امدادی ادارے یا مہاجرین کو یورپ لانے کی ’ٹیکسی سروس‘؟
شمشیر حیدر AFP
8 مئی 2017
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین نے بحیرہ روم میں سرگرم امدادی اداروں کے دفاع اور حمایت کا اعلان کیا ہے۔ ان میں سے کچھ امدادی اداروں پر انسانوں کے اسمگلروں کے ساتھ مل کر مہاجرین کو یورپ پہنچانے کا الزام لگایا گیا تھا۔
اشتہار
اقوام متحدہ کے کمشنر برائے مہاجرین فلیپو گرانڈی نے بحیرہ روم میں تارکین وطن اور مہاجرین کو بچانے کے لیے سرگرم غیر سرکاری تنظیموں کی خدمات کو سراہا ہے۔ گزشتہ ماہ اطالوی پراسیکیوٹرز نے الزام لگایا تھا کہ بحیرہ روم میں مہاجرین اور تارکین وطن کو ڈوبنے سے بچانے کے لیے سرگرم یہ غیر سرکاری تنظیمیں دراصل انسانوں کے اسمگلروں کے ساتھ مل کر تارکین وطن کو غیر قانونی طور پر یورپ پہنچا رہی ہیں۔
یورپی یونین کی بیرونی سرحدوں کے نگران ادارے ’فرنٹیکس‘ نے بھی ان امدادی اداروں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ وہ یورپ کی جانب غیر قانونی مہاجرت میں ’ٹیکسی سروس‘ کا کردار ادا کر رہے ہیں۔
حالیہ عرصے کے دوران لیبیا اور دیگر شمالی افریقی ممالک سے تارکین وطن کو کشتیوں کے ذریعے یورپی ساحلوں تک پہنچانے والے انسانوں کے اسمگلر انہیں یورپی ساحلوں تک لے جانے کے بجائے بحیرہ روم میں موجود امدادی اداروں کے بحری جہازوں تک پہنچا رہے تھے۔ یہ ادارے خستہ حال کشتیوں میں سوار تارکین وطن کو سمندر میں ڈوبنے سے بچاتے ہوئے انہیں اپنے بحری جہازوں میں لے آتے ہیں اور بعد ازاں انہیں اٹلی پہنچا دیا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے ان پر انسانوں کے اسمگلروں کی معاونت کا الزام لگایا جا رہا ہے۔
اسی تناظر میں فلیپو گرانڈی نے ان امدادی اداروں کی خدمات کو سراہتے ہوئے کہا، ’’این جی اوز اطالوی کوسٹ گارڈز اور فرنٹیکس کی مشترکہ اور انتھک امدادی کارروائیاں ستائش کے قابل ہیں۔ ان اداروں نے مل کر ہزاروں انسانوں کی زندگیاں بچائی ہیں۔ 2016ء میں امدادی اداروں نے چھیالیس ہزار سے زائد تارکین وطن کو سمندر برد ہونے سے بچایا جو کہ تمام ریسکیو آپریشنز میں بچائے گئے مہاجرین کا چھبیس فیصد بنتا ہے۔ رواں برس ان امدادی اداروں کا حصہ تینتیس فیصد سے زائد رہا ہے۔‘‘
صرف گزشتہ جمعے اور ہفتے کے روز ہی اڑتالیس گھنٹوں کے دوران چھ ہزار سے زائد تارکین وطن کو بحیرہ روم میں ڈوبنے سے بچایا گیا۔ ان دو دنوں میں چالیس سے زائد امدادی کارروائیاں کی گئیں جن میں اطالوی ساحلی محافظوں کے ساتھ ساتھ ڈاکٹرز وِدآؤٹ بارڈرز اور ایس او ایس جیسے امدادی اداروں نے بھی حصہ لیا تھا۔ اطالوی سیاست دان ان دو اداروں کو بالخصوص تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں جب کہ یہ غیر سرکاری تنظیمیں ایسے تمام الزامات کو سختی سے مسترد کر رہی ہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ بحیر روم کو عبور کرنے کی کوشش میں حالیہ ہفتے کے دوران رونما ہونے والے تین حادثوں کے نتیجے میں کم از کم سات سو افراد ہلاک جبکہ دیگر سینکڑوں لاپتہ ہو چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Italian Navy/Handout
عمومی غلطی
ماہی گیری کے لیے استعمال ہونے والی اس کشتی میں سوار مہاجرین نے جب ایک امدادی کشتی کو دیکھا تو اس میں سوار افراد ایک طرف کو دوڑے تاکہ وہ امدادی کشتی میں سوار ہو جائیں۔ یوں یہ کشتی توازن برقرار نہ رکھ سکی اور ڈوب گئی۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
اچانک حادثہ
عینی شاہدین کے مطابق اس کشتی کو ڈوبنے میں زیادہ وقت نہ لگا۔ تب یوں محسوس ہوتا تھا کہ اس کشتی میں سوار افراد پتھروں کی طرح پانی میں گر رہے ہوں۔ یہ کشتی لیبیا سے اٹلی کے لیے روانہ ہوئی تھی۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
الٹی ہوئی کشتی
دیکھتے ہی دیکھتے یہ کشتی مکمل طور پر الٹ گئی۔ لوگوں نے تیر کر یا لائف جیکٹوں کی مدد سے اپنی جان بچانے کی کوشش شروع کردی۔ اطالوی بحریہ کے مطابق پانچ سو افراد کی جان بچا لی گئی۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
امدادی آپریشن
دو اطالوی بحری جہاز فوری طور پر وہاں پہنچ گئے۔ امدادی ٹیموں میں ہیلی کاپٹر بھی شامل تھے۔ بچ جانے والے مہاجرین کو بعد ازاں سیسلی منتقل کر دیا گیا، جہاں رواں برس کے دوران چالیس ہزار مہاجرین پہنچ چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
ہلاک ہونے والوں میں چالیس بچے بھی
تازہ اطلاعات کے مطابق جہاں ان حادثات میں سات سو افراد کے ہلاک ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے، وہیں چالیس بچوں کے سمندر برد ہونے کا بھی قوی اندیشہ ہے۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
حقیقی اعدادوشمار نامعلوم
جمعے کو ہونے والے حادثے میں ہلاک یا لاپتہ ہونے والوں کی تعداد کے بارے میں ابھی تک کوئی معلومات حاصل نہیں ہو سکی ہیں۔
تصویر: Reuters/EUNAVFOR MED
مہاجرین کو کون روکے؟
ایسے خدشات درست معلوم ہوتے نظر آ رہے ہیں کہ ترکی اور یورپی یونین کی ڈیل کے تحت بحیرہ ایجیئن سے براستہ ترکی یونان پہنچنے والے مہاجرین کے راستے مسدود کیے جانے کے بعد لیبیا سے اٹلی پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد بڑھ جائے گی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Italian Navy/Marina Militare
عینی شاہدین کے بیانات
عینی شاہدین نے بتایا ہے کہ کس طرح انہوں نے اپنی آنکھوں سے مہاجرین کی کشتیوں کوڈوبتے دیکھا، جن میں سینکڑوں افراد سوار تھے۔ یہ تلخ یادیں ان کے ذہنوں پر سوار ہو چکی ہیں۔
تصویر: Getty Images/G.Bouys
سینکڑوں ہلاک
گزشتہ سات دنوں کے دوران بحیرہ روم میں مہاجرین کی کشتیون کو تین مخلتف حادثات پیش آئے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق ان حادثات کے نتیجے میں کم ازکم سات سو افراد ہلاک جبکہ سینکڑوں لاپتہ ہو گئے ہیں۔
تصویر: Reuters/H. Amara
بحران شدید ہوتا ہوا
موسم سرما کے ختم ہونے کے بعد شمالی افریقی ملک لیبیا سے یورپی ملک اٹلی پہنچنے والے افراد کی تعداد میں تیزی دیکھی جا رہی ہے۔ اطالوی ساحلی محافظوں نے گزشتہ پیر سے اب تک کم ازکم چودہ ہزار ایسے افراد کو بچایا ہے، جو لیبیا سے یورپ پہنچنے کی کوشش میں بحیرہ روم میں بھٹک رہے تھے۔