں ہے، اس کے زیادہ تر اتحادی یا کارکن بھی اب پاکستانی یا افغانی نہیں ہیں، اس جماعت کے منصوبے اور احکامات اب ایمن الظواہری کی جانب سے آتے ہیں۔‘‘

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے بات چیت کرتے ہوئے القاعدہ کی موجودہ حیثیت کے حوالے معروف پاکستانی مصنف اور دفاعی تجزیہ کار امیتاز گل کا کہنا تھا کہ القاعدہ کی قیادت ایمن الظواہری کے پاس موجود ضرور ہے لیکن یہ جماعت اب مختلف خطوں میں تقسیم ہوچکی ہے۔ اسی حوالے سے امریکی اسکالر ڈیوڈ گارٹن سٹائن روس کا کہنا ہے کہ افریقہ میں نصیرالوحیشی کی ایک کارکن سے قائد کے طور پر ترقی یہ ظاہر کرتی ہے کہ القاعدہ اپنے آپریشن کو وسعت دے رہی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا، ’’ اگر ناصر الوحشی کو مرکزی حیثیت مل جانے سے یہ کہا جائے کہ پاکستان اور افغانستان میں القاعدہ کی مرکزی حیثیت ختم ہوگئی ہے تو یہ درست نہ ہوگا‘‘۔ اپنے موقف پر مزید زور دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ’’ ہم یمن کی جانب القاعدہ کی قیادت کی جو جغرافیائی منتقلی دیکھ رہے ہیں، وہ القاعدہ کی اپنی بنیاد سے منتقلی نہیں ہے بلکہ اس گروپ کی بنیاد کا پھیلاؤ ہے۔‘‘

امریکی صدر نے جزیرہ نما عرب میں القاعدہ کے برھتے ہوئے اثر و نفوذ سے خبردار کیاتصویر: Reuters

کینیڈا کی خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے جاری کی گئی حالیہ رپورٹوں میں یہ خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ سن 2014 میں افغانستان سے مغربی فوجوں کے انخلاء کے بعد القاعدہ پھر سے مضبوط ہوسکتی ہے۔ ان رپورٹوں میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ القاعدہ کی حالات کے مطابق اپنے آپ کو تبدیل کر لینے کی صلاحیت ہی ہے کہ یہ جماعت ربع صدی گزر جانے کے باوجود آج بھی موجود ہے اور عالمی امن کے لیے ایک خطرہ بنی ہوئی ہے۔

القاعدہ افغانستان سے روسی فوجوں کے انخلاء کے بعد قائم کی گئی تھی۔ اس جماعت کے قیام کا مقصد وہاں موجود منتشر جہادی گروپوں کو مجتمع کرکے ایک قوت بنانا تھا تاکہ جہاد کو دنیا کے دیگر حصوں میں وسعت دی جاسکے۔ فاٹا ریسرچ سینٹر اسلام آباد سے منسلک سیف اللہ خان محسود کا القاعدہ کے خطے میں مستقبل کے حوالے سےکہنا تھا اگر افغانستان میں مغربی فوجوں کے انخلاء کے بعد کوئی مستقل سیاسی ڈھانچہ قائم ہوجاتا ہے تو القاعدہ کے لیے یہاں اپنا وجود قائم رکھنا مشکل ہوجائے گا۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں