القاعدہ کے اعلیٰ رہنما کی ایران میں خفیہ ہلاکت، رپورٹ
14 نومبر 2020
ایرانی دارالحکومت میں ہلاک ہونے والے ابو محمد المصری کو القاعدہ کا دوسرا اہم ترین رہنما قرار دیا جاتا ہے۔ انہیں اسرائیلی اہلکاروں نے ایک خفیہ آپریشن کے دوران رواں برس اگست میں ہلاک کیا تھا۔
اشتہار
ایرانی دارالحکومت تہران میں خفیہ انداز میں ہلاک ہونے والے القاعدہ کے رہنما کا نام عبداللہ احمد عبداللہ بتایا گیا ہے۔ ان کی عرفیت ابو محمد المَصری تھی۔ یہ امریکی تفتیشی ایجنسی ایف بی آئی کے دس انتہائی مطلوب افراد میں سے ایک تھے۔ امریکی ایما پر ان کو ہلاک اسرائیلی خفیہ اہلکاروں نے کیا تھا۔
نیو یاک ٹائمز رپورٹ
امریکی اخبار کی رپورٹ کے مطابق القاعدہ کے دوسرے اہم رہنما المَصری کو موٹر سائیکل پر سوار دو اسرائیلی ایجنٹوں نے گولیاں مار کر ہلاک کیا۔ اس حملے میں ان کی بیوہ بیٹی بھی ماری گئی تھیں۔
المَصری کی بیٹی القاعدہ کے لیڈر اسامہ بن لادن کے بیٹے حمزہ بن لادن سے بیاہی ہوئی تھیں۔ حمزہ بن لادن بھی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے منصب سنبھالنے کے ابتدائی دو سالوں میں کسی امریکی حملے میں ہلاک ہو گیا تھا۔ چودہ ستمبر سن 2019 کو صدر ٹرمپ نے حمزہ کی ہلاکت کی تصدیق کی تھی۔
ایرانی تحویل میں میسر آزادی
امریکی تفتیش کاروں کو یقین تھا کہ سن 1998 میں تنزانیہ اور کینیا میں امریکی سفارت خانے پر کیے گئے حملوں کا مرکزی ملزم عبداللہ احمد عبداللہ تھے۔ وہ سن 2003 سے ایرانی تحویل میں تھے لیکن کسی حراستی مرکز یا جیل میں مقید نہیں تھے۔ اخباری رپورٹ کے مطابق سن 2015 وہ تہران کے نواح میں واقع متمول افراد کے علاقے میں ایک آسودہ زندگی بسر کر رہے تھے۔ ان کی نقل و حرکت پر بظاہر کوئی پابندی نہیں تھی۔
القاعدہ اور ایران میں شدید مخاصمت پائی جاتی تھی لیکن اس تنظیم کے ایک اہم اہلکار کو رہائش دینے پر تجزیہ کار حیران ہیں۔ امریکی انسداد دہشت گردی کے اہلکاروں کا کہنا ہے ایرانی حکومت عبداللہ احمد عبداللہ کی مدد سے امریکی ٹھکانوں کو نشانہ بنانے میں خواہش رکھتی تھی۔
ایران کی تردید
امریکی اخبار کی رپورٹ جمعہ تیرہ نومبر کو شائع ہوئی تھی اور ہفتہ چودہ نومبر کو ایران نے نیویارک ٹائمز کے ایران سے متعلق دعووں کی تردید کر دی ہے۔ ایرانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ کا کہنا ہے کہ یہ ایک تراشی ہوئی کہانی ہے اور سارے ایران میں القاعدہ یا کسی دوسری دہشت گرد تنظیم کا کوئی اہلکار موجود نہیں ہے۔
عبداللہ احمد عبداللہ کے حملے
سات اگست سن 1998 کو کینیا کے دارالحکومت نیروبی اور تنزانیہ کے دارالسلام میں ایک ساتھ حملے کیے گئے تھے۔ ان دونوں مقامات پر بارود سے لدے دو ٹرکوں کا استعمال کیا گیا تھا۔ ان حملوں میں دو سو سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
ان حملوں کا شریک ماسٹر مائنڈ عبداللہ احمد عبداللہ کو قرار دیا گیا۔ انہی حملوں کے بعد امریکی تفتیشی خفیہ ایجنسی ایف بی آئی نے القاعدہ کے بانی اسامہ بن لادن اور ان کے دس ساتھیوں کو انتہائی مطلوب افراد کی فہرست میں ڈال دیا تھا۔
ع ح، ا ا (اے ایف پی، روئٹرز)
داعش کیسے وجود میں آئی؟
دہشت گرد تنظیم القاعدہ سے علیحدہ ہونے والی شدت پسند تنظیم ’داعش‘ جنگجوؤں کی نمایاں تحریک بن چکی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ جہادی گروہ کیسے وجود میں آیا اور اس نے کس حکمت عملی کے تحت اپنا دائرہ کار بڑھایا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
داعش کی پیدائش کیسے ہوئی؟
’دولت اسلامیہ‘ یا داعش القاعدہ سے علیحدگی اختیار کرنے والا ایک دہشت گرد گروہ قرار دیا جاتا ہے۔ داعش سنی نظریات کی انتہا پسندانہ تشریحات پر عمل پیرا ہے۔ سن دو ہزار تین میں عراق پر امریکی حملے کے بعد ابو بکر البغدادی نے اس گروہ کی بنیاد رکھی۔ یہ گروہ شام، عراق اور دیگر علاقوں میں نام نہاد ’خلافت‘ قائم کرنا چاہتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
داعش کہاں فعال ہے؟
کہا جاتا ہے کہ ’جہادی‘ گروہ داعش درجن بھر سے زائد ممالک میں فعال ہے۔ سن دو ہزار چودہ میں یہ عراق اور شام کے وسیع تر علاقوں پر قابض رہا اور اس کا نام نہاد دارالحکومت الرقہ قرار دیا جاتا تھا۔ تاہم عالمی طاقتوں کی بھرپور کارروائی کے نتیجے میں اس گروہ کو بالخصوص عراق اور شام میں کئی مقامات پر پسپا کیا جا چکا ہے۔
داعش کے خلاف کون لڑ رہا ہے؟
داعش کے خلاف متعدد گروپ متحرک ہیں۔ اس مقصد کے لیے امریکا کی سربراہی میں پچاس ممالک کا اتحاد ان جنگجوؤں کے خلاف فضائی کارروائی کر رہا ہے۔ اس اتحاد میں عرب ممالک بھی شامل ہیں۔ روس شامی صدر کی حمایت میں داعش کے خلاف کارروائی کر رہا ہے جبکہ مقامی فورسز بشمول کرد پیش مرگہ زمینی کارروائی میں مصروف ہیں۔ عراق کے زیادہ تر علاقوں میں داعش کو شکست دی جا چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/abaca/H. Huseyin
داعش کے پاس پیسہ کہاں سے آتا ہے؟
اس گروہ کی آمدنی کا مرکزی ذریعہ تیل اور گیس کی ناجائز فروخت ہے۔ شام کے تقریباً ایک تہائی آئل فیلڈز اب بھی اسی جہادی گروہ کے کنٹرول میں ہیں۔ تاہم امریکی عسکری اتحاد ان اہداف کو نشانہ بنانے میں مصروف ہے۔ یہ گروہ لوٹ مار، تاوان اور قیمتی اور تاریخی اشیاء کی فروخت سے بھی رقوم جمع کرتا ہے۔
تصویر: Getty Images/J. Moore
داعش نے کہاں کہاں حملے کیے؟
دنیا بھر میں ہونے والے متعدد حملوں کی ذمہ داری اس شدت پسند گروہ نے قبول کی ہے۔ اس گروہ نے سب سے خونریز حملہ عراقی دارالحکومت بغداد میں کیا، جس میں کم ازکم دو سو افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ داعش ایسے افراد کو بھی حملے کرنے کے لیے اکساتا ہے، جن کا اس گروہ سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ فرانس، برلن اور برسلز کے علاوہ متعدد یورپی شہروں میں بھی کئی حملوں کی ذمہ داری داعش پر عائد کی جاتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/C. Bilan
داعش کی حکمت عملی کیا ہے؟
یہ شدت پسند گروہ اپنی طاقت میں اضافے کے لیے مختلف طریقے اپناتا ہے۔ داعش کے جنگجوؤں نے شام اور عراق میں لوٹ مار کی اور کئی تاریخی و قدیمی مقامات کو تباہ کر دیا تاکہ ’ثقافتی تباہی‘ کی کوشش کی جا سکے۔ اس گروہ نے مختلف مذہبی اقلیتوں کی ہزاروں خواتین کو غلام بنایا اور اپنے پراپیگنڈے اور بھرتیوں کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال بھی کیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Eid
شام و عراق کے کتنے لوگ متاثر ہوئے؟
شامی تنازعے کے باعث تقریباً دس ملین افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر نے ہمسایہ ممالک لبنان، اردن، اور ترکی میں پناہ حاصل کی ہے۔ ہزاروں شامی پرسکون زندگی کی خاطر یورپ بھی پہنچ چکے ہیں۔ عراق میں شورش کے نتیجے میں ایک محتاط اندازے کے مطابق تین ملین افراد اپنے ہی ملک میں دربدر ہو چکے ہیں۔