1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امراض قلب ہسپتال واقعہ، حکومت کا سخت کارروائی کا اعلان

11 دسمبر 2019

پاکستانی صوبہ پنجاب میں امراضِ قلب کے سب سے بڑے ہسپتال پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی (پی آئی سی) پر احتجاجی وکلا کے حملے کے نتیجے میں تین مریض ہلاک ہو گئے۔

Pakistan Lahore | Anwälte protestieren
تصویر: DW/T. Shahzad

کارڈیالوجی ہسپتال پر حملے کے بعد لاہور میں صورتِ حال ابھی تک کشیدہ ہے اور امن و امان برقرار رکھنے کے لیے شہر میں رینجرز کو طلب کر لیا گیا ہے۔ پی آئی سی کے باہر اور شہر کے اہم مقامات پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مسلح اہل کار تعینات کر دیے گئے ہیں۔

پنجاب حکومت نے پی آئی سی کے واقعےکی اعلیٰ سطحی تحقیات کا آغاز کر دیا ہے اور حملے کے ذمہ دار وکلا کی نشاندہی کے لیے سی سی ٹی وی فوٹیج سے مدد لی جا رہی ہے جبکہ  فرانزک ماہرین جائے وقوعہ سے شواہد اکٹھے کر رہے ہیں۔  

اس حملے میں ملوث تین درجن سے زائد وکلا کو اب تک گرفتار کیا جا چکا ہے۔ مزید وکلا کی گرفتاری کے لیے شہر کے مختلف علاقوں میں چھاپے مارے جا رہے ہیں۔

آج بدھ 11 دسمبر کو تین سو سے زائد وکلا ایک ریلی کی شکل  میں ڈاکٹروں کے خلاف نعرے لگاتے ہوئے شادمان کے راستے جیل روڈ پہنچے جہاں انہوں نے پی آئی سی کا مرکزی دروازہ توڑا، ہوائی فائرنگ کی، طبی عملے اور مریضوں کے لواحقین پر ڈنڈنے برسائے، ہسپتال میں توڑ پھوڑ کی اور پولیس پر پتھراو کیا ۔ احتجاجی وکلا نے اس موقعے پر پولیس کی ایک وین کو بھی آگ لگا دی۔

اس صورتِ حال میں پولیس پہلے تو خاموش تماشائی بنی رہی مگر بعد ازاں انہوں نے آنسو گیس کے ذریعے وکلا کو منتشر کیا۔تصویر: picture-alliance/AP Photo/K.M. Chaudary

اس صورتِ حال میں پولیس پہلے تو خاموش تماشائی بنی رہی مگر بعد ازاں انہوں نے آنسو گیس کے ذریعے وکلا کو منتشر کیا۔ پی آئی سی میں بھگدڑ مچ جانے کی وجہ سے طبی عملہ اپنا کام جاری نہ رکھ سکا اور ان حالات میں آپریشن تھیئٹر میں بھی کام متاثر ہوا۔ اسی دوران طبی امداد نہ ملنے کی وجہ سے تین مریض انتقال کر گئے۔ صورتحال زیادہ خراب ہونے پر مریضوں  کے لواحقین نے اپنے اپنے مریضوں کو ہنگامی طور پر اپنی مدد آپ کے تحت دوسرے ہسپتالوں میں منتقل کیا۔

اس واقعے کی کوریج کرنے والے صحافیوں کو بھی احتجاجی وکلا کی طرف سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ جائے موقع پر پہنچنے والے صوبائی وزیرِ اطلاعات فیاض الحسن چوہان کو دھکے مارے گئے، ان کے بال نوچے گئے اور انہیں غلیظ گالیاں دی گئیں۔

مسئلہ شروع کہاں سے ہوا؟

وکلا اور ڈاکٹرز کا تنازعہ چند روز پہلے اس وقت شروع ہوا تھا جب پی آئی سی میں طبی عملے کے ساتھ ہونے والی تلخی کے بعد طبی عملے کی طرف سے ایک وکیل کو زدوکوب کیا گیا تھا۔ بعد ازاں صوبائی انتظامیہ کی کوششوں سے دونوں فریقوں میں صلح صفائی کرا دی گئی تھی لیکن وکیلوں کے خلاف وائرل ہونے والی ڈاکٹروں کی ایک ویڈیو نے معاملے کی سنگینی کو مزید بڑھا دیا۔

چیئرمین گرینڈ ہیلتھ الائنس ڈاکٹر سلمان حسیب نے اس واقعے کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے جمعرات سے تین روزہ یوم سیاہ منانے کا اعلان کیا ہے۔ ان کے بقول ڈاکٹر کل سے کالی پٹیاں باندھ کر ڈیوٹی کریں گے۔

جائے حادثہ پر موجود لوگوں نے اس واقعے کے بعد فرار ہونے والے وکلا کو پکڑ پکڑ کر پولیس کے حوالے کیا۔ اس موقع پر کالا کوٹ نذزِ آتش کر کے بھی احتجاج کرنے والوں نے اپنے غم و غصہ کا اظہار کیا۔ پنجاب حکومت نے سانحہ پی آئی سی کے دوران ہونے والے نقصان کا تخمینہ لگا کر اس نقصان کی تلافی کرنے کا اعلان کیا ہے۔ 

وکلا کی گرفتاریوں کے بعد احتجاجی وکلا شہرکے مختلف علاقوں میں پھیل گئے اور انہوں نے مال روڈ، لوئر مال اور کئی دیگر سڑکوں کو ٹریفک کے لیے بند کر دیا۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار اپنا اسلام آباد کا دورہ مختصر کر کے لاہور پہنچے اور کابینہ کی کمیٹی برائے امن و امان کے ہنگامی اجلاس میں شرکت کی۔

ذرائع کے مطابق اس اجلاس میں پولیس، ضلعی انتظامیہ اورمحکمہ صحت کے ذمہ داران اس واقعے کی ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈالتے رہے جب کہ وزیراعلیٰ نے سرکاری محکموں میں مناسب کوآرڈینیشن نہ ہونے کی وجہ سے برہمی کا اظہار کیا۔

یاد رہے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی پانچ سو سنتالیس بیڈز پر مشتمل پنجاب کا امراضِ قلب کا سب سے بڑا ہسپتال ہے۔ جہاں ہر سال تین لاکھ نوے ہزار مریضوں کا علاج کیا جاتا ہے۔

سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل چوہدری اعتزاز احسن نے اپنے ایک بیان میں پی آئی سی واقعے پر ردِ عمل دیتے ہوئے کہا کہ وکلا کی اس حرکت سے ان کا سر شرم سے جھک گیا ہے۔

دوسرے طرف پنجاب بار کونسل نے وکلا پر تشدد کرنے والے ڈاکٹروں اور وکلا پر شیلنگ کرنے والے پولیس اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کر کے انہیں گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ پنجاب بھر کی وکلا برادری احتجاجی وکلا کی حمایت میں کل جمعرات کے روز عدالتوں کا بائیکاٹ کریں گے اور احتجاجی ریلیاں نکالیں گے۔

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں