اماراتی مشن ’ہوپ‘ نے مریخ کی اولین تصویریں زمین پر بھیج دیں
14 فروری 2021
متحدہ عرب امارات کی طرف سے خلائی تسخیر کے لیے مریخ کی طرف بھیجے گئے مشن ’ہوپ‘ نے نظام شمسی کے اس سیارے کی اولین تصویریں زمین پر بھیجنا شروع کر دی ہیں۔ ’ہوپ‘ پانچ روز قبل سرخ سیارہ کہلانے والے مریخ کے مدار میں پہنچا تھا۔
اشتہار
اس خلائی مشن کا عربی میں نام 'الامل‘ ہے، جس کا مطلب 'امید‘ ہے اور اسی لیے اسے انگریزی میں 'دی ہوپ‘ کہا گیا ہے۔ الامل کی طرف سے زمین پر مریخ کی پہلی تصویر بھیجے جانے کی خلیجی ریاست متحدہ عرب امارات کی قیادت نے آج اتوار 14 فروری کے روز تصدیق کر دی۔
متحدہ عرب امارات وہ پہلا عرب ملک ہے، جس نے خلائی تحقیق کے شعبے میں اپنا کوئی مشن زمین کے نظام شمسی کے کسی دوسرے سیارے کی طرف بھیجا ہے۔ 'دی ہوپ‘ نامی خلائی گاڑی سات ماہ قبل زمین سے خلا کی طرف روانہ ہوئی تھی اور منگل نو فروری کے روز وہ اپنی منزل یعنی مریخ کے مدار میں پہنچ گئی تھی۔
'ترقی یافتہ اقوام‘ میں شمولیت
اس مشن کی طرف سے زمین پر بھیجی جانے والی پہلی تصویر متحدہ عرب امارات کے حکمران شیخ محمد بن زید النہیان نے آج اتوار کے روز اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر شیئر کی۔
خلائی سیاحت: اسپیس شپ ٹو ’ورجن گیلکٹک‘ کا اندرونی منظر
انگریز موجد رچرڈ برینسن نے خلائی جہاز ’ورجن گیلکٹک‘ کا اندرونی منظر دنیا کے لیے پیش کر دیا ہے۔ یہ خلائی جہاز مسافروں کو لے کر زمین کے مدار میں جائے گا۔ اس سیاحت کے لیے فی مسافر ڈھائی لاکھ ڈالر تک کرایہ ادا کرے گا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Virgin Galactic
وسیع خلا کا ایک مختصر نظارہ
ممتاز انگریز موجد اور کاروباری شخصیت سَر رچرڈ برینسن خلائی سیاحت کے لیے متحرک ہیں۔ اس مقصد کے لیے وہ خلائی جہاز ’ورجن گیلکٹک‘ استعمال کریں گے۔ اب تک چھ سو امیر افراد نے بکنگ کروا رکھی ہے۔ ایک مسافر اس سیاحت کے لیے ڈھائی لاکھ ڈالر تک کرایہ ادا کرے گا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/R. Drew
خلا میں تیرنا
ورجن گیلکٹک کی ہر پرواز پر صرف چھ مسافروں کی گنجائش ہے۔ یہ تمام مسافر مکمل خلائی لباس پہن کر اپنی سیٹ پر بیٹھیں گے۔ ایک مرتبہ جب جہاز مدار میں پہنچ جائے گا تب وہ پوری طرح الٹا ہو جائے گا تا کہ تمام مسفر خلا سے زمین کا نظارہ کر سکیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Virgin Galactic
انفرادی ضروریات کی حامل سیٹ
خلائی جہاز پر سیاحوں کی سیٹیں ہر وقت کشش ثقل قوت کو برقرار رکھنے کی حامل ہوں گی۔ ان سیٹوں پر بیٹھے خلائی سیاح لائیو فلائیٹ ڈیٹا کے ساتھ بھی منسلک رکھے جائیں گے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Virgin Galactic
واضح منظر
خلائی جہاز ورجن گیلکٹک میں بارہ کھڑکیاں ہیں۔ یہ کھڑکیاں تمام سیٹوں کو ایک طرح سے گھیرے ہوئے ہیں تا کہ تمام خلائی مسافر باہر کا مسلسل بھرپور نظارہ کرتے رہیں۔ اس خلائی سفر میں مسافروں کے مزاج کا بھی بہتر انداز میں خیال رکھنے کا اہتمام کیا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Virgin Galactic
آدھا جہاز، آدھا راکٹ
ورجن گیلکٹک یا اسپیس شپ ٹُو ایک خصوصی جیٹ کے ساتھ جوڑا گیا ہے۔ یہ عمودی رخ پر سُپر سانک رفتار کے ساتھ اپنا سفر اختیار کرے گا۔ پائلٹ راکٹ چلانے کا بٹن دبائے گا تو اس کے ساتھ خلائی جہاز بھی حرکت میں آ جائے گا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Virgin Galactic
ہمیشہ رہنے والا نقش
اس خاص خلائی جہاز ورجن گیلکٹک میں سولہ کیمرے نصب ہوں گے۔ یہ کیمرے ہر مسافر کے تمام سفر کی کیفیات کو مسلسل ریکارڈ کرتے رہیں گے۔ اس میں ایک بڑا شیشہ بھی نصب کیا گیا ہے تا کہ جب خلائی مسافر خلا میں تیرنا شروع کریں تو وہ خود کو بھی دیکھ سکیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Virgin Galactic
ایک انتہائی مہنگا سفر
ورجن گیلکٹک کے تمام تر پرزے امریکی ریاست کیلیفورنیا کے ایک مقام موجاو میں قائم ایک فیکٹری میں جوڑ کر اسے خلائی جہاز کی شکل دیتے ہیں۔ تمام مسافروں کو سفر اختیار کرنے سے قبل خصوصی تربیت بھی دی جائے گی۔ بظاہر یہ ایک انتہائی منفرد اور بہت ہی مہنگا سفر ہو گا۔
محمد بن زید نے اپنی ٹویٹ میں لکھا، ''الامل کی طرف سے مریخ کی اولین تصویر کا زمین پر بھیجا جانا متحدہ عرب امارات کی تاریخ کا ایک انتہائی اہم سنگ میل ہے، جو اس امر کا ثبوت بھی ہے کہ یو اے ای خلائی تسخیر کے لیے سرگرم ترقی یافتہ اقوام میں شامل ہو گیا ہے۔‘‘
اسی طرح دبئی کے حکمران اور متحدہ عرب امارات کے نائب صدر شیخ محمد بن راشد نے ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں لکھا، ''عرب دنیا کی تاریخ کے پہلے خلائی مشن کی طرف سے لی گئی مریخ کی پہلی تصویر، جو سرخ سیارے کی سطح سے 25 ہزار کلو میٹر کی بلندی سے بنائی گئی۔‘‘
مریخ تک پہنچنے والا دنیا کا پانچواں ملک
الامل یا The Hope نامی اسپیس کرافٹ کو گزشتہ برس جولائی میں جاپان سے خلا میں بھیجا گیا تھا۔ اندازہ ہے کہ یہ خلائی گاڑی مریخ کے مدار میں دو سال تک رہے گی اور اس دوران اس سیارے کی فضا اور وہاں ممکنہ طور پر بدلتے ہوئے موسمی حالات کا تحقیقی مطالعہ کیا جائے گا۔
ناسا کے خلائی جہاز ان سائیٹ نے چار سو بیاسی ملین کلومیٹر (تین سو ملین میل) کا سفر طے کیا ہے۔ یہ روبوٹ کنٹرول خلائی جہاز مسلسل چھ ماہ تک سفر کرنے کے بعد مریخ کی سطح پر اترنے میں کامیاب ہوا ہے۔
ان سائیٹ خلائی مشن تقریباً ایک بلین امریکی ڈالر کا بین الاقوامی پراجیکٹ ہے۔ اس میں جرمن ساختہ مکینکل دھاتی چادر بھی استعمال کی گئی ہے، جو مریخ کی حدت برداشت کرنے کے قابل ہے۔ فرانس کے ایک سائنسی آلات بنانے والے ادارے کا خصوصی آلہ بھی نصب ہے، جو مریخ کی سطح پر آنے والے زلزلوں کی کیفیات کو ریکارڈ کرے گا۔ اس کے اترنے پر کنٹرول روم کے سائنسدانوں نے انتہائی مسرت کا اظہار کیا۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA/NASA/B. Ingalls
پہلی تصویر
تین ٹانگوں والا ان سائٹ مریخ کے حصے’الیسیم پلانیشیا‘ کے مغربی سمت میں اترا ہے۔ اس نے لینڈنگ کے بعد ابتدائی پانچ منٹوں میں پہلی تصویر کنٹرول ٹاور کو روانہ کی تھی۔ تین سو ساٹھ کلوگرام وزن کا یہ خلائی ریسرچ جہاز اگلے دو برسوں تک معلوماتی تصاویر زمین کی جانب روانہ کرتا رہے گا۔
تصویر: picture alliance/Zuma/NASA/JPL
ان سائنٹ مریخ کے اوپر
ان سائیٹ خلائی ریسرچ دو چھوٹے سیٹلائٹس کی مدد سے مریخ کی سطح تک پہنچنے میں کامیاب ہوا ہے۔ ان سیٹلائٹس کے توسط سے ان سائیٹ کی پرواز کے بارے میں معلومات مسلسل زمین تک پہنچتی رہی ہیں۔ اس خلائی مشن نے مریخ پر اترنے کے تقریباً ساڑھے چار منٹ بعد ہی پہلی تصویر زمین کے لیے روانہ کر دی تھی۔ اڑان سے لینڈنگ تک اِسے چھ ماہ عرصہ لگا۔ ناسا کے مریخ کے لیے روانہ کردہ خلائی مشن کی کامیابی کا تناسب چالیس فیصد ہے۔
ان سائیٹ مریخ کی سطح پر بارہ ہزار تین سو کلومیٹر کی رفتار سے پرواز کرتا ہوا اپنی منزل پر پہنچا۔ اترے وقت اس کو بریکوں کے علاوہ پیراشوٹس کی مدد بھی حاصل تھی۔ ان سائیٹ پراجیکٹ کے سربراہ سائنسدان بروس بینرٹ کا کہنا ہے کہ مریخ کی جانب سفر سے کہیں زیادہ مشکل امر لینڈنگ ہوتا ہے۔ سن 1976 کے بعد مریخ پر لینڈنگ کی یہ نویں کامیاب کوشش ہے۔
مریخ کی سطح پر ان سائیٹ نامی خلائی تحقیقی جہاز ایک ہی مقام پر ساکن رہتے ہوئے اگلے دو برس تک اپنا مشن جاری رکھے گا۔ اس مشن میں مریخ کی اندرونی سطح کا مطالعہ بھی شامل ہے۔ سرخ سیارے کے زلزلوں کی کیفیت کا بھی جائزہ لیا جائے گا۔ یہ ریسرچ مشن مریخ پر زندگی کے ممکنہ آثار بارے کوئی معلومات جمع نہیں کرے گا۔
تصویر: Reuters/M. Blake
5 تصاویر1 | 5
'دی ہوپ‘ کی طرف سے بھیجا جانے والا سائنسی ڈیٹا بعد ازاں بین الاقوامی سائنسی برادری کے ساتھ بھی شئیر کیا جائے گا۔ الامل کی مدد سے ملنے والی اس کامیابی کے بعد متحدہ عرب امارات دنیا کا ایسا پانچواں ملک بن گیا ہے، جس کی کوئی خلائی گاڑی مریخ تک پہنچی ہے۔
متحدہ عرب امارات خلیج فارس کے علاقے کی ایک ایسی وفاقی عرب ریاست ہے، جو تیل سے مالا مال سات مختلف امارات پر مشتمل ہے، جن میں دبئی، ابوظہبی اور شارجہ تین معروف ترین نام ہیں۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ متحدہ عرب امارات اسی سال ایک وفاقی ریاست کے طور پر اپنے قیام کی 50 ویں سالگرہ بھی منا رہا ہے۔
جہاں تک متحدہ عرب امارات کے مستقبل کے خلائی منصوبوں کا تعلق ہے، تو یہ ملک اپنی طرف سے ایک بہت پرجوش خلائی پروگرام بھی پیش کر چکا ہے۔ اس پروگرام میں یہ بھی شامل ہے کہ یو اے ای 2117ء تک اس سرخ سیارے کی سطح پر ایک انسانی بستی بھی قائم کر لے گا۔
م م / ع آ (ڈی پی اے، اے ایف پی)
کیوروسٹی کو دو سال مکمل
امریکی خلائی تحقیقی ادارے ناسا کی طرف سے مریخ کی سطح پر اتاری جانے والی تیسری روبوٹک گاڑی کیوروسٹی کو آج چھ اگست کے دن دو برس مکمل ہو گئے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa
ریکارڈ فاصلہ
ناسا کی طرف سے جنوری 2004ء میں مریخ کی سطح پر جو ایک روبوٹک گاڑی اتاری گئی اسے اپورچونٹی کا نام دیا گیا تھا۔ منصوبے کے مطابق اس گاڑی کو ایک کلومیٹر کے اندر اس سُرخ سیارے کی سطح کا جائزہ لینا تھا۔ مگر گزشتہ ایک دہائی کے دوران اپورچونٹی مریخ پر 40 کلومیٹر کا سفر کر چکی ہے۔ جو زمین سے پرے کسی گاڑی کا ریکارڈ سفر ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa
کیوروسٹی کا اہم سنگ میل
چھ اگست 2012ء کو مریخ کی سطح پر اتاری جانے والی روبوٹک گاڑی کیوروسٹی ہمارے نظام شمسی کے اس سیارے کی سطح پر مصروف عمل ہے۔ کیوروسٹی زمینی کنٹرول سنٹر کو مریخ کی سطح کی تصاویر بھیجنے میں مصروف ہے۔ اس کے علاوہ اس پر نصب نظاموں نے پہلی بار وہاں کی ایک چٹان کا تجزیہ بھی کیا ہے۔ یہ اس مشن کا ایک اہم سنگ میل ہے۔
تصویر: NASA/JPL-Caltech/MSSS
مریخ کی سطح پر پہلا سوراخ
کیوروسٹی میں نصب ڈرلنگ نظام نے رواں برس فروری میں مریخ کی سطح پر سوراخ کیا۔ اس کا قطر 1.6 انچ جبکہ گہرائی چھ انچ تھی۔ ناسا حکام نے اس پیشرفت کو ’’مریخ پر اترنے کے بعد کی عظیم ترین کامیابی‘‘ قرار دیا۔
تصویر: Reuters/NASA/JPL-Caltech
پانی کی موجودگی کا ثبوت
سائنسدان مریخ کی اس چٹان کے تجزیے سے یہ امید کر رہے ہیں کہ یہ بات معلوم ہو سکے گی کہ آیا ماضی میں کبھی اس کی سطح پر پانی موجود رہا ہے یا نہیں۔ اس کے نتائج سے مریخ کے بارے میں مزید اہم معلومات بھی حاصل ہوں گی۔
تصویر: Reuters/NASA/JPL-Caltech/MSSS
زندگی کے لیے سازگار فضا
کھدائی کے ذریعے حاصل کیے گئے مریخ کی چٹانی سطح کے نمونے میں سلفر، نائٹروجن، فاسفورس اور کاربن کی موجودگی کے شواہد ملے ہیں۔ ان کیمیائی اجزاء کو زندگی کے لیے اہم قرار دیا جاتا ہے۔ ناسا ماہرین کے مطابق، ’’یہ کبھی قابل رہائش جگہ رہی ہو گی۔‘‘
تصویر: picture alliance/AP Photo/NASA
سفر جاری ہے
900 کلوگرام وزنی یہ روبوٹک گاڑی شمسی توانائی کے علاوہ جوہری توانائی سے چلتی ہے۔ اس طرح خصوصی ساخت کے چھ پہیوں والی یہ گاڑی ریتلی اور پتھریلی زمین پر با آسانی حرکت کر سکتی ہے۔
تصویر: NASA/JPL-Caltech/Malin Space Science Systems
اپنی ہی ایک تصویر
کیوروسٹی پر انتہائی جدید آلات نصب ہیں۔ جن میں کمپیوٹرز، انٹینیا، ٹرانسمیٹر، کیمرے اور چیزوں کو پکڑنے والے بازو شامل ہیں۔ کسی خرابی کی صورت میں یہ گاڑی خود ہی اسے دور بھی کر سکتی ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ اس پر نصب مختلف کیمرے اس گاڑی کے دیگر حصوں کی تصاویر بھی بنا کر زمین پر بھیجتے رہتے ہیں۔
تصویر: NASA/JPL-Caltech/Malin Space Science Systems
حرکت کرتی آنکھ
کیوروسٹی کے ایک روبوٹک آرم پر ایک خصوصی کیمرہ نصب ہے جسے ’مارس ہینڈ لینز امیجر‘ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ ایک طرح کی خوردبین ہے جو روبوٹ کے طویل روبوٹک بازو کو آہستگی کے ساتھ زیرتجزیہ مقام کے چھوٹے چھوٹے حصوں کی طرف لاتی ہے۔
تصویر: NASA/JPL-Caltech/MSSS
مریخ سے سورج گرہن کا نظارہ
کیوروسٹی پر نصب ایک پول پر لگے کیمرے نے یہ تصاویر بنائی ہیں۔ ان میں مریخ کے دو چاندوں میں سے ایک فوبوز Phobos مریخ اور سورج کے درمیان سے گزر رہا ہے جس سے جزوی سورج گرہن دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: NASA/JPL-Caltech/MSSS
مریخ کا پہلا سال
24 جون 2014ء وہ دن تھا جب کیوروسٹی کو مریخ کی سطح پر اترے مریخ ہی کے وقت کے مطابق ایک سال مکمل ہوا۔ مریخ کا سال دنیا کے 687 دنوں کے برابر ہے۔ اور یوں اس نے اپنے لیے مقرر کردہ وقت کا ہدف بھی حاصل کر لیا ہے۔ مگر یہ اب بھی رواں دواں ہے اور ممکن ہے کہ یہ اپورچونیٹی کے ریکارڈ کو بھی توڑ دے۔