القاعدہ نے اپنے دوسرے اہم ترین کمانڈر ابو الخیر المصری کی ہلاکت کی تصدیق کر دی ہے۔ ابو الخیر المصری القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری کے نائب ہونے کے ساتھ ساتھ القاعدہ کے مقتول لیڈر اسامہ بن لادن کے داماد بھی تھے۔
اشتہار
خانہ جنگی کے شکار ملک شام میں القاعدہ کے دوسرے اہم ترین کمانڈر کی ہلاکت کی تصدیق کر دی گئی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ ابو الخیر المصری کی ہلاکت امریکی عسکری اتحاد کی طرف سے کیے جانے والے ایک ڈرون حملے میں ہوئی ہے۔ ہلاکت کی تصدیق القاعدہ کی طرف سے جاری کیے جانے والے ایک بیان میں کی گئی ہے۔
امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے ایک عہدیدار کا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہنا تھا کہ القاعدہ کے اس لیڈر کو اتوار کو رات گئے ایک ڈرون کے ذریعے نشانہ بنایا گیا تھا۔ جس وقت ابو الخیر المصری کو ہیل فائر میزائل کے ساتھ نشانہ بنایا گیا، اس وقت یہ اعلیٰ کمانڈر شام کے صوبہ ادلب میں ایک کار کے ذریعے سفر کر رہا تھا۔
ابو الخیر المصری القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری کے نائب تھے اور القاعدہ کی شوریٰ کونسل کے رکن بھی۔ القاعدہ کی طرف سے جاری ہونے والے بیان میں ابو الخیر المصری کو ایک ہیرو قرار دیا گیا ہے اور ساتھ ہی یہ کہا گیا ہے کہ وہ صلیبیوں کے ایک ڈرون حملے میں ہلاک ہو گئے ہیں۔
ابو الخیر المصری پاکستان میں امریکی کارروائی کے دوران ہلاک ہونے والے لیڈر اسامہ بن لادن کے داماد بھی تھے۔
میڈیا اطلاعات کے مطابق 59 سالہ المصری کی پیدائش مصر میں ہوئی تھی۔ امریکی حکام کے مطابق المصری گیارہ ستمبر کے حملوں کی منصوبہ بندی میں شامل ہونے کے ساتھ ساتھ امریکی مفادات کے خلاف ہونے والے دیگر حملوں میں بھی ملوث تھا۔
داعش کیسے وجود میں آئی؟
دہشت گرد تنظیم القاعدہ سے علیحدہ ہونے والی شدت پسند تنظیم ’داعش‘ جنگجوؤں کی نمایاں تحریک بن چکی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ جہادی گروہ کیسے وجود میں آیا اور اس نے کس حکمت عملی کے تحت اپنا دائرہ کار بڑھایا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
داعش کی پیدائش کیسے ہوئی؟
’دولت اسلامیہ‘ یا داعش القاعدہ سے علیحدگی اختیار کرنے والا ایک دہشت گرد گروہ قرار دیا جاتا ہے۔ داعش سنی نظریات کی انتہا پسندانہ تشریحات پر عمل پیرا ہے۔ سن دو ہزار تین میں عراق پر امریکی حملے کے بعد ابو بکر البغدادی نے اس گروہ کی بنیاد رکھی۔ یہ گروہ شام، عراق اور دیگر علاقوں میں نام نہاد ’خلافت‘ قائم کرنا چاہتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
داعش کہاں فعال ہے؟
کہا جاتا ہے کہ ’جہادی‘ گروہ داعش درجن بھر سے زائد ممالک میں فعال ہے۔ سن دو ہزار چودہ میں یہ عراق اور شام کے وسیع تر علاقوں پر قابض رہا اور اس کا نام نہاد دارالحکومت الرقہ قرار دیا جاتا تھا۔ تاہم عالمی طاقتوں کی بھرپور کارروائی کے نتیجے میں اس گروہ کو بالخصوص عراق اور شام میں کئی مقامات پر پسپا کیا جا چکا ہے۔
داعش کے خلاف کون لڑ رہا ہے؟
داعش کے خلاف متعدد گروپ متحرک ہیں۔ اس مقصد کے لیے امریکا کی سربراہی میں پچاس ممالک کا اتحاد ان جنگجوؤں کے خلاف فضائی کارروائی کر رہا ہے۔ اس اتحاد میں عرب ممالک بھی شامل ہیں۔ روس شامی صدر کی حمایت میں داعش کے خلاف کارروائی کر رہا ہے جبکہ مقامی فورسز بشمول کرد پیش مرگہ زمینی کارروائی میں مصروف ہیں۔ عراق کے زیادہ تر علاقوں میں داعش کو شکست دی جا چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/abaca/H. Huseyin
داعش کے پاس پیسہ کہاں سے آتا ہے؟
اس گروہ کی آمدنی کا مرکزی ذریعہ تیل اور گیس کی ناجائز فروخت ہے۔ شام کے تقریباً ایک تہائی آئل فیلڈز اب بھی اسی جہادی گروہ کے کنٹرول میں ہیں۔ تاہم امریکی عسکری اتحاد ان اہداف کو نشانہ بنانے میں مصروف ہے۔ یہ گروہ لوٹ مار، تاوان اور قیمتی اور تاریخی اشیاء کی فروخت سے بھی رقوم جمع کرتا ہے۔
تصویر: Getty Images/J. Moore
داعش نے کہاں کہاں حملے کیے؟
دنیا بھر میں ہونے والے متعدد حملوں کی ذمہ داری اس شدت پسند گروہ نے قبول کی ہے۔ اس گروہ نے سب سے خونریز حملہ عراقی دارالحکومت بغداد میں کیا، جس میں کم ازکم دو سو افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ داعش ایسے افراد کو بھی حملے کرنے کے لیے اکساتا ہے، جن کا اس گروہ سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ فرانس، برلن اور برسلز کے علاوہ متعدد یورپی شہروں میں بھی کئی حملوں کی ذمہ داری داعش پر عائد کی جاتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/C. Bilan
داعش کی حکمت عملی کیا ہے؟
یہ شدت پسند گروہ اپنی طاقت میں اضافے کے لیے مختلف طریقے اپناتا ہے۔ داعش کے جنگجوؤں نے شام اور عراق میں لوٹ مار کی اور کئی تاریخی و قدیمی مقامات کو تباہ کر دیا تاکہ ’ثقافتی تباہی‘ کی کوشش کی جا سکے۔ اس گروہ نے مختلف مذہبی اقلیتوں کی ہزاروں خواتین کو غلام بنایا اور اپنے پراپیگنڈے اور بھرتیوں کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال بھی کیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Eid
شام و عراق کے کتنے لوگ متاثر ہوئے؟
شامی تنازعے کے باعث تقریباً دس ملین افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر نے ہمسایہ ممالک لبنان، اردن، اور ترکی میں پناہ حاصل کی ہے۔ ہزاروں شامی پرسکون زندگی کی خاطر یورپ بھی پہنچ چکے ہیں۔ عراق میں شورش کے نتیجے میں ایک محتاط اندازے کے مطابق تین ملین افراد اپنے ہی ملک میں دربدر ہو چکے ہیں۔