انسداد دہشت گردی کی نگران بھارتی ايجنسی نے القاعدہ کی پاکستانی شاخ سے منسلک نو جنگجوؤں کو پکڑنے کا دعوی کيا ہے۔ فوری طور پر پاکستان کا کوئی رد عمل سامنے نہيں آيا مگر پاکستان عموماً ايسے الزامات رد کرتا آيا ہے۔
اشتہار
بھارتی نيشنل انويسٹيگيشن ايجنسی (NIA) نے دہشت گرد نيٹ ورک القاعدہ کے نو مشتبہ جنگجوؤں کو پکڑنے کا دعوی کيا ہے۔ اس بارے ميں ايجنسی نے ہفتہ انيس ستمبر کو بتايا۔ نيشنل انويسٹيگيشن ايجنسی کے مطابق يہ جنگجو دارالحکومت نئی دہلی سميت بھارت کے مختلف شہروں ميں دہشت گردانہ کاررائيوں کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔
بھارت ميں انسداد دہشت گردی سے متعلق آپريشنز کی نگران اين آئی اے کی جانب سے جاری کردہ بيان ميں کہا گيا ہے، ''يہ گروپ بھارت ميں اہم تنصيبات کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی ميں مصروف تھا۔ ان کا مقصد معصوم شہريوں کا قتل اور عوام ميں دہشت پھيلانا تھا۔‘‘ ايجنسی نے چھاپوں ميں تيز دھار ہتھياروں اور داخلی سطح پر تيار کردہ آتشی اسلحے کو اپنی تحويل ميں لينے کا بھی بتايا ہے۔ بتايا گيا ہے کہ مزيد تفتيش کے بعد ملزمان کو عدالت ميں پيش کيا جائے گا۔
چھ مشتبہ جنگجوؤں کو مغربی بنگال سے جبکہ تين کو جنوبی رياست کيرالا سے حراست ميں ليا گيا۔ بھارتی نيشنل انويسٹيگيشن ايجنسی نے الزام عائد کيا ہے کہ ان تمام کا تعلق دہشت گرد گروہ القاعدہ کی پاکستانی شاخ سے ہے۔ فوری طور پر پاکستانی وزارت خارجہ کی جانب سے اس معاملے پر کوئی رد عمل ظاہر نہيں کيا گيا تاہم ماضی ميں پاکستان ايسے الزامات رد کرتا آيا ہے۔
بھارت کے زير انتظام کشمير ميں عليحدگی پسندوں کے خلاف کارروائيوں ميں حاليہ دنوں ميں تيزی ديکھی گئی ہے۔ بھارت کے ديگر حصوں ميں بھی حاليہ دنوں ميں انسداد دہشت گردی کی کارروائيوں ميں اضافہ نوٹ کيا گيا ہے۔ پچھلے سال بھارتی دستوں نے کشمير ميں القاعدہ سے منسلک ايک ليڈر کو ہلاک کر ديا تھا، جس کے رد عمل ميں احتجاج و مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گيا تھا۔
داعش کیسے وجود میں آئی؟
دہشت گرد تنظیم القاعدہ سے علیحدہ ہونے والی شدت پسند تنظیم ’داعش‘ جنگجوؤں کی نمایاں تحریک بن چکی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ جہادی گروہ کیسے وجود میں آیا اور اس نے کس حکمت عملی کے تحت اپنا دائرہ کار بڑھایا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
داعش کی پیدائش کیسے ہوئی؟
’دولت اسلامیہ‘ یا داعش القاعدہ سے علیحدگی اختیار کرنے والا ایک دہشت گرد گروہ قرار دیا جاتا ہے۔ داعش سنی نظریات کی انتہا پسندانہ تشریحات پر عمل پیرا ہے۔ سن دو ہزار تین میں عراق پر امریکی حملے کے بعد ابو بکر البغدادی نے اس گروہ کی بنیاد رکھی۔ یہ گروہ شام، عراق اور دیگر علاقوں میں نام نہاد ’خلافت‘ قائم کرنا چاہتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
داعش کہاں فعال ہے؟
کہا جاتا ہے کہ ’جہادی‘ گروہ داعش درجن بھر سے زائد ممالک میں فعال ہے۔ سن دو ہزار چودہ میں یہ عراق اور شام کے وسیع تر علاقوں پر قابض رہا اور اس کا نام نہاد دارالحکومت الرقہ قرار دیا جاتا تھا۔ تاہم عالمی طاقتوں کی بھرپور کارروائی کے نتیجے میں اس گروہ کو بالخصوص عراق اور شام میں کئی مقامات پر پسپا کیا جا چکا ہے۔
داعش کے خلاف کون لڑ رہا ہے؟
داعش کے خلاف متعدد گروپ متحرک ہیں۔ اس مقصد کے لیے امریکا کی سربراہی میں پچاس ممالک کا اتحاد ان جنگجوؤں کے خلاف فضائی کارروائی کر رہا ہے۔ اس اتحاد میں عرب ممالک بھی شامل ہیں۔ روس شامی صدر کی حمایت میں داعش کے خلاف کارروائی کر رہا ہے جبکہ مقامی فورسز بشمول کرد پیش مرگہ زمینی کارروائی میں مصروف ہیں۔ عراق کے زیادہ تر علاقوں میں داعش کو شکست دی جا چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/abaca/H. Huseyin
داعش کے پاس پیسہ کہاں سے آتا ہے؟
اس گروہ کی آمدنی کا مرکزی ذریعہ تیل اور گیس کی ناجائز فروخت ہے۔ شام کے تقریباً ایک تہائی آئل فیلڈز اب بھی اسی جہادی گروہ کے کنٹرول میں ہیں۔ تاہم امریکی عسکری اتحاد ان اہداف کو نشانہ بنانے میں مصروف ہے۔ یہ گروہ لوٹ مار، تاوان اور قیمتی اور تاریخی اشیاء کی فروخت سے بھی رقوم جمع کرتا ہے۔
تصویر: Getty Images/J. Moore
داعش نے کہاں کہاں حملے کیے؟
دنیا بھر میں ہونے والے متعدد حملوں کی ذمہ داری اس شدت پسند گروہ نے قبول کی ہے۔ اس گروہ نے سب سے خونریز حملہ عراقی دارالحکومت بغداد میں کیا، جس میں کم ازکم دو سو افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ داعش ایسے افراد کو بھی حملے کرنے کے لیے اکساتا ہے، جن کا اس گروہ سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ فرانس، برلن اور برسلز کے علاوہ متعدد یورپی شہروں میں بھی کئی حملوں کی ذمہ داری داعش پر عائد کی جاتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/C. Bilan
داعش کی حکمت عملی کیا ہے؟
یہ شدت پسند گروہ اپنی طاقت میں اضافے کے لیے مختلف طریقے اپناتا ہے۔ داعش کے جنگجوؤں نے شام اور عراق میں لوٹ مار کی اور کئی تاریخی و قدیمی مقامات کو تباہ کر دیا تاکہ ’ثقافتی تباہی‘ کی کوشش کی جا سکے۔ اس گروہ نے مختلف مذہبی اقلیتوں کی ہزاروں خواتین کو غلام بنایا اور اپنے پراپیگنڈے اور بھرتیوں کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال بھی کیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Eid
شام و عراق کے کتنے لوگ متاثر ہوئے؟
شامی تنازعے کے باعث تقریباً دس ملین افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر نے ہمسایہ ممالک لبنان، اردن، اور ترکی میں پناہ حاصل کی ہے۔ ہزاروں شامی پرسکون زندگی کی خاطر یورپ بھی پہنچ چکے ہیں۔ عراق میں شورش کے نتیجے میں ایک محتاط اندازے کے مطابق تین ملین افراد اپنے ہی ملک میں دربدر ہو چکے ہیں۔