1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امارات میں موجود افغان پناہ گزین غیر یقینی مستقبل سے پریشان

25 اگست 2022

افغانستان سے انخلاء کے ایک برس بعد بھی افغان پناہ گزین اور تارکین وطن متحدہ عرب امارات میں عارضی کیمپوں میں غیر یقینی مستقبل سے دوچار ہیں۔ اس ناگفتہ بہ صورت حال کے خلاف انہوں نے اس ہفتے مظاہرے کیے۔

Griechenland Lesbos Flüchtlingszentrum Kara Tepe | Vater & Kinder
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis

اپنے ہاتھوں میں بینر لیے اور آزادی کے نعرے لگاتے ہوئے سینکڑوں افغان شہریوں نے ابوظہبی اور اس کے قریب افغان تارکین وطن کے لیے تعمیر کردہ  دو کیمپوں میں پیر اور منگل کے روز مظاہرے کیے۔ ان کا کہنا تھا کہ اب بھی ہزاروں افغان امریکہ یا تیسرے ملکوں میں اپنی بازآبادکاری کی راہ دیکھ رہے ہیں۔

خبر رساں ایجنسی روئٹرز کو بھیجی گئی تصویروں اور ویڈیوز میں دیکھا جاسکتا ہے کہ 38 ڈگری سیلسئس گرمی میں بھی بچے، خواتین اور مرد ابوظہبی کے

'ایمیریٹس ہیومنیٹرین سٹی' نامی ایک کیمپ میں مظاہرے کررہے ہیں۔ ایک بچے نے بینر اٹھا رکھا تھا جس پر لکھا تھا، "ایک سال بہت ہوتا ہے۔"

متحدہ عرب امارات کے ایک عہدیدار نے اس بات کی تصدیق کی کہ افغان پناہ گزینوں میں مایوسی ہے اور ان کی جلد از جلد بازآبادکاری کیمتحدہ عرب امارات کی خواہش کے باوجود اس عمل میں کافی تاخیر ہو رہی ہے۔

متبادل تلاش کرنے کی کوشش

اماراتی عہدیدار کا کہنا تھا کہ متحدہ عرب امارات ابوظہبی میں امریکی سفارت خانے کے ساتھ مسلسل کام کررہا ہے تاکہ کیمپوں میں مقیم افغانوں کی "وقت کے مطابق" بازآباکاری کی جا سکے۔

 انہوں نے کہا، "متحدہ عرب امارات امریکہ اور دیگر بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ اپنے تعاون کو جاری رکھنے کے عہد پر قائم ہے تاکہ افغانستان سے نکالے گئے افغان محفوظ، سلامتی اور وقار کے ساتھ زندگی گزار سکیں۔"

امریکی وزارت خارجہ کے ایک ترجمان نے بتایا کہ واشنگٹن امریکہ میں بازآبادکاری کے اہل افغانوںکی شناخت کے لیے کام کر رہا ہے اور وہ جانچ کے معیار اور دیگر اقدامات کو یقینی بناتے ہوئے "اپنی یہ کوشش مسلسل جاری رکھے گا۔"

ترجمان نے مزید کہا کہ جو لوگ امریکہ میں بازآبادکاری کے اہل پائے جائیں گے انہیں متحدہ عرب امارات اور دیگر ملکوں میں بازآبادکاری کے متبادل تلاش کرنے میں بھی تعاون کر رہا ہے۔

متحدہ عرب امارات کا کہنا ہے کہ کوشش کے باوجود افغان پناہ گزینوں کی بازآبادکاری میں تاخیر ہورہی ہےتصویر: Angelos Tzortzinis/AFP

'ہم ایک جدید جیل میں قید ہیں'

ایک افغان تارک وطن نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا، "تقریباً ایک برس سے ہم حراست میں زندگی گزار رہے ہیں اور یہ کیمپ ایک جدید جیل کی طرح ہے۔ کسی کو اس سے باہر جانے کی اجازت نہیں ہے۔ انہیں یہ نہیں معلوم کہ ہمیں کسی دوسرے ملک میں مستقل طور پر کب بھیجا جائے گا۔"

افغان تارکین وطن کی جانب سے پہلا مظاہرہ فروری میں اس وقت ہوا جب بازآبادکاری کاعمل بظاہر رک گیا تھا۔ اس مظاہرے کے بعد امریکی محکمہ خارجہ کے ایک اعلیٰ افسر نے کیمپ کا دورہ کیا اور اگست تک تمام افغانوں کی مکمل بازآبادکاری کی یقین دہانی کرائی۔

ان کے دورے کے فوراً بعد بازآبادکاری کاسلسلہ بحال ہو گیا۔ اس وقت ابوظہبی اور اس کے قریب واقع ایک دیگر کیمپ میں تقریباً 12000افغان موجود تھے۔

امریکہ نے گزشتہ برس اگست کے بعد سے اب تک 85000 سے زائد افغانوں کو افغانستان سے نکال چکا ہے۔ ان میں سے بہت سے لوگوں کو مشرق وسطیٰ اور یورپ میں بسایا گیا ہے۔

متحدہ عرب امارات میں کیمپوں میں مقیم ہزاروں افغان ایک بہتر مستقبل کے منتظر ہیںتصویر: Andreas Rentz/Getty Images

'دماغی حالت خراب ہو رہی ہے'

دو افغان پناہ گزینوں نے روئٹرز کو بتایا کہ انتہائی سخت پہرے والے کیمپوں میں رہنے اور اپنے مستقبل کے حوالے سے غیر یقینی کی وجہ سے  لوگوں کی دماغی حالت خراب ہوتی جارہی ہے۔ ان دونوں نے کہا انہیں یہ نہیں پتہ کہ انہیں کون سے ملک میں بھیجا جائے گا۔

متحدہ عرب امارات کا کہنا ہے کہ اس نے گزشتہ برس طالبان کے اقتدار پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد اپنی جان بچانے کے لیے وہاں سے نکل جانے والے ہزاروں افغانوں کی امریکہ اور دیگر مغربی ملکوں کی درخواست پر عارضی میزبانی کی پیش کش کی تھی۔

افغانستان: تین پناہ گزینوں کی ہلاکت پر ایران کی مذمت

 امارات کے عہدیداروں کا دعویٰ ہے کہ ان کیمپوں میں رہنے والوں کو "اعلیٰ معیار کے مکانات، صفائی ستھرائی، صحت، طبی سہولیات، تعلیم اور کھانے پینے کی چیزیں فراہم کی جارہی ہیں اور ان کی بہبود کو یقینی بنایا گیا ہے۔"

متحدہ عرب امارات کے کیمپوں میں جن افغان شہریوں کو رکھا گیا ہے ان میں سے بیشتر طالبان کے خلاف جنگ کے دوران امریکی حکومت، فوج اور دیگر اتحادی ملکوں نیز غیر ملکی فلاحی اداروں کے لیے کام کرتے تھے۔

ج ا/ ص ز (روئٹرز)

پاکستان میں تعلیم کے حق سے محروم افغان بچے

03:08

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں