امداد کی بندش: ٹرمپ کا فیصلہ سستی بلیک میلنگ، فلسطینی رہنما
25 اگست 2018
تنظیم آزادی فلسطین کی ایک اعلیٰ رہنما کے مطابق فلسطینیوں کی امداد کی بندش کا امریکی صدر ٹرمپ کا فیصلہ ’سستی بلیک میلنگ‘ ہے، جسے وہ غیر قانونی قبضے میں اسرائیل کی مدد کرتے ہوئے سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔
اشتہار
تل ابیب سے ہفتہ پچیس اگست کو موصولہ نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق تنظیم آزادی فلسطین (پی ایل او) کی اعلیٰ رہنما حنان اشراوی نے یہ بات امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے فلسطینیوں کے لیے 200 ملین ڈالر کی امداد بند کر دینے کے تازہ ترین فیصلے کے ردعمل میں کہی۔
جمعہ چوبیس اگست کو رات گئے جاری کردہ اپنے ایک بیان میں حنان اشراوی نے کہا، ’’امریکی انتظامیہ پہلے بھی اپنی سوچ میں کم ظرفی اور اسرائیل کے فلسیطینی علاقوں پر غیر قانونی قبضے کے سلسلے میں اسرائیل کی حمایت کا اظہار کر چکی ہے۔‘‘
حنان اشراوی نے مزید کہا، ’’اب اخلاقی کم ظرفی کے مظہر اپنے اس نئے اقتصادی اقدام کے ساتھ امریکی انتظامیہ اسرائیلی قبضے کے فلسطینی متاثرین کو سزا دے رہی ہے۔‘‘ انہوں نے زور دے کر کہا کہ واشنگٹن کے اس تازہ اقدام سے فلسطینی اپنے حوصلے نہیں ہاریں گے۔
اسرائیل کے خلاف غزہ کے فلسطینیوں کے احتجاج میں شدت
اس علاقے میں تنازعے کی تاریخ صدیوں پرانی ہے۔ رواں برس کے دوران غزہ کی سرحد پر اسرائیل اور فلسطینی عوام کے درمیان کشیدگی انتہائی شدید ہو گئی ہے۔
تصویر: Reuters/A. Cohen
فروری سن 2018: سرحد پر بم
رواں برس سترہ فروری کو اسرائیل کی سرحد پر ایک بارودی ڈیوائس کے پھٹنے سے چار اسرائیلی فوجی زخمی ہو گئے تھے۔ اس کے جواب میں اسرائیل نے غزہ کے مختلف مقامات پر فضائی حملے کیے۔
تصویر: Reuters/I. Abu Mustafa
اقوام متحدہ کی امدادی سپلائی
غزہ پٹی کی نصف سے زائد آبادی کا انحصار اقوام متحدہ کے خصوصی امدادی ادارے UNRWA کی جانب سے ضروریات زندگی کے سامان کی فراہمی اور امداد پر ہے۔ اس ادارے نے پچیس فروری کو عالمی برادری کو متنبہ کیا کہ غزہ میں قحط کی صورت حال پیدا ہونے کا امکان ہے۔ امریکا نے فلسطینی لیڈروں کے اسرائیل سے مذاکرات شروع کرنے کے لیے دباؤ بڑھانے کی خاطر امداد کو روک رکھا ہے۔ ادارے کے مطابق وہ جولائی تک امداد فراہم کر سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Zuma/S. Jarar'Ah
فلسطینی وزیراعظم پر حملہ
فلسطینی علاقے ویسٹ بینک کے الفتح سے تعلق رکھنے والے وزیراعظم رامی حمداللہ جب تیرہ مارچ کو غزہ پہنچے، تو ان کے قافلے کو ایک بم سے نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی۔ فلسطینی اتھارٹی نے اس کی ذمہ داری حماس پر عائد کرتے ہوئے کہا کہ وہ وزیراعظم کو مناسب سکیورٹی فراہم کرنے میں ناکام رہی تھی۔ رامی حمداللہ اس حملے میں محفوظ رہے تھے۔
تصویر: Reuters/I. Abu Mustafa
اسرائیل کی فضائی حملے
غزہ پٹی کی اسرائیلی سرحد پر ایک اور بارودی ڈیوائس ضرور پھٹی لیکن کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ اسرائیل نے اٹھارہ مارچ کو غزہ پٹی پر فضائی حملے کیے اور حماس کی تیار کردہ ایک سرنگ کو تباہ کر دیا۔
تصویر: Reuters/I. A. Mustafa
سرحد پر مظاہرے کرنے کا اعلان
غزہ پٹی کے فلسطینیوں نے اسرائیلی سرحد پر پرامن مظاہرے کرنے کا اعلان کیا۔ اس مظاہرے کا مقصد اسرائیل کے زیر قبضہ فلسطینی علاقوں میں واپسی بتائی گئی۔ اسرائیل نے فلسطینیوں کے واپسی کے حق کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔
تیس مارچ سن 2018 کو تیس ہزار فلسطینی سن 1976 کے احتجاجی سلسلے کے تحت اسرائیلی سرحد کے قریب مظاہرے کے لیے پہنچے۔ بعض مظاہرین نے سرحد عبور کرنے کی کوشش کی اور یہ کوشش خاصی جان لیوا رہی۔ کم از کم سولہ فلسطینی مظاہرین اسرائیلی فوجیوں کی فائرنگ سے جاں بحق ہو گئے۔ کئی زخمی بعد میں جانبر نہیں ہو سکے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
سرحد پر مظاہرے کا دوسرا راؤنڈ
چھ اپریل کو ایک مرتبہ پھر فلسطینیوں نے اسرائیلی سرحد پر احتجاج کیا۔ اس احتجاج کے دوران بھی اسرائیلی فوجیوں نے فائرنگ کی۔ ایک صحافی کے علاوہ نو فلسطینی ہلاک ہوئے۔
تصویر: Reuters/I. A. Mustafa
انہیں نقصان اٹھانا پڑے گا، نیتن یاہو
اسرائیل کے وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے غزہ کے قریب اسرائیلی قصبے سدورت میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اُن کی پالیسی واضح ہے کہ جو کوئی حملے کی نیت سے آگے بڑھے، اُس پر جوابی وار کیا جائے گا۔ نیتن یاہو نے مزید کہا کہ غزہ سرحد عبور کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور ایسا کرنے والوں کو نقصان اٹھانا پڑے گا۔
تصویر: Getty Images/AFP/G. Tibbon
اسرائیل کے خلاف مظاہروں کا تیسرا دور
مظاہروں کے تیسرے دور یعنی 13 اپریل کا آغاز منتظمین کے اس اعلان سے شروع ہوا کہ مظاہرین سرحد کے قریب احتجاج کے مقام پر رکھے اسرائیلی پرچم کے اپنے قدموں تلے روندتے ہوئے گزریں۔
تصویر: Reuters/M. Salem
مظاہرین زخمی
13 اپریل کے مظاہرے کے دوران زخمی ہونے والے ایک شخص کو اٹھانے کے لیے فلسطینی دوڑ رہے ہیں۔ سرحدی محافظوں پر پتھر پھینکنے کے رد عمل میں اسرائیلی فوجیوں نے مظاہرین پر فائرنگ کی۔ 30 مارچ سے اب تک کم از کم 33 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ سینکڑوں دیگر زخمی ہوئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
10 تصاویر1 | 10
اشراوی کے اس بیان کا پس منظر امریکا میں محکمہ خارجہ کے ایک اعلیٰ اہلکار کی طرف سے کل جمعے کے روز کیا جانے والا یہ بیان بنا کہ واشنگٹن نے مغربی کنارے اور غزہ پٹی میں فلسطینیوں کی امداد کے لیے جو 200 ملین ڈالر کی رقوم مختص کی تھیں، وہ اب ’دیگر مقاصد‘ کے لیے استعمال کی جائیں گی۔
ساتھ ہی امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے اس اہلکار نے یہ بھی کہا تھا، ’’ٹرمپ انتظامیہ کی خواہش ہے کہ یہ رقوم اس طرح استعمال کی جائیں کہ امریکی ٹیکس دہندگان کی طرف سے ادا کردہ یہ مالی وسائل امریکا کے قومی مفادات کے منافی استعمال نہ ہو سکیں۔‘‘
’غزہ سے نکل نہيں سکتے ليکن تصاوير ہمارا پيغام عام کريں گی‘
غزہ پٹی ميں دو نوجوان لڑکياں ’انسٹاگرام‘ کی مدد سے دنيا کو اپنے علاقے کا ايک ايسا رخ دکھانے کی کوششوں ميں ہيں، جو اس علاقے کے حوالے سے پائے جانے والے عام تاثرات کے بالکل مختلف ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
تصاوير بولتی ہيں
چھبيس سالہ خولود نصر کہتی ہيں، ’’ميں انسٹاگرام کو ايک کھڑکی کے طور پر ديکھتی ہوں۔‘‘ گلابی رنگ کا حجاب پہنے ہوئے يہ باہمت نوجوان لڑکی، اپنے علاقے کا ايک مختلف پہلو اجاگر کرنا چاہتی ہے۔ اس مقصد کے ليے نصر نے سوشل ميڈيا کا سہارا ليا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
’دنيا ميری دسترس ميں‘
نصر کی اکيس سالہ ساتھی فاطمہ مسابہ بھی کچھ ايسے ہی خيالات رکھتی ہيں۔ مسابہ کے مطابق انٹرنيٹ کھولتے ہی پوری کی پوری دنيا کے لوگ ان کی دسترس ميں ہوتے ہيں۔ مجموعی طور پر ان دونوں لڑکيوں کے ’اسٹاگرام‘ پر قريب ايک لاکھ فالوئرز ہيں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
بندشوں کا شکار غزہ
غزہ پٹی ميں لگ بھگ دو ملين لوگ آباد ہيں۔ يہ علاقہ شمال اور مشرق کی جانب اسرائيل کے ساتھ لگتا ہے، جنوب ميں مصر کے ساتھ اور مغرب ميں بحيرہ روم پڑتا ہے۔ غزہ کے شہريوں کو بلا اجازت اپنا علاقہ چھوڑنے کی اجازت نہيں۔ يہی وجہ ہے کہ نصر اور مسابہ قريب ايک دہائی سے غزہ سے باہر نہيں نکليں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
’غزہ ميں صرف جنگ نہيں، اور بھی کچھ ہے‘
خولود نصر کا کہنا ہے، ’’جنگ غزہ کا حصہ ضرور ہے، ليکن يہاں صرف جنگ ہی نہيں۔ ميں يہ دکھانا چاہتی ہوں کہ دنيا کے کسی بھی اور ملک کی طرح يہاں اور بھی بہت کچھ ہے۔‘‘ اس کے بقول اب امريکا ہی کی مثال لے ليں، وہاں غربت بھی ہے اور دلکش مناظر بھی۔ وہ کہتی ہيں کہ انسٹاگرام پر تصاوير کے ذريعے وہ لوگوں کو دکھانا چاہتی ہيں کہ مقامی لوگ کس طرح اپنی زندگياں گزارتے ہيں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
سوشل ميڈيا کا مثبت کردار
فلسطينی سوشل ميڈيا کلب کے سربراہ علی بخت کے مطابق غزہ ميں رہائش پذير تقريباً نصف لوگ فيس بک پر موجود ہيں ليکن اس کے مقابلے ميں ٹوئٹر اور انسٹا گرام پر سرگرم لوگوں کی تعداد کم ہے۔ ان کے بقول سالہا سال سے اسرائيلی بندشوں کی وجہ سے غزہ کے شہری اپنی آواز سنانے اور اظہار خيال کے ليے سوشل ميڈيا کو بروئے کار لاتے ہيں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
’غزہ کا تاثر بدلنا ہے‘
فاطمہ مسابہ کا کہنا ہے کہ وہ غزہ کی ساکھ بدلنا چاہتی ہيں۔ انہوں نے کہا، ’’ميرے نزديک سب سے اہم يہ ہے کہ بندشوں، جنگ اور تباہی کے علاوہ ہم يہاں کی خوبصورتی کو بھی دکھائيں۔‘‘ مسابہ اور نصر کی زيادہ تر تصاوير ميں وہ خود بھی دکھائی ديتی ہيں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
آمدنی بھی، سروس بھی
مسابہ کے ليے ان کا انسٹاگرام آمدنی کا ذريعہ بھی ہے۔ وہ ماہانہ بنيادوں پر ڈھائی سو يورو کے قريب کما ليتی ہيں۔ ان کے پيج پر اشتہارات سے انہيں يہ رقم ملتی ہے۔ ايک ايسے خطے ميں جہاں نوجوانوں ميں بے روزگاری کی شرح ساٹھ فيصد سے بھی زيادہ ہے، وہاں مسابہ نے اپنی جگہ بنا لی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
7 تصاویر1 | 7
ڈی پی اے نے لکھا ہے کہ واشنگٹن میں اعلیٰ حکام نے صدر ٹرمپ کے اس نئے فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے یہ الزام بھی لگایا کہ غزہ پٹی کے فلسطینی علاقے میں اس وقت انسانی سطح پر جو تکلیف دہ اور بحرانی صورت حال پائی جاتی ہے، اس کی ذمے داری عسکریت پسند فلسطینی تنظیم حماس پر عائد ہوتی ہے۔
غزہ پٹی کے فلسطینی علاقے میں عوام کو گزشتہ کافی عرصے سے شدید مصائب اور تکالیف کا سامنا ہے اور وہاں حکمران حماس کے خلاف اقدامات کرتے ہوئے اسرائیل اور مصر دونوں نے ہی غزہ پٹی کے خلاف پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔
اس تنازعے میں امریکی صدر ٹرمپ واضح طور پر اسرائیلی موقف کے حامی ہیں اور اسی سال انہوں نے اسرائیل میں امریکی سفارت خانہ بھی تل ابیب سے یروشلم منتقل کر دیا تھا، جس پر فلسطینی شدید ناراض ہوئے تھے۔
فلسطینیوں کی ناراضگی کی وجہ یہ ہے کہ یروشلم شہر کا مشرقی حصہ ایک مقبوضہ علاقہ ہے اور فلسطینی اسے اپنی مستقبل کی خود مختار ریاست کا دارالحکومت بنانا چاہتے ہیں۔
امریکا کی طرف سے اسرائیل میں اپنا سفارت خانہ یروشلم منتقل کرنے پر بین الاقوامی سطح پر بھی تنقید کی گئی تھی۔ امریکی سفارت خانے کی تل ابیب سے یروشلم منتقلی کے بعد سے فلسطینیوں نے امریکا کے ساتھ اپنے جملہ سرکاری رابطے منقطع کر رکھے ہیں۔
م م / ا ا / ڈی پی اے
2014ء: مشرق وسطیٰ کے لیے ناقابل فراموش سال
شام کی خانہ جنگی، اسلامک اسٹیٹ کا پھیلاؤ اور غزہ جنگ۔ رواں برس مشرق وسطیٰ میں پیش آنے والے واقعات نے پوری دنیا کے میڈیا کی توجہ حاصل کی اور مسلسل شہ سرخیوں کا سبب بنے رہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Mohammed Zaatari
آئی ایس کی پیش قدمی
انتہا پسند تنظیم آئی ایس 2013ء ہی میں شام کے شہر رقعہ میں اپنے قدم جما چکی تھی۔ جنوری میں یہ تنظیم عراقی شہر فلوجہ پر کنٹرول حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ اب یہ تنظیم عراقی صوبہ انبار تک پہنچ چکی ہے اور بغداد پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔
تصویر: Reuters
ایران کا جوہری تنازعہ
ایران میں یورینیم کی افزودگی کے بعد جنوری میں امریکا اور یورپی یونین نے تہران حکومت کے خلاف عائد پابندیوں میں نرمی کا اعلان کیا تھا۔ کئی معاملات پر اتفاق کے باوجود مغربی ممالک اور ایران نتیجہ خیز مذاکرات کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ یہ مذاکرات آئندہ برس بھی جاری رہیں گے۔
تصویر: Kazem Ghane/AFP/Getty Images
مصر میں بڑے پیمانے پر سزائیں
رواں برس مصری عدلیہ نے ملک کی سیاسی اور مذہبی جماعت اخوان المسلمون کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کرنے کا فیصلہ سنایا۔ اس کے فوراﹰ بعد اخوان المسلمون کے 529 کارکنوں کو سزائے موت سنا دی گئی۔ اسی طرح اپریل میں ایک اور عدالتی فیصلے کے تحت مزید 683 افراد کو موت کی سزا سنائی گئی۔ بعدازاں ان میں سے زیادہ تر کی سزائیں عمر قید میں تبدیل کر دی گئیں۔
تصویر: Ahmed Gamil/AFP/Getty Images
عراق میں اقتدار کی تبدیلی
عراق سے امریکی افواج کے انخلاء کے بعد پہلی مرتبہ اپریل میں پارلیمانی انتخابات کا انعقاد ہوا۔ اگست میں نوری المالکی کی جگہ انہی کی جماعت کے حیدر العبادی نے سنبھالی۔ المالکی کی حکومت میں ملک کے سُنیوں اور شیعیوں کے مابین اختلافات عروج پر پہنچ گئے تھے۔
تصویر: Reuters/Hadi Mizban
شام کی خانہ جنگی
امن کے لیے مسلسل دو برس کوششیں کرنے کے بعد اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی لخضر براہیمی نے مئی میں اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ اس کے فوراﹰ بعد صدر بشار الاسد نے صدارتی انتخابات کا اعلان کیا اور انہیں تقریباﹰ 89 فیصد ووٹ ملنے کی تصدیق کی گئی۔ تاہم ووٹ صرف انہی علاقوں میں ڈالے گئے، جو حکومتی فوجیوں کے زیر کنٹرول تھے۔
تصویر: Reuters
مصر میں فوج کی واپسی
سابق آرمی چیف عبد الفتاح السیسی نے صدارتی انتخابات بڑی اکثریت کے ساتھ جیتنے کا دعویٰ کیا۔ ان کے واحد حریف امیدوار حمدین صباحی کو صرف تین فیصد ووٹ حاصل ہوئے۔ جون میں السیسی نے اپنے عہدے کا حلف اٹھایا۔ مصر کے پہلے جمہوری اور معزول صدر محمد مرسی ابھی تک جیل میں قید ہیں۔
تصویر: Reuters
الفتح اور حماس کا اتحاد
سن 2007ء میں الفتح اور حماس کے مابین علیحدگی کے بعد پہلی مرتبہ دونوں جماعتوں نے متحدہ حکومت کے قیام پر اتفاق کیا۔ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے اسے شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ اسرائیل نے صدر محمود عباس پر امن مذاکرات کی بجائے حماس سے شراکت داری کو ترجیح دینے کا الزام عائد کیا۔
تصویر: DW/K. Shuttleworth
جنگ کے 50 دن
اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان صورت حال کشیدہ رہی۔ آٹھ جولائی کو اسرائیل نے غزہ پر حملوں کا نیا سلسلہ شروع کیا۔ اسرائیل نے اس کا مقصد حماس کی طرف سے راکٹ فائر ہونے کے سلسلے کا خاتمہ کرنا بتایا۔ اس پچاس دن کی جنگ میں 2100 سے زائد فلسطینی ہلاک جبکہ تقریبا 70 اسرائیلی مارے گئے۔ غزہ میں کئی منزلہ تقریبا 20 ہزار رہائشی گھر تباہ کر دیے گئے۔
تصویر: Reuters
لیبیا دلدل میں
رواں برس لیبیا میں حریف گروپوں کی لڑائی نے ایک مرتبہ پھر لیبیا کو مفلوج کر کے رکھ دیا۔ طرابلس کے مد مقابل تبروک شہر میں ایک نئی پارلیمان کا وجود سامنے آیا۔ تب سے دونوں پارلیمانوں میں سیاسی خود مختاری کی جنگ جاری ہے۔ تاہم طرابلس کی پرانی پارلیمان نے دوبارہ کام شروع کر دیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
تیونس میں اقتدار
تیونس میں ہونے والے پارلیمانی انتخابت میں سیکولر قوتیں مذہبی جماعتوں کو شکست دینے میں کامیاب رہی۔ سیکولر جماعتوں کے اتحاد نے 217 میں سے 85 سیٹیں حاصل کیں جبکہ مذہبی جماعت النہدہ کو 69 نشستیں ملیں۔ سیکولر اتحاد نے ان انتخابات میں کامیابی کا دعویٰ کر رکھا ہے۔
تصویر: Reuters/Zoubeir Souissi
اپنی بقاء کی جنگ
موت اور تباہی کے خوف سے نقل مکانی کرنے والے شامی مہاجرین اپنی زندگی کی بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ اب یہ مہاجرین موسم سرما ایسے ایک نئے امتحان کے سامنے کھڑے ہیں۔ شام کے تیس لاکھ مہاجرین کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔