1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

القاعدہ یا اسلامک اسٹیٹ: تقلید پر الشباب میں اختلاف

عابد حسین26 اپریل 2015

افریقی ملک صومالیہ کی جہادی تنظیم الشباب اِس اضطراب میں مبتلا ہے کہ آیا وہ القاعدہ کو چھوڑ کر اسلامک اسٹیٹ کے ساتھ وابستگی کا اظہار کر دے۔ عسکریت پسند تنظیم الشباب صومالیہ کے ایک بڑے حصے پر قابض ہے۔

تصویر: picture alliance/AP Photo/Sheikh Nor

صومالیہ میں سرگرم الشباب کی جہادی سرگرمیوں پر نگاہ رکھنے والے سکیورٹی ماہرین اور تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اِس تنظیم کو اندرونی طور پیدا ہونے والے اس خلفشار کا سامنا ہے کہ آیا اسے القاعدہ کو خیر باد کہتے ہوئے اسلامک اسٹیٹ کے ساتھ روحانی رابطوں اور اخلاقی وابستگی کے باضابطہ اعلان ضرورت ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ ایک اور افریقی ملک نائجیریا میں جہادی تنظیم بوکو حرام شام اور عراق میں سرگرم اسلامک اسٹیٹ کے ساتھ اپنی نسبت کا اعلان کر چکی ہے۔ حال ہی میں القاعدہ نیٹ ورک کی ’جزیرہ نما عرب میں القاعدہ‘ نامی شاخ نے یمن میں کافی طاقت پکڑی ہے۔

الشباب کے ایک کمانڈر نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کے ساتھ نام مخفی رکھنے کی شرط پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ یہ حیرانی کا باعث نہیں ہو گا کہ الشباب اسلامک اسٹیٹ کی صفوں میں شامل ہو جائے، ’ویسے بھی دشمنوں کے خلاف تمام مسلمانوں کا متحد ہونا ضروری ہے‘۔ اس کمانڈر کا یہ بھی کہنا تھا کہ دشمن پر انتہائی کاری ضرب لگانا ہی باعثِ مسرت ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ الشباب صومالیہ کے علاوہ کینیا میں بھی دہشت گردی کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ رواں مہینے اِس جہادی تنظیم کے شدت پسندوں نے کینیا کی گاریسا یونیورسٹی پر حملہ کر کے ڈیڑھ سو افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔ اِسی طرح الشباب نے سن 2013 میں نیروبی کے ویسٹ گیٹ مال پر بھی حملہ کیا تھا۔

الشباب کے مسلح شدت پسندتصویر: picture-alliance/AP Photo/F.-A.Warsameh

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ صومالیہ میں جاری بین الاقوامی نگرانی میں فوجی آپریشن کے تسلسل کے باعث الشباب کی قوت میں کمی ہو رہی ہے اور وہ صومالیہ سے نکل کر کینیا میں حملے کر رہی ہے۔ ایک سینیئر صومالی سکیورٹی اہلکار محمد ابراہیم کا کہنا ہے کہ الشباب اِن دنوں بوکھلاہٹ کا شکار ہے کیونکہ وہ صومالیہ میں مسلسل پسپائی کا شکار ہے اور ایسی صورت میں اُس کا اسلامک اسٹیٹ میں شامل ہونا جہادیوں کے لیے فائدے مند ہو سکتا ہے۔ ابراہیم کے مطلابق اسلامک اسٹیٹ کی طرف سے سرمایہ، اسلحہ اور اخلاقی حمایت سے الشباب تقویت حاصل کر سکتی ہے۔

صومالیہ کے وزیر اعظم عمر عبدالرشید شرمارکے کا بھی کہنا ہے کہ الشباب کی اعلیٰ لیڈرشپ میں اِس معاملے پر اختلاف کی خبریں سامنے آئی ہیں کہ القاعدہ سے وابستگی کو چھوڑ کر اسلامک اسٹیٹ میں شمولیت اختیار کر لی جائے۔ شرمارکے کے مطابق حالیہ ایام کے دوران یمن میں القاعدہ کے پیشقدمی سے الشباب کو راحت ملی ہے لیکن اسلامک اسٹیٹ کے حامی بھی موجود ہیں۔ صومالی وزیر اعظم کے مطابق یمن کے بحران کے براہِ راست اثرات صومالیہ پر مرتب ہوں گے اور وہاں کے تنازعے سے صومالی بحران گہرا ہو سکتا ہے۔ جنوبی صومالیہ سے ملنی والی اطلاعات کے مطابق الشباب کے فائٹرز اور کمانڈروں کی مختلف میٹنگوں میں یہ معاملہ زیربحث ہے۔

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ افریقی جہادیوں کے لیے خلیج عدن کا علاقہ مستقبل میں پاکستان اور افغانستان میں قائم شدت پسندوں کے ٹھکانوں تک پہنچنے کے لیے کوریڈور بھی بن سکتا ہے۔ صومالی علاقے شبیلی السفلی یا زیریں شبیلی کے ایک بزرگ دانشور حسن نوری کا کہنا ہے کہ الشباب نے ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا لیکن بعض فائٹرز اور کمانڈرز بدستور القاعدہ کے ساتھ اپنی وابستگی برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں صومالی امور کے ماہر ٹریس تھامس کا کہنا ہے کہ الشباب میں یہ تنازعہ بدستور قائم ہے کہ القاعدہ کے ساتھ پہلے سے قائم نسبت برقرار رکھی جائے یا اسلامک اسٹیٹ کو ترجیح دے کر اُسے رہنما بنا لیا جائے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں