’امدادی گروپوں کو نکالنے سے 11 ملین افراد متاثر ہوں گے‘
4 دسمبر 2018
پاکستان کی طرف سے 18 غیر ملکی امدادی گروپوں کو نکالنے سے ملک میں 11 ملین سے زائد افراد متاثر ہوں گے۔ یہ بات دو مغربی سفارت کاروں نے آج منگل کے روز بتائی ہے۔
اشتہار
پاکستانی حکومت نے 18 غیر ملکی امدادی ایجنسیوں کو ملک میں کام کرنے سے روک دیا ہے۔ دو غیر ملکی سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ان امدادی اداروں سے فائدہ حاصل کرنے والے قریب 11 ملین افراد اس فیصلے سے متاثر ہوں گے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق جن غیر ملکی این جی اوز کو پاکستان چھوڑنے کا حکم دیا گیا ہے ان میں ورلڈ وژن، پاتھ فائنڈر، پلان انٹرنیشنل، ٹروکیئر، اور سیف ورلڈ شامل ہیں جبکہ ایکشن ایڈ نامی ایک اور غیر ملکی غیر سرکاری تنظیم نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ وہ پاکستان میں اپنے دفاتر بند کر رہی ہے اور اپنے اسٹاف کو فارغ کر رہی ہے۔ اس تنظیم کو بھی پاکستانی حکومت نے ملک میں اپنا آپریشن ختم کر کے ملک چھوڑنے کا کہا تھا۔
روئٹرز کے مطابق پاکستانی وزارت داخلہ نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اس نے 18 غیر ملکی این جی اوز کی طرف سے دائر کی گئی اپیلوں کو خارج کر دیا ہے۔ ان این جی اوز کو اس بات کی اجازت دی گئی تھی کہ ان کی اپیلوں پر فیصلے تک وہ ملک میں کام جاری رکھ سکتی ہیں۔ تاہم پاکستانی وزارت داخلہ کی طرف سے اس بارے میں مزید کوئی تفصیل نہیں بتائی گئی۔
امدادی گروپوں اور غیر ملکی سفارت کاروں نے ان این جی اوز کو ملک سے نکالنے اور پھر ان کی اپیلوں پر فیصلوں کے عمل کو غیر شفاف قرار دیتے ہوئے اور ان پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس فیصلے سے انسانی بنیادوں پر کیے گئے اقدامات کو نقصان پہنچے گا۔
ایک مغربی سفارت کار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا، ’’یہ خوفناک ہونے کے ساتھ ساتھ ناقابل یقین بھی ہے کہ حکومت نے بظاہر کسی وجہ کے نہ ہوتے ہوئے بھی اپنے 11 ملین افراد کو اس مدد سے محروم کر دیا ہے جس کی انہیں اشد ضرورت ہے۔‘‘
روئٹرز کے مطابق پاکستانی وزارت داخلہ نے اس مغربی سفارت کار کے بیان پر کوئی رد عمل نہیں دیا۔ پاکستانی حکومت کی طرف سے کُل 27 غیر ملکی این جی اوز کو ملک چھوڑنے کے احکامات جاری کیے گئے تھے تاہم ان میں سے 18 نے اس کے خلاف اپیل کی تھی۔ ان تنظیموں میں سے زیادہ تر انسانی حقوق اور ایڈوکیسی ایشوز پر کام کرتی ہیں۔
ایک اور مغربی سفارت کار نے روئٹرز سے بات چیت میں کہا، ’’بین الاقوامی این جی اوز کو بند کرنے کے فیصلے پر عالمی برادری کو مایوسی ہوئی ہے۔‘‘
سائیکلوں نے دیا لڑکیوں کو ایک نیا اعتماد
پاکستان کے صوبے پنجاب کی تحصیل عارف والا میں جرمن حکومت کے تعاون سے ایک مقامی این جی او اسکول جانے والی طالبات کو بائیسکلز فراہم کر رہی ہے تاکہ وہ پابندی سے اسکول جا سکیں اور ان کی تعلیم میں خلل نہ پیدا ہو۔
تصویر: K. Farooq
لڑکیوں میں خود اعتمادی
اب عارف والا تحصیل کی لڑکیاں ہر روز سائیکل پر اسکول آتی جاتی ہیں۔ سائیکل نے نہ صرف ان کو اعتماد دیا ہے بلکہ گاؤں کی گلیوں، کھیتوں اور سٹرکوں پر سائیکل چلا کر اسکول پہنچنے والی ان بچیوں میں آگے بڑھنے کی امید بھی پیدا کر دی ہے۔
تصویر: Khalid Farooq
لڑکیوں کے والدین بھی خوش
اسکول کی پرنسپل نسیم اشرف کا کہنا ہے کہ اس اسکول میں آس پاس کے دیہات کی بچیاں آتی ہیں، بہت سی لڑکیاں گرمی میں لمبی مسافت پیدل طے کر کے اسکول پہنچتی ہیں۔ سائیکل ملنے کے بعد اب بہت سی لڑکیاں چھٹیاں کم کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ مجھے ڈر تھا کہ والدین اپنی بچیوں کو سائیکل نہیں چلانے دیں گے لیکن جب اسکول کی نہایت غریب گھرانوں سے تعلق رکھنے والی بچیوں کو سائیکلیں دی گئیں تو والدین بہت خوش ہوئے۔
تصویر: Khalid Farooq
لڑکیاں تو اب موٹر سائیکل بھی چلاتی ہیں
سائیکل ملنے والی ایک بچی رابعہ کے والد جمال دین کہتے ہیں، ’’میری بیٹی سائیکل ملنے سے پہلے رکشے میں اسکول جاتی تھی، اب میری بچت ہو رہی ہے اور میری بیٹی خوشی سے سائیکل پر اسکول جاتی ہے۔‘‘ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا گاؤں میں کچھ افراد اعتراض تو نہیں کرتے کہ لڑکی اکیلے سائیکل چلا کر اسکول جاتی ہے تو جمال دین نے کہا کہ اب تو لڑکیاں موٹر سائیکل چلاتی ہیں، اگر میری بیٹی سائیکل چلائے تو اس میں کیا عیب ہے۔
تصویر: Khalid Farooq
210 لڑکیوں میں سائیکلیں تقسیم
عارف والا میں ’اَرج ڈیویلپمنٹ اینڈ ایجوکیشن فاؤنڈیشن‘ کے نمائندے خالد فاروق نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ تحصیل عارف والا میں کل 210 سائیکلیں بچیوں کو تقسیم کی گئی ہیں۔ سائیکل دینے سے پہلے والدین کو اعتماد میں لیا جاتا ہے اور ان کی مرضی ہو تو ہی لڑکیوں کو سائیکلیں دی جاتی ہیں۔
تصویر: Khalid Farooq
مسجد کے امام کی بیٹی بھی سائیکل پر
اس حوالے سے ڈی ڈبلیو نے مقامی مسجد کے امام قاری محمد افضل سے بھی ان کا موقف جانا۔ ان کا کہنا تھا، ’’ایک لڑکی نہایت گرمی میں روز پیدل چل کر اسکول پہنچتی ہے۔ اگر وہ سائیکل چلا کر اسکول پہنچے تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔‘‘ قاری صاحب نے علاقے میں ایک عمدہ مثال ایسے قائم کی ہے کہ ان کی اپنی بیٹی بھی اب سائیکل پر ہی اسکول جاتی ہے۔
تصویر: K. Farooq
روشن مستقبل کی سیٹرھی
ایک بچی کے والد کا کہنا ہے کہ۔’’مجھے احساس ہو گیا ہے کہ غربت سے نکلنے کے لیے مجھے اپنی بیٹی کو پڑھانا ہو گا تاکہ اس کا مستقبل روشن ہو، وہ ہم سے بہتر زندگی گزار سکے۔ وہ کہتے ہیں، ’’میری بیٹی کو دی جانے والی سائیکل صرف آمدورفت کا ذریعہ نہیں ہے، یہ اسے ایک روشن مستقبل کی طرف لے جانے کی سیٹرھی ہے۔‘‘