القاعدہ کے جنگجوؤں کے خلاف بڑے یمنی، سعودی آپریشن کا آغاز
23 اپریل 2016نیوز ایجنسی اے ایف پی کی ہفتہ تئیس اپریل کو عدن سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق یمنی فورسز کے ذرائع نے بتایا کہ اس وسیع تر آپریشن کا مقصد القاعدہ کے شدت پسندوں کو ایک اہم جنوبی صوبے کے دارالحکومت سے نکالنا ہے۔ ان ذرائع کے مطابق صدر عبد ربو منصور ہادی کی حامی یمنی افواج اب تک صوبے ابیان میں زنجبار کے شہر اور اس کے نواحی قصبے جار کی طرف پیش قدمی کرنے میں کامیاب رہی ہیں۔
صدر منصور ہادی کی حامی افواج کے ذرائع کے مطابق اس پیش قدمی کے دوران سرکاری دستے زنجبار سے جنوب کی طرف جب اس شہر سے صرف پانچ کلومیٹر دور رہ گئے تھے، تو ان کی وہاں القاعدہ کے شدت پسندوں کے ساتھ جھڑپیں شروع ہو گئیں۔ ان جھڑپوں کے دوران حوثی شیعہ باغیوں کے خلاف قائم کردہ سعودی عسکری اتحاد کے اپاچی جنگی ہیلی کاپٹروں سے ان عسکریت پسندوں کی کئی عسکری پوزیشنوں کو نشانہ بھی بنایا گیا۔
ایک اعلیٰ فوجی اہلکار نے بتایا کہ اس لڑائی کے دوران القاعدہ کے کم از کم 12 شدت پسند اور فوج کے تین سپاہی بھی مارے گئے۔ یمنی حکومت کے دستوں نے گزشتہ ہفتے القاعدہ کی ’جزیرہ نما عرب میں القاعدہ‘ یا AQAP کہلانے والی مقامی شاخ کے جہادیوں کو صوبے لحج کے دارالحکومت الحوطہ سے پسپائی پر مجبور کر دیا تھا، جس کے بعد ملک کے جنوب میں دیگر صوبوں کو بھی ان عسکریت پسندوں کے کنٹرول سے آزاد کرانے کے لیے جاری آپریشن کو وسعت دے دی گئی تھی۔
یمنی تنازعے کے دوران ستمبر 2014ء میں ایران نواز حوثی شیعہ باغیوں نے ملکی دارالحکومت صنعاء پر حملہ کر کے اس پر قبضہ کر لیا تھا۔ اس کے بعد صدر ہادی نے جنوبی شہر عدن کو عارضی طور پر اپنا دارالحکومت قرار دے دیا تھا۔ بعد میں منصور ہادی اور ان کی حکومت کے اراکین کو عدن سے بھی فرار ہونا پڑا تھا اور یمن کی یہ قیادت سعودی عرب میں پناہ گزین ہو گئی تھی۔
اب لیکن منصور ہادی کی حامی افواج سعودی عسکری اتحاد کے فضائی حملوں کی صورت میں ملنے والی فیصلہ کن عسکری مدد کے نتیجے میں دوبارہ عدن پر قابض ہو چکی ہیں، جس کے بعد ملک کے دیگر جنوبی صوبوں کو بھی بتدریج حکومتی فورسز کے کنٹرول میں لینے کے لیے کارروائیاں جاری ہیں۔
یمنی حکومتی دستے اور سعودی عسکری اتحاد کی توجہ شروع میں زیادہ تر حوثی شیعہ باغیوں کے خلاف کارروائیوں پر مرکوز تھی۔ لیکن ان ایران نواز باغیوں کو کئی مقامات پر شکست دینے کے بعد اور پھر فائر بندی کے نتیجے میں حکومتی فورسز کو یہ موقع مل گیا تھا کہ وہ القاعدہ کے مقامی جہادیوں اور عسکریت پسند گروہ ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے خلاف بھی اپنی کارروائیوں کو وسعت دے سکیں۔
اس سے قبل یمن میں، جو عرب دنیا کے غریب ترین ممالک میں شمار ہوتا ہے، وہاں جاری خانہ جنگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے القاعدہ کی مقامی شاخ اور ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش خاص طور پر ملک کے کئی جنوبی حصوں پر اپنی گرفت مضبوط بنانے میں کامیاب ہو گئے تھے۔