اماراتی سفیر برسوں بعد ایران میں اپنا منصب سنبھال رہے ہیں
22 اگست 2022
متحدہ عرب امارات کے نئے سفیر سیف محمد الزعبی چند دنوں میں تہران میں سفارت خانے میں اپنے فرائض منصبی سنبھال لیں گے۔ امارات نے سعودی سفارتی مشنوں پر ایرانی مظاہرین کے حملوں کے بعد ایران سے اپنے سفیر کو واپس بلالیا تھا۔
اشتہار
متحدہ عرب امارات کی وزارت خارجہ نے اتوار کے روز جاری ایک بیان میں بتایا کہ سیف محمد الزعبی اگلے چند دنوں کے اندر تہران میں اماراتی سفارت خانے میں اپنے فرائض منصبی سنبھال لیں گے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے،"یہ فیصلہ ایران کے ساتھ تعلقات کو مستحکم کرنے کی کوششوں اور سفیر کے عہدے تک سفارتی نمائندگی بڑھانے کے سابقہ فیصلے کی روشنی میں کیا گیا ہے۔ اور یہ فیصلہ دونوں ممالک اور وسیع تر خطے کے مشترکہ مفادات کے حصول اور دوطرفہ تعلقات کو مزید فروغ میں معاون ہوگا۔"
متحدہ عرب امارات کے سفیر کے تہران میں تقرر کا اعلان جولائی میں امارات کے وزیر خارجہ عبداللہ بن زاید اور ان کے ایرانی ہم منصب امیر عبداللہیان کے درمیان ٹیلی فونک بات چیت کے بعد کیا گیا تھا۔ اس سے قبل امارات کے صدر کے مشیر انور قرقاش نے علاقائی کشیدگی کو کم کرنے کی اپیل کرتے ہوئے اماراتی سفیر کی ممکنہ تہران واپسی کا عندیہ دیا تھا۔
امارات نے اپنے سفیر کو کیوں واپس بلایا تھا؟
سعودی عرب کی جانب سے سن 2016 میں شیعہ عالم دین نمر النمر کو پھانسی دیے جانے کے بعد ایرانی مظاہرین نے ایران میں سعودی عرب کے سفارتی مشنوں پر حملے کر دیے تھے۔ متحدہ عرب امارات نے سعودی عرب کے ساتھ یگانگت کے اظہار کے طور پر اسلامی جمہوریہ ایران سے اپنے تعلقات کو کم کرتے ہوئے تہران سے اپنے سفیر کو واپس بلالیا تھا۔
خلیج کے دیگر ممالک بشمول کویت نے بھی ایسے ہی اقدامات کیے تھے۔
ایران نے اس ماہ کے اوائل میں بتایا تھا کہ کویت نے سن 2016 کے بعد پہلی مرتبہ اپنا سفیر تہران بھیجا ہے۔
ایرانی جوہری معاہدہ: ملکی عوام کتنے پر امید ہیں؟
03:11
تعلقات میں بہتری
خلیج کے ان ممالک کے مابین مختلف اسباب کی بنا پر برسوں کی مخاصمت کے بعد متحدہ عرب امارات نے سن 2019 میں تعلقات استوار کرنے کی جانب دوبارہ قدم بڑھانا شروع کیا۔
گزشتہ برس سعودی عرب نے بھی ایران کے ساتھ اپنے تعلقات کو سدھارنے کی جانب قدم بڑھایا تھا جب عالمی طاقتوں کے ساتھ تہران کے جوہری معاہدے کو بحال کرنے کی کوششیں شروع ہوئی تھیں۔
خلیجی ملکوں کے ایران کے ساتھ تعلقات میں بہتری کی کوششیں اس وقت تیز ہوگئیں جب ستمبر 2020 میں متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کے ساتھ اپنے معمول کے تعلقات بحال کر لیے۔ تین دیگر عرب ممالک بحرین، سوڈان اور مراکش نے بھی 'ابراہیمی معاہدے'کے تحت اسرائیل کے ساتھ معمول کے تعلقات بحال کرلیے۔
ج ا/ ص ز (ا ے ایف پی، اے پی)
ایرانی فیکڑی: جہاں پرچم صرف جلانے کے لیے بنائے جاتے ہیں
ایران میں غیر ملکی پرچم تیار کرنے والی سب سے بڑی فیکڑی کا کاروبار تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ اس فیکڑی میں امریکی، برطانوی اور اسرائیلی پرچم صرف اس لیے تیار کیے جاتے ہیں تاکہ انہیں مظاہروں کے دوران جلایا جا سکے۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
ایران میں غیر ملکی پرچم تیار کرنے والی سب سے بڑی فیکڑی کا کاروبار تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ اس فیکڑی میں امریکی، برطانوی اور اسرائیلی پرچم صرف اس لیے تیار کیے جاتے ہیں تاکہ انہیں مظاہروں کے دوران جلایا جا سکے۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
یہ فیکڑی ایرانی دارالحکومت تہران کے جنوب مغربی شہر خمین میں واقع ہے، جہاں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ایسے جھنڈے پرنٹ کرتے ہیں اور پھر سوکھنے کے لیے انہیں لٹکا دیا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
احتجاجی مظاہروں کے دنوں میں اس فیکڑی میں ماہانہ بنیادوں پر تقریبا دو ہزار امریکی اور اسرائیلی پرچم تیار کیے جاتے ہیں۔ سالانہ بنیادوں پر پندرہ لاکھ مربع فٹ رقبے کے برابر کپڑے کے جھنڈے تیار کیے جاتے ہیں۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
ایرانی کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد سے امریکا اور ایران کے مابین پائی جانے والی کشیدگی اپنے عروج پر ہے اور اس وجہ سے آج کل ایران میں امریکا مخالف مظاہروں میں بھی شدت پیدا ہو گئی ہے۔ حکومت کے حمایت یافتہ مظاہروں میں امریکا، اسرائیل اور برطانیہ کے جھنڈے بھی تواتر سے جلائے جا رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
دیبا پرچم نامی فیکڑی کے مالک قاسم کنجانی کا نیوز ایجنسی روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ہمارا امریکی اور برطانوی شہریوں سے کوئی جھگڑا نہیں ہے۔ ہمارا مسئلہ ان کی حکومتوں سے ہے۔ ہمارا مسئلہ ان کے صدور سے ہے، ان کی غلط پالیسیوں سے ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
ایران مخالف ممالک کے جب پرچم نذر آتش کیے جاتے ہیں تو دوسرے ممالک کے عوام کیسا محسوس کرتے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں اس فیکڑی کے مالک کا کہنا تھا، ’’اسرائیل اور امریکا کے شہری جانتے ہیں کہ ہمیں ان سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اگر لوگ مختلف احتجاجی مظاہروں میں ان ممالک کے پرچم جلاتے ہیں تو وہ صرف اپنا احتجاج ریکارڈ کرا رہے ہوتے ہیں۔‘‘
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
رضائی اس فیکڑی میں کوالٹی کنٹرول مینیجر ہیں۔ انہوں نے اپنا مکمل نام بتانے سے گریز کیا لیکن ان کا کہنا تھا، ’’ امریکا کی ظالمانہ کارروائیوں کے مقابلے میں، جیسے کہ جنرل سلیمانی کا قتل، یہ جھنڈے جلانا وہ کم سے کم ردعمل ہے، جو دیا جا سکتا ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق انقلاب ایران میں امریکا مخالف جذبات کو ہمیشہ سے ہی مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے۔ ایرانی مذہبی قیادت انقلاب ایران کے بعد سے امریکا کا موازنہ سب سے بڑے شیطان سے کرتی آئی ہے۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
دوسری جانب اب ایران میں صورتحال تبدیل ہو رہی ہے۔ گزشتہ نومبر میں ایران میں حکومت مخالف مظاہروں کے دوران یہ نعرے بھی لگائے گئے کہ ’’ہمارا دشمن امریکا نہیں ہے، بلکہ ہمارا دشمن یہاں ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
حال ہیں میں تہران میں احتجاج کے طور پر امریکی پرچم زمین پر رکھا گیا تھا لیکن ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ نوجوان مظاہرین اس پر پاؤں رکھنے سے گریز کر رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ایرانی نوجوان پرچم جلانے کی سیاست سے بیزار ہوتے جا رہے ہیں۔