متحدہ عرب امارات میں شامل ریاست فجیرہ کے سربراہ کے ایک بیٹے نے قطر پہنچ کر سیاسی پناہ کی درخواست دی ہے۔ شہزادے کے بقول وہ ابو ظہبی کے حکمران سے شدید اختلاف رکھتے ہیں۔
اشتہار
امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز نے رپورٹ کیا ہے کہ متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کے شہزادے شیخ راشد بن حمد الشرقی نے خلیجی ریاست قطر پہنچ کر سیاسی پناہ کی درخواست دی ہے۔ قطری دارالحکومت پہنچ کر انہوں نے بتایا ہے کہ انہیں جان کا خطرہ ہے اور اس باعث وہ اپنی ریاست کو چھوڑنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
پرنس الشرقی متحدہ عرب امارات میں شامل چھوٹی ریاست فُجیرہ کے امیر کے بیٹے ہیں۔ وہ سولہ مئی کو قطری دارالحکومت دوحہ پہنچے تھے۔ الشرقی کا کہنا ہے کہ ابو ظہبی کے حکمران سے وہ بعض معاملات پر شدید اختلاف رکھتے ہیں اور اسی بنیاد پر اُن کی زندگی کو خطرہ لاحق ہے۔ انہوں نے یو اے ای کی حکومت پر یمنی جنگ کے تناظر میں تنقید بھی کی ہے۔
دوحہ پہنچنے کے بعد پرنس راشد بن حمد الشرقی نے امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کو انٹرویو بھی دیا۔ اس میں انہوں نے بتایا کہ اماراتی حکمران بلیک میلنگ اور منی لانڈرنگ کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے اس مناسبت سے کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کیے ہیں۔
شیخ راشد نے اپنے انٹرویو میں یہ بھی کہا کہ اُن کے حکومتی اشرافیہ سے اختلاف کی بنیادی وجہ یمنی مسلح تنازعہ ہے اور وہ اس میں امارات کی فوج کی تعیناتی کے حق میں نہیں ہیں۔ متحدہ عرب امارات یمنی جنگ میں سعودی عرب کی قیادت میں قائم عسکری اتحاد میں شامل ہے۔
سیاسی پناہ کے متلاشی پرنس الشرقی نے یہ بھی کہا کہ اس لڑائی میں ہلاک ہونے والے امارتی فوجیوں کی تعداد محض ایک سو کے لگ بھگ بتائی گئی ہے جب کہ حقیقت میں یہ تعداد کہیں زیادہ ہے اور سب سے زیادہ مرنے والے فُجیرہ ریاست سے تعلق رکھتے ہیں۔
نیوز ایجنسی اے ایف پی نے متحدہ عرب امارات کے حکام سے اس تناظر میں رابطہ بھی کیا۔ اس رابطے کے جواب میں اماراتی وزیر خارجہ انور قرقاش نے مبہم الفاظ میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ حکمران خاندان کے خلاف ایک سازش ہے اور یہ ايسا وہ حلقے کر رہے ہيں جو سامنے آ کر بات کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتے۔ قرقاش کے مطابق ایسے بزدل لوگ صرف انٹرویز دینے پر اکتفا کرتے ہیں۔
متحدہ عرب امارات میں سات ریاستیں شامل ہیں اور ابو ظہبی سب سے امیر ریاست تصور کی جاتی ہے۔ یہ بھی اہم ہے کہ قطر کے اپنی ہمسایہ ریاست یو اے ای کے ساتھ گزشتہ برس سے سفارتی تعلقات منقطع ہیں۔ قطری سفارتی تنازعے میں متحدہ عرب امارات کے علاوہ سعودی عرب، بحرین اور مصر بھی شامل ہیں۔
قطر اور گلف تعاون کونسل، سالوں پر پھیلے اختلافات
حالیہ قطری بحران، خلیجی ریاستوں اور دوحہ حکومت کے درمیان پیدا ہونے والے تناؤ کی پہلی مثال نہیں۔ ڈی ڈبلیو نے تصاویر کے ذریعے مشرق وسطیٰ میں علاقائی کشیدگی کی تاریخ پر ایک نظر ڈالی ہے۔
تصویر: Picture alliance/AP Photo/K. Jebreili
کشیدہ تعلقات اور کرچی کرچی اعتماد
رواں برس پانچ جون کو سعودی عرب، بحرین، متحدہ عرب امارات اور مصر نے قطر پر دہشت گردی کی حمایت اور اپنے حریف ایران سے تعلقات کے فروغ کا الزام عائد کرتے ہوئے دوحہ سے تعلقات منقطع کر دیے تھے۔ دوحہ حکومت نے ان تمام الزامات کو مسترد کیا ہے۔ سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں نے نہ صرف قطر پر پابندیاں عائد کیں بلکہ تعلقات کی بحالی کے لیے تیرہ مطالبات بھی پیش کیے۔ کویت فریقین کے درمیان ثالثی کی کوشش کر رہا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/STRINGER
خلیج تعاون کونسل بھی علاقائی عدم استحکام سے متاثر
پانچ مارچ سن 2014 میں بھی سعودی عرب، بحرین اور متحدہ عرب امارات نے اسلام پسند تنظیم اخوان المسلمون کے ساتھ تعاون پر قطر سے تعلقات منقطع کر دیے تھے۔ اخوان المسلمون کو بعض ممالک کے نزدیک دہشت گرد تنظیم خیال کیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Elfiqi
عرب اسپرنگ اور خلیجی تعاون کونسل
سن 2011 میں تیونس سے شروع ہونے والی انقلابی تحریک کے بعد ایسی تحریکیں کئی عرب ممالک میں پھیل گئی تھیں تاہم’عرب بہار‘ نے جی سی سی رکن ریاستوں میں بغاوتوں کی قیادت نہیں کی تھی۔ سوائے بحرین کے جس نے سعودی فوجی مدد سے ملک میں ہونے والے شیعہ مظاہروں کو کچل ڈالا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Al-Shaikh
سکیورٹی ایگریمنٹ کی خلاف ورزی کا الزام
قطر پر سن 2013 میں ہونے والے خلیجی تعاون کونسل کے سکیورٹی ایگریمنٹ کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ سعودی عرب اور اس کے اتحادی ممالک نے آٹھ ماہ کے شدید تناؤ کے بعد قطر میں اپنے سفارتخانے دوبارہ کھولنے پر اتفاق کیا تھا۔
تصویر: Getty Images/J. Ernst
پائپ لائن تنازعہ
سعودی عرب اور قطر کے درمیان تعلقات اُس وقت کم ترین سطح پر پہنچ گئے جب ریاض حکومت نے قطر کے کویت کے لیے ایک گیس پائپ لائن منصوبے کو نا منظور کر دیا۔ اسی سال سعودی حکومت نے قطری گیس اومان اور متحدہ عرب امارات لے جانے والے پہلے سے ایک طے شدہ پائپ لائن منصوبے پر بھی احتجاج کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Brakemeier
سرحدی جھڑپ
سن 1992 میں سعودی عرب اور قطر کے مابین ایک سرحدی جھڑپ میں تین افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ قطر نے دعوی کیا کہ ریاض نے خفوس کے مقام پر ایک سرحدی چوکی کو نشانہ بنایا۔ دوسر طرف سعودی عرب کا کہنا تھا کہ قطر نے اُس کے سرحدی علاقے پر حملہ کیا ہے۔
تصویر: AFP/Getty Images
سرحدوں کے تنازعات
سن 1965 میں سعودی عرب اور قطر کے درمیان ان کی سرحدی حد بندی کے حوالے سے ایک معاہدہ طے پایا تھا تاہم یہ معاملہ کئی برس بعد بھی مکمل طور پر طے نہیں ہو سکا تھا۔ سن 1996 میں دونوں ممالک نے اس حوالے سے ایک معاہدے پر دستخط کیے تاہم اس کے مکمل نفاذ میں مزید ایک عشرے سے زیادہ کا عرصہ لگا۔
علاقائی تنازعات
سن 1991 میں دوحہ ہوار جزائر سے متعلق بحرین کے ساتھ ایک تنازعے کو اقوام متحدہ کی بین الاقوامی عدالت انصاف میں لے گیا۔ سن 1986 میں بھی دونوں ممالک کے درمیان سعودی عرب کی مداخلت کے باعث عسکری تصادم ہوتے ہوتے رہ گیا۔ بعد میں انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس نے بحرین کے حق میں فیصلہ دیا تھا جبکہ قطر کو جینن جزائر کی ملکیت دی گئی تھی۔