1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

الیکٹرانک آلات کے کُوڑے میں ہولناک اضافہ

امجد علی15 دسمبر 2013

اقوام متحدہ کی تائید و حمایت سے چلنے والے بین الاقوامی پروگرام StEP کے مطابق کُوڑے میں پھینک دی جانے والی الیکٹرانک مصنوعات کی مقدار کے حوالے سے چین اور دیگر ابھرتی ہوئی معیشتوں نے اب مغربی دنیا کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔

Elektroschrott
تصویر: Kai Löffelbein/laif

StEP مخفف ہے، ’سالونگ دی ای ویسٹ پرابلم‘ کا اور اس پروگرام میں اقوام متحدہ کے اداروں اور مختلف حکومتوں کے نمائندوں کے ساتھ ساتھ غیر سرکاری تنظیمیں اور سائنسدان بھی شامل ہیں۔

اس پروگرام کی جانب سے الیکٹرانک کُوڑے کے سلسلے میں جاری کی گئی اپنی نوعیت کی پہلی رپورٹ میں پیشین گوئی کی گئی ہے کہ 2012ء اور 2017ء کے درمیانی عرصے میں ٹیلی وژن سیٹوں سے لے کر موبائل فونز تک پر مشتمل الیکٹرانک کُوڑے کی مقدار میں ماضی کے مقابلے میں 33 فیصد تک کا اضافہ ہو سکتا ہے۔

ایک اندازے کے مطابق دس لاکھ موبائل فونز کو توڑ اور پگھلا کر 24کلوگرام سونا اور 250 کلوگرام چاندی حاصل کی جا سکتی ہےتصویر: picture alliance / JOKER

اس رپورٹ کے اجراء کا مقصد ری سائیکلنگ کے ساتھ ساتھ الیکٹرانک مصنوعات میں استعمال ہونے والے اُن مادوں کو محفوظ طریقے سے تلف کرنے کے رجحان کو بھی فروغ دینا ہے، جن میں سے زیادہ تر زہریلے ہوتے ہیں۔ اس رپورٹ سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ابھرتی ہوئی معیشتوں کی اقتصادی ترقی عالمی معیشت کو آلودگی کے اعتبار سے بھی کیسے تبدیل کر رہی ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے یو این یونیورسٹی سے وابستہ اور StEP پروگرام کے ایگزیکٹیو سیکرٹری رُوڈیگر کُوہر نے کہا کہ ’ای ویسٹ کے مسئلے پر عالمگیر پیمانے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

اس پروگرام کا کہنا ہے کہ ہر سال دنیا بھر میں کُوڑے میں پھینک دی جانے والی الیکٹرانک مصنوعات کا وزن، جو 2012ء میں 48.9 ملین ٹن تھا، 2017ء تک بڑھ کر 65.4 ملین ٹن تک جا پہنچے گا اور اس میں سے زیادہ تر کُوڑے کی ذمے دار وہ ترقی پذیر ریاستیں ہوں گی، جو آج کل اقتصادی میدان میں تیزی سے آگے بڑھ رہی ہیں۔

رپورٹ میں مثال دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ 2017ء تک کُوڑے میں پھینک دی جانے والی پرانی واشنگ مشینوں، کمپیوٹرز، ریفریجریٹرز، الیکٹرانک کھلونوں اور دیگر برقی آلات کا وزن بڑھ کر دو سو ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگز کے برابر ہو چکا ہو گا۔

بھارت جیسے ممالک میں الیکٹرانک آلات کو بغیر زیادہ احتیاطی اقدامات اختیار کیے پگھلانے کی کوشش کی جاتی ہے، جس سے انسانی صحت کو سنگین خطرات لاحق ہوتے ہیںتصویر: EMPA / ewaste

جہاں 2017ء تک مغربی دنیا کا الیکٹرانک کُوڑا بڑھ کر 28.6 ملین ٹن تک جا پہنچے گا، وہاں ترقی پذیر اور بھارت، برازیل اور جنوبی افریقہ جیسی ابھرتی ہوئی معیشتوں کا برقی فُضلہ کہیں زیادہ یعنی 36.7 ملین ٹن تک پہنچ جائے گا۔

کچھ مغربی ممالک کا الیکٹرانک فضلہ غریب ترقی پذیر ممالک میں پہنچتا ہے، جہاں بہت سے لوگ انتہائی ابتر حالات میں اور بہت ہی کم اجرت پر اس کُوڑے کے حصے بخرے کرنے کا کام انجام دیتے ہیں۔ اس کُوڑے سے ماحول کو بھی بے اندازہ نقصان پہنچ رہا ہے۔

یہ کُوڑا سود مند بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ ایک تحقیقی جائزے کے مطابق ایک ملین موبائل فونز سے 24 کلوگرام سونا، 250 کلوگرام چاندی، 9 کلوگرام پلیڈیم اور 9 ٹن سے زیادہ تانبا حاصل ہو سکتا ہے۔

اتوار پندرہ دسمبر کو جاری کی جانے والی اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ دنیا کا ہر باشندہ سال میں 7 کلوگرام وزن کے برابر الیکٹرانک آلات کُوڑے میں پھینکتا ہے۔ 29.8 کلوگرام کے ساتھ سب سے زیادہ فی کس الیکٹرانک کُوڑا امریکی شہری پھینکتے ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں