الٹرنیٹو فار ڈوئچ لینڈ پارٹی کی مقبولیت بند گلی میں
1 دسمبر 2018
جرمنی میں انتہا پسند دائیں بازو کی سیاسی جماعت الٹرنیٹو فار ڈوئچ لینڈ کو مختلف مشکلات کا سامنا ہے۔ اس جماعت کو خلاف ضابطہ عطیات وصول کرنے کے الزام کا سامنا بھی ہے۔
اشتہار
سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ اسلام اور مہاجرین مخالف سیاسی جماعت الٹرنیٹو فار ڈوئچ لینڈ اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے اور اب اُس کے پاس جرمن عوام کو اپنی جانب راغب کرنے کے لیے کچھ باقی بچا نہیں ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس جماعت کو مزید سیاسی استحکام کے لیے اپنے بیانیے میں تبدیلی لانی ہو گی۔
اے ایف ڈی گزشتہ برس اکتوبر میں ملکی پارلیمان میں نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ رواں برس جرمن ریاست ہیسے کی اسمبلی میں بھی وہ تیرہ فیصد ووٹ لے کر سیٹیں حاصل کر چکی ہے۔ اس طرح وفاقی پارلیمان کے ساتھ ساتھ تمام ریاستی اسمبلیوں میں اس دائیں بازو کی اراکین موجود ہیں۔ دوسری جانب اس کی مقبولیت پندرہ فیصد پر پہنچ کر رک گئی ہے۔ یہ ایک مشکل صورت حال ہے۔
الٹرنیٹو فار ڈوئچ لینڈ کو ایک اور مشکل کا بھی سامنا ہے اور وہ الزام ہے کہ اس نے اپنی انتخابی مہم کے دوران یورپی یونین سے باہر یعنی سوئٹزرلینڈ سے عطیات وصول کیے ہیں۔ یہ الزام اس کی ساکھ کو اگلے ہفتوں میں متاثر کر سکتا ہے کیونکہ اس نے اُن تمام پارٹیوں کو بد دیانت اور کرپٹ قرار دے رکھا ہے، جو اسٹیبلشمنٹ کی حامی تصور کی جاتی ہیں۔
اس الزام کا زیادہ بوجھ اے ایف ڈی کی شریک لیڈر ایلس وائیڈل پر محسوس کیا جاتا ہے۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق اُن کی پارٹی کو سوئٹزرلینڈ سے ایک لاکھ تیس ہزار یورو ایک دائیں بازو کے صاحب ثروت نے دیے ہیں۔ ایلس وائیڈل نے اس الزام کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس عطیے کو شکریے کے ساتھ واپس کیا جا چکا ہے۔ جرمن دفتر استغاثہ ملکی پارلیمنٹ سے درخواست کر چکا ہے کہ وہ اے ایف ڈی کی شریک لیڈر کا تفتیشی استثنیٰ ختم کرے تا کہ اُن سے بازپرس کی جا سکے۔
اے ایف ڈی کی ایک اور سردردی یہ ہے کہ اندرونی طور پر اعتدال پسند اور سخت موقف کے حلقوں میں منقسم ہے۔ اس جماعت نے رواں برس اپنی عوامیت پسندی کی ساکھ ختم کرنے حوالے سے اسلام مخالف تحریک پیگیڈا سے دوری اختیار کر لی ہے۔ ایسا بھی خیال کیا گیا ہے کہ اے ایف ڈی میں ایسے انتہائی دائیں بازو کے نوجوان بھی شامل ہو چکے ہیں، جن پر جرمن خفیہ ادارے نگاہ رکھے ہوئے ہیں۔
دوسری جانب ایک اور سیاسی جماعت گرین پارٹی کی مقبولیت میں اضافے کا رجحان پایا جاتا ہے۔ یہ بیس فیصد کی عوامی مقبولیت کے ساتھ جرمنی کی دوسری بڑی پارٹی کا روپ دھار چکی ہے۔ پہلی بڑی پارٹی جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی کرسچن ڈیموکریٹک یونین (سی ڈی یو) ہے۔ گرین پارٹی خود جرمن سیاسی منظر پر متبادل کا متبادل قرار دیتی ہے۔
کیمنِٹس کے انتہائی دائیں بازو اور نازی سیلیوٹ کرتا بھیڑیا
جرمنی میں کئی مقامات پر تانبے سے بنے بھیڑیے کے ایسے مجسمے نصب کیے گئے ہیں جو نازی دور کے سیلیوٹ کے حامل ہیں۔ اب ان مجسموں کو مشرقی شہر کیمنٹس میں بھی نصب کیا گیا ہے، جہاں ان دنوں اجانب دشمنی کی وجہ سے خوف پایا جا رہا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
’بھیڑیوں کی واپسی‘
جرمنی میں تانبے کے 66 مجسموں کی ایک سیریز تخلیق کی گئی، یہ نازی سیلیوٹ کا انداز بھی اپنائے ہوئے ہیں، یہ جرمنی میں ممنوع ہے۔ مجسمہ ساز رائنر اوپولکا کے بقول یہ تخلیق نسل پرستی کے خطرے کی علامت ہے۔ تاہم انتہائی دائیں بازو کے نظریات کے ہمدرد خود کو بھیڑیے سے تشبیہ دینے لگے ہیں۔ مہاجرت مخالف AFD کے رہنما ہوئکے نے کہا ہے کہ ہٹلر کے پراپیگنڈا وزیر گوئبلز نے 1928ء میں بھیڑیے کی اصطلاح استعمال کی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
کیمنٹس میں دس بھیڑیے
فنکار رائنر اوپولکا نے اپنے یہ مجسمے ایسے مقامات پر لگائے ہیں جہاں اجانب دشمنی اور نسل پرستانہ رویے پائے جاتے ہیں۔ ان کو ڈریسڈن میں پیگیڈا تحریک کی ریلیوں کے دوران نصب کیا گیا تھا۔ میونخ کی عدالت کے باہر بھی یہ مجسمے اُس وقت نصب کیے گئے تھے جب انتہائی دائیں بازو کی خاتون بیاٹے شاپے کو قتل کے جرم میں سزا سنائی گئی تھی۔ شاپے نیو نازی گروپ این ایس یو کے دہشت گردانہ سیل کی رکن تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
انتہائی دائیں بازو کے بھیڑیے
کیمنٹس شہر میں گزشتہ جمعے کو انتہائی دائیں بازو کی ایک نئی ریلی کا انتظام کارل مارکس کے مجسمے اور تانبے کے بھیڑیے کے سامنے کیا گیا۔ اس ریلی میں انتہائی دائیں بازو کے کارکنوں نے بھیڑیے کے پہناوے میں جارح رویہ اپنا رکھا تھا اور بعض نے آنکھوں کو چھپا رکھا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
’کیمنٹس میں جرأت ہے‘
رواں برس ماہِ ستمبر کے اوائل میں انتہائی دائیں بازو کی ریلیوں کی وجہ سے کیمنٹس کے تشخص پر انگلیاں بھی اٹھیں۔ اس دوران مرکزِ شہر میں نسل پرستی اور قوم پرستی کی مذمت کے جہاں بینر لگائے گئے وہاں ایک بڑے میوزیکل کنسرٹ کا اہتمام بھی کیا گیا۔ اس کنسرٹ میں 65 ہزار افراد نے شرکت کر کے واضح کیا کہ اُن کی تعداد دائیں بازو کے قوم پرستوں سے زیادہ ہے۔
تصویر: Reuters/T. Schle
شہر کے تشخص پر نشان
کیمنِٹس کی شہری انتظامیہ نے انتہائی دائیں بازو کی ریلیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ان سے فاصلہ اختیار کر رکھا ہے۔ سٹی ایڈمنسٹریشن کے کئی اہلکاروں کے مطابق انتہائی دائیں بازو کی ریلیوں سے کیمنِٹس کا تشخص مستقلاً مسخ ہو سکتا ہے۔ شہری انتظامیہ نے مطالبہ کیا ہے کہ ایسے انتہا پسندوں کے خلاف عدالتی عمل کو سرعت کے ساتھ مکمل کیا جائے جنہوں نے نفرت کو فروغ دے کر تشدد اور مظاہروں کو ہوا دی تھی۔