1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

الیکشن کمیشن نے پنجاب میں انتخابات کے لیے شیڈول جاری کر دیا

عبدالستار، اسلام آباد
5 اپریل 2023

ای سی پی کی طرف سے بدھ کو جاری کیے گئے انتخابی شیڈول میں سپریم کورٹ کی طرف سے دی گئی ہدایات پر من وعن عمل کیا گیا ہے۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے میں پولنگ چودہ مئی کو ہو گی۔

Wahlen in Pakistan 2013
تصویر: Reuters/Mian Khursheed

الیکشن کمیشن آف پاکستان  (ای سی پی) نے سپریم کورٹ کے حکم کی روشنی میں پنجاب میں چودہ  مئی کوانتخابات کے انعقاد کے لیے شیڈول جاری کر دیا ہے۔ اسی سی  پی کی طرف سے بدھ کے روز جاری کیے گئے شیڈول کے مطابق کاغذات نامزدگی کے خلاف اپیلیں دس اپریل تک دائر کی جا سکتی ہیں جبکہ امیدوار انیس اپریل تک اپنے کاغذات نامزدگی واپس لے سکتے ہیں۔

پاکستان کا آئینی و سیاسی بحران: ’بہتری کی کوئی امید نہیں‘

تحریک انصاف کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ عمران خان انتخابی مہم شروع کر رہے ہیںتصویر: Arif Ali/AFP/Getty Images

امیدواروں کو بیس اپریل کو انتخابی نشان الاٹ کر دیے جائیں گے اور چودہ مئی کو پولنگ ہوگی۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے یہ شیڈول سپریم کورٹ کے فیصلے کے صرف ایک دن بعد جاری کیا گیا ہے۔

اس سے قبل منگل کے روز وزیر اعظم شہباز شریف  کی سربراہی میں وفاقی کابینہ کے نے عدالتی فیصلے کو مسترد کر دیا تھا۔ علاوہ ازیں سابق وزیراعظم نواز شریف کے بعد ان کی صاحبزادی مریم نواز شریف نے بھی سپریم کورٹ کے فیصلے پر کڑی تنقید کی۔

سپریم کورٹ فیصلے پر حکومت برہم، پی ٹی آئی کی طرف سے خیرمقدم

ن لیگی قیادت کا سخت ردعمل

مریم نواز شریف نے آج بروز بدھ  راولپنڈی میں ن لیگ کے ایک وکلا کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس کے سامنے بے شمار سوالات رکھے اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو بھی آڑے ہاتھوں لیا۔ مریم نواز نے کہا کہ خود سپریم کورٹ کے جج پنجاب میں انتخابات کے حوالے سے فیصلے کو نہیں مانتے تو بائیس کروڑ عوام اسے کیسے مان لیں گے۔ انہوں نے چیف جسٹس سے سوال کیا کہ وہ اس وقت جذباتی کیوں نہیں ہوئے، جب نون لیگ کے رہنماوں پر جھوٹے مقدمے بنائے گئے، فائز عیسیٰ پر دشنام طرازی کی گئی، منتخب وزیر اعظم کو ہٹایا گیا اور جب نون لیگ کے لوگوں کو کہا گیا کہ پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کریں۔

مریم نواز شریف نے سپریم کورٹ پر سخت تنقید کیتصویر: Rana Sajid Hussain/Pacific Press/picture alliance

دوسری طرف نواز شریف نے پنجاب میں انتخابات سے متعلق فیصلہ سنانے والے عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بینچ میں شامل  چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس منیب اختر اور جسٹس اعجاز الحسن کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کرنے کا مطالبہ کیا ۔

حکم عدولی کے سنگین نتائج

 قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان میں اس سے پہلے بھی متنازع فیصلے ہوئے ہیں اور سپریم کور ٹ کا انتخابات سے متعلق تازہ فیصلہ  بھی متنازعہ ہے۔ ماضی میں  ذوالفقار علی بھٹو کو  سزائے موت سنائے جانے کے فیصلے کے علاوہ جنرل پرویز مشرف تک فوجی حکمرانوں کے اقتدار کو دوام دینے کے لیے عدالتی فیصلوں کو متنازعہ قرار دیا جاتا ہے۔

کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے معروف قانون دان راہب بلیدی کا کہنا ہے حکومت کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں تھاکہ وہ اس فیصلے کو تسلیم کرتی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یہ ایک متنازعہ فیصلہ  ہے لیکن آخر کار یہ سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے۔ تو حکومت کو اس فیصلے پر عمل کرنا پڑنا تھا اگر  وہ عمل نہیں کرتی تو پھر  اسے توہین عدالت کا سامناکرنا پڑتا۔''

توہین عدالت کی تلوار

سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس وجیہہ الدین کا کہنا ہے کہ اگر کسی سرکاری ملازم یا عہدے دار کے خلاف توہین عدالت ثابت ہو جاتا ہے اور اس کو سزا ہو جاتی ہے، تو پھر وہ اس عہدے پر برقرار نہیں رہ سکتا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''برطانوی دور میں ایک انگریز سرکاری افسر کو توہین عدالت کی سزا دی گئی تھی اور وہ اپنی نوکری سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ بالکل اسی طرح پاکستان میں بھی ایک وزیر اعظم کو توہین عدالت کی سزا ہوئی اور وزیراعظم نہیں رہے۔ تو یہ واضح ہے کہ توہین عدالت کی اگر کارروائی ہوتی ہے، تو جن لوگوں کو سزا ہوگی وہ اپنے عہدوں پہ نہیں رہیں گے۔''

تاہم کچھ قانونی ماہرین اس رائے سے اختلاف کرتے ہیں ہیں ان کے خیال میں اس متنازع فیصلے کی وجہ سے سے توہین عدالت کی شق لگنا ممکن نہیں۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر امان اللہ کنرانی کے خیال میں میں اگر حکومت اس فیصلے پر عمل درآمد نہیں کرتی تو توہین عدالت نہیں لگ سکتی۔

نواز شریف نے پنجاب میں انتخابات کا فیصلہ کرنے والے سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ میں شامل ججوں کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کرنے کا مطالبہ کیا تصویر: K.M. Chaudary/AP/dpa/picture alliance

 ججوں کے خلاف ریفرنس

کچھ قانونی حلقوں میں یہ بحث ہورہی ہے کہ اگر ججوں کے خلاف کوئی ریفرنس دائر ہو جاتا ہے تو کیا وہ توہین عدالت کے کسی مقدمے کی سماعت کر سکیں گے یا سپریم جوڈیشل کونسل کے اجلاس میں شرکت کر سکیں گے۔ جسٹس وجیہہ کے مطابق صرف ریفرنس بھجینے کے بعد کسی جج کو کام سے روکا نہیں جا سکتا۔

 لیکن امان اللہ کنرانی کا خیال ہے کہ اگر چیف جسٹس کے خلاف بھی ریفرنس دائر کیا جاتا ہے تو وہ پھر قانونی طور پر سپریم جوڈیشل کونسل کی صدارت نہیں کر سکتے کیونکہ چیف جسٹس سپریم جوڈیشل کونسل کے چیئرمین ہوتے ہیں اس لئے وہ خود بیٹھ کر اپنے خلاف فیصلہ نہیں کر سکتے۔

تاہم اب الیکشن کمشین کی طرف سے انتخابی شیڈول جاری کر کے  بظاہر عدالتی حکم پر عملد رآمد کر دیا گیا ہے۔ ایسے سیاسی رہنماؤں کے عدالتی فیصلے سے متعلق بیانات محض سیاسی مقاصد کے لیے تو ہو سکتے ہیں لیکن عملاﹰ وہ انتخابات کے انعقاد پر اثر انداز نہیں ہو سکتے۔

سول ۔ ملٹری تعلقات میں توازن ضروری ہے، عمران خان

16:35

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں