دیگر خلیجی ممالک یو اے ای کے نقش قدم پر چل سکتے ہیں، اسرائیل
16 اگست 2020
اسرائیلی انٹیلیجینس کے وزیر کے مطابق متحدہ عرب امارات کے بعد خلیجی ملکوں میں بحرین اور عمان بھی اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر سکتے ہیں۔ ادھر اسرائیلی اور اماراتی کمپنیاں تیزی سے نئے معاہدوں پر دستخط کر رہی ہیں۔
اشتہار
امارات اور اسرائیل کے مابین تاریخی امن معاہدے کے نتیجے میں مزید خلیجی ریاستوں اور افریقہ کے مسلم ممالک کے ساتھ اضافی معاہدے ہو سکتے ہیں۔ اس بات کا عندیہ اسرائیلی انٹلیجینس کے وزیر ایلی کوہن نے اتوار کے روز آرمی ریڈیو سے گفتگو میں دیا۔ کوہن کے بقول، ''بحرین اور عمان یقینی طور پر ایجنڈے میں شامل ہیں اور عین ممکن ہے کہ آئندہ سال افریقی ممالک بالخصوص سوڈان کے ساتھ ایک امن معاہدہ عمل میں آئے۔‘‘
خلیجی ریاستوں میں سے بحرین اور عمان پہلے ہی متحدہ عرب امارات اور اسرائیل معاہدے کی حمایت کر چکی ہیں لیکن دونوں ملکوں کی جانب سے ابھی تک اسرائیل کے ساتھ باہمی تعلقات کے حوالے سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔
اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو گزشتہ دو سالوں میں عمانی اور سوڈانی رہنماؤں سے ملاقاتیں کر چکے ہیں۔
وائٹ ہاؤس کی پس پردہ سفارت کاری
جمعہ کے روز امریکا کے ایک سینئر اہلکار نے بتایا ہے کہ وائٹ ہاؤس خطے کے 'متعدد‘ ملکوں کے ساتھ اس حوالے سے رابطے میں ہے۔ امریکی اہلکار نے ان ممالک کے نام ظاہر کیے بغیر یہ بتایا کہ وہ ممالک مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے عرب اور مسلم ممالک ہیں۔
جنہيں قسمت نے ہمسايہ بنا ديا: ايک مسلمان، ايک يہودی
02:33
گزشتہ جمعرات کو ہی متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے مابین ایک تاریخی معاہدہ طے پایا تھا جس سے نہ صرف اس خطے بلکہ عالمی سیاست میں بھی ہلچل دیکھی گئی۔ فلسطینی حکام نے اس ڈیل کو غداری قرار دیتے ہوئے اس کو مسترد کر دیا۔ لیکن اس کے جواب میں صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ جب خطے کے اہم ممالک اسرائیل کے ساتھ معاہدے کر لیں گے تو فلسطینیوں کو بھی آخرکار مذاکرات کرنا پڑیں گے۔
امارات اور اسرائیل کے روابط میں تیزی
متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کی جانب سے باہمی مکمل سفارتی تعلقات قائم کرنے پر رضامندی کے بعد ایک ٹیلی فون سروس کا آغاز کیا گیا ہے۔ اماراتی وزیر خارجہ عبداللہ بن زاید اور ان کے اسرائیلی ہم منصب گابی اشکنازی نے اتوار کے روز فون سروس کے لنک کا افتتاح کیا ہے۔
اس سے قبل ساتوں اماراتی ریاستوں کی حدود کے اندر سے اسرائیل کے ٹیلی فون کوڈ +972 پر کال نہیں ملائی جاسکتی تھی۔ لہٰذا بعض اسرائیلی فلسطینی فون نمبر +970 استعمال کرتے تھے تاکہ امارات کے لوگ انہیں کال کرسکیں۔
دریں اثناء ابوظہبی میں اماراتی قومی سرمایہ کاری کی کمپنی 'ایپیکس‘ نے اسرائیلی 'ٹیرا گروپ‘ کے ساتھ کورونا وائرس کے بارے میں تحقیق اور تشخیص کے حوالے سے معاہدے کا اعلان کیا ہے۔ امارات اسرائیل معاہدے کے بعد یہ دونوں ملکوں کی کمپنیوں کے درمیان پہلی ڈیل ہے۔
اسرائیل نے سن 1979 میں مصر اور سن 1994 میں اردن کے ساتھ امن معاہدوں پر دستخط کیے تھے۔ لیکن اس وقت متحدہ عرب امارات کے ساتھ ساتھ دیگر عرب ممالک کے ساتھ اس کے باضابطہ سفارتی یا معاشی تعلقات نہیں قائم ہوسکے تھے۔ اب اردن اور مصر کے بعد متحدہ عرب امارات اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے والا تیسرا عرب ملک بن گیا ہے۔
ع آ / ش ح (اے پی، روئٹرز، ڈی پی اے)
اسرائیلی اماراتی معاہدہ اور مسلم ممالک کا ردِ عمل
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مطابق متحدہ عرب امارات کی طرح کئی دیگر عرب اور مسلم ممالک اور اسرائیل کے مابین امن معاہدے جلد طے پا سکتے ہیں۔ موجودہ معاہدے پر مسلم ممالک کی جانب سے کیا رد عمل سامنے آیا، جانیے اس پکچر گیلری میں۔
’تاریخی امن معاہدہ‘ اور فلسطینیوں کا ردِ عمل
فلسطینی حکام اور حماس کی جانب سے اس معاہدے کو مسترد کیا گیا ہے۔ فلسطینی صدر محمود عباس اور حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ نے آپسی اختلافات پس پشت ڈال کر ٹیلی فون پر گفتگو کی۔ فلسطین نے متحدہ عرب امارات سے اپنا سفیر بھی فوری طور پر واپس بلانے کا اعلان کیا ہے۔ صدر ٹرمپ کے مطابق جب خطے کے اہم ممالک اسرائیل کے ساتھ معاہدے کر لیں گے تو فلسطینیوں کو بھی آخرکار مذاکرات کرنا پڑیں گے۔
تصویر: Getty Images/AFP/K. Desouki
متحدہ عرب امارات کا اپنے فیصلے کا دفاع
یو اے ای کے مطابق اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کا ان کا فیصلہ مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے امکانات بڑھائے گا اور یہ فیصلہ مشرق وسطیٰ کے تنازعے میں ’درکار ضروری حقیقت پسندی‘ لاتا ہے۔ اماراتی وزیر خارجہ انور قرقاش کے مطابق شیخ محمد بن زیاد کے جرات مندانہ فیصلے سے فلسطینی زمین کا اسرائیل میں انضمام موخر ہوا جس سے اسرائیل اور فلسطین کو دو ریاستی حل کے لیے مذاکرات کرنے کے لیے مزید وقت مل جائے گا۔
تصویر: Reuters/M. Ngan
ترکی کا امارات سے سفارتی تعلقات منقطع کرنے پر غور
ترکی نے اماراتی فیصلے پر شدید تنقید کی ہے۔ صدر ایردوآن نے یہ تک کہہ دیا کہ انقرہ اور ابوظہبی کے مابین سفارتی تعلقات ختم کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔ ترک وزارت خارجہ نے کہا کہ ایسی ڈیل کرنے پر تاریخ یو اے ای کے ’منافقانہ رویے‘ کو معاف نہیں کرے گی۔ ترکی کے پہلے سے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ہیں تاہم حالیہ برسوں کے دوران دونوں ممالک کے مابین کشیدگی بڑھی ہے۔
خطے میں امریکا کے اہم ترین اتحادی ملک سعودی عرب نے ابھی تک اس پیش رفت پر کوئی باقاعدہ بیان جاری نہیں کیا۔ اس خاموشی کی بظاہر وجہ موجودہ صورت حال کے سیاسی پہلوؤں کا جائزہ لینا ہے۔ بااثر سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے اماراتی رہنما محمد بن زاید النہیان اور امریکی صدر ٹرمپ کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں۔
تصویر: picture-alliance/abaca
امن معاہدہ ’احمقانہ حکمت عملی‘ ہے، ایران
ایران نے متحدہ عرب امارات کے فیصلے کو ’شرمناک اور خطرناک‘ قرار دیتے ہوئے شدید تنقید کی ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ نے اس معاہدے کو متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کی احمقانہ حکمت عملی قرار دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اس سے خطے میں مزاحمت کا محور کمزور نہیں ہو گا بلکہ اسے تقویت ملے گی۔ خطے میں ایرانی اثر و رسوخ سے لاحق ممکنہ خطرات بھی خلیجی ممالک اور اسرائیل کی قربت کا ایک اہم سبب ہیں۔
عمان نے متحدہ عرب امارات کے فیصلے کی تائید کی ہے۔ سرکاری نیوز ایجنسی نے عمانی وزارت خارجہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ سلطنت عمان اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کے اماراتی فیصلے کی حمایت کرتی ہے۔
تصویر: Israel Prime Ministry Office
بحرین نے بھی خوش آمدید کہا
خلیجی ریاستوں میں سب سے پہلے بحرین نے کھل کر اماراتی فیصلے کی حمایت کی۔ بحرین کا کہنا ہے کہ اس معاہدے سے مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے امکانات کو تقویت ملے گی۔ بحرین خود بھی اسرائیل سے سفارتی تعلقات کا حامی رہا ہے اور گزشتہ برس صدر ٹرمپ کے اسرائیل اور فلسطین سے متعلق منصوبے کی فنڈنگ کے لیے کانفرنس کی میزبانی بھی بحرین نے ہی کی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Saudi Press Agency
اردن کی ’محتاط حمایت‘
اسرائیل کے پڑوسی ملک اردن کی جانب سے نہ اس معاہدے پر تنقید کی گئی اور نہ ہی بہت زیادہ جوش و خروش دکھایا گیا۔ ملکی وزیر خارجہ ایمن الصفدی کا کہنا ہے کہ امن معاہدے کی افادیت کا انحصار اسرائیلی اقدامات پر ہے۔ اردن نے سن 1994 میں اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ کیا تھا۔
تصویر: Reuters//Royal Palace/Y. Allan
مصری صدر کی ’معاہدے کے معماروں کو مبارک باد‘
مصر کے صدر عبد الفتاح السیسی نے ٹوئیٹ کیا، ’’ اس سے مشرق وسطی میں امن لانے میں مدد ملے گی۔ میں نے فلسطینی سرزمین پر اسرائیل کے انضمام کو روکنے کے بارے میں امریکا، متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان مشترکہ بیان کو دلچسپی اور تحسین کے ساتھ پڑھا۔ میں اپنے خطے کی خوشحالی اور استحکام کے لیے اس معاہدے کے معماروں کی کاوشوں کی تعریف کرتا ہوں۔“ مصر نے اسرائیل کے ساتھ سن 1979 میں امن معاہدہ کیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Watson
پاکستان سمیت کئی مسلم ممالک خاموش
پاکستان کی طرف سے ابھی تک کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا گیا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی سربراہ اگست کے مہینے کے دوران انڈونیشیا کے پاس ہے لیکن اس ملک نے بھی کوئی بیان نہیں دیا۔ بنگلہ دیش، افغانستان، کویت اور دیگر کئی مسلم اکثریتی ممالک پہلے جوبیس گھنٹوں میں خاموش دکھائی دیے۔