امداد بھی ، مطالبات بھی
21 اکتوبر 2009امریکہ میں افغان جنگ کو صدر باراک اوباما کی جنگ کہا جاتا ہے۔ انہوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران بار بار اس جنگ کا ذکر کیا۔ ان کے اقتدار میں آتے ہی افغان جنگ مرکزی حیثیت اختیار کر گئی۔ اس حوالے سے سامنے آنے والی پہلی پالیسی میں افغانستان اور پاکستان کو ایک اکائی کے طور پر دیکھا گیا تھا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ امریکہ افغانستان کے بارے میں ایک اور پالیسی کی تیاری میں لگا ہوا ہے اور ساتھ ہی واشنگٹن حکومت کی کوشش ہے کہ پاکستان سے تعلقات بھی خراب نہ ہوں۔
امریکی صدر باراک اوباما نے پاکستان اور افغانستان کے حوالے سے اپنی نئی پالیسی بیان کرتے وقت واضح الفاظ میں اسلام آباد حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھاکہ پاکستان کو اپنی سر زمین سے القائدہ اور طالبان کو ختم کرنے کی اپنی ذمہ داری نبھانا ہو گی۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ القائدہ کے خلاف جنگ میں کامیابی امریکی حکومت کا اہم ترین ہدف ہے، جو پاکستان اور افغانستان کے تعاون کے ساتھ ہی حاصل کیا جاسکتا ہے۔
اس وجہ سے امریکہ اپنے با اعتبار حلیف کے علاقوں میں اکثر حملے کرتے رہتا ہے۔ دوسری جانب 200 ملین ڈالر کی عسکری امداد بھی پاکستان کو دی جانی ہے، جس میں سے کچھ حصہ وہاں پہنچ بھی چکا ہے۔ پاکستانی فوج نے کئی دوسری چیزوں سمیت جاسوسی آلات کا مطالبہ کیا ہے۔ اس دوران آرمی اپنے لڑاکا ہیلی کاپٹر ز کو جدید تر بنا چکی ہے اور ان کی تعداد میں بھی اضافہ کیا جا چکا ہے۔ اس وقت یہ ہیلی کاپٹرز جنوبی وزیرستان میں کارروائیوں میں مصروف ہیں۔ امریکہ کو یہ بتانے کے لئے کہ پاکستان دہشت گردی کے خاتمے کے سلسلے میں سنجیدہ ہے، یہ کارروائی ہفتوں سے لے کر مہینوں تک جاری رہ سکتی ہے۔ اسلام آباد حکومت کی حالیہ کوششوں کو امریکی داد بھی مل چکی ہے۔
پاکستان اور افغانستان کے لئے خصوصی امریکی مندوب رچرڈ ہالبروک کے مشیر ولی نصر نے ’سینٹر آف امریکن پروگریس ‘ کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگرکوئی اہم ترین ہدف ہے تو وہ یہ کہ مقامی سطح پر ایک فریم ورک بنایا جائے، جس میں امریکہ، پاکستان اور افغانستان کے مشترکہ مفادات کا خیال رکھا گیا ہو۔
امریکہ عسکری امداد کے ساتھ ساتھ دیگر معاملات میں بھی پاکستان کی امداد کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ باراک اوباما نے کیری لُوگر بل پر بھی دستخط کر دئے ہیں، جس کے تحت پاکستان کو سات اعشاریہ پانچ ارب ڈالر کی امداد دی جائے گی۔ ایک اہم پہلو یہ ہے کہ اس بل کے پاس ہونے سے پہلے پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی یہ یقین دہانی حاصل کرنے کے لئے فوری طور پر واشنگٹن پہنچےکہ واشنگٹن پاکستان کے حکومتی معاملات میں دخل انداز ہونے کی کوشش نہیں کرے گا۔ کیری لُوگر بل کے مطابق امریکی وزیر خارجہ کو ہر چھ ماہ میں کانگریس کو یہ رپورٹ دینا ہو گی کہ پاکستانی فوج اسلام آباد حکومت کے زیر نگرانی کام کر رہی ہے۔
ان تمام کوششوں کے باوجود بھی پاکستان کے حالات وقت کے ساتھ ساتھ بگڑتے جا رہے ہیں۔ خود کش حملوں کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے اور عوام میں امریکہ مخالف جذبات بڑھ گئے ہیں۔ القائدہ کی ہائی کمان پاکستان میں موجود ہونے کی خبروں کے وجہ سے امریکہ کو افغان حکمت عملی میں پاکستان کو بھی شامل کرنا پڑتا ہے۔ نیو یارک ٹائمز نے امریکی نائب صدر جوبائیڈن کا موقف بیان کیا ہے، جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ امریکہ کو اصل خطرہ پاکستانی سرزمین سے ہے۔