امريکا اور طالبان کی امن ڈيل کا ايک سال، اب تک حاصل کيا ہوا؟
28 فروری 2021
امريکا اور طالبان کی امن ڈيل کو ٹھیک ايک سال ہو گيا ہے مگر اس دوران افغانستان ميں پر تشدد واقعات ميں واضح اضافہ ہوا۔ طالبان نے تمام غير ملکی افواج کے انخلاء کا مطالبہ دوہرایا ہے اور بصورت ديگر خطرناک جنگ کی دھمکی دی ہے۔
اشتہار
افغان طالبان نے ملک سے تمام غير ملکی افواج کے طے شدہ ڈيل کے تحت مستقل انخلاء کا مطالبہ کيا ہے۔ طالبان نے امريکا کے ساتھ اپنے امن معاہدے پر دستخط انتيس فروری 2020ء کو کيے تھے۔ اس مناسبت سے افغان طالبان نے آج اتوار اٹھائيس فروری کو ايک بيان جاری کيا، جس ميں مطالبہ کيا گيا ہے کہ دوحہ معاہدے میں طے شدہ تاریخ یعنی اس سال يکم مئی تک تمام غير ملکی فوجیں افغانستان سے واپس چلی جائیں۔ طالبان نے اپنے مزيد ساتھیوں کی رہائی اور عسکریت پسندوں کے نام بليک لسٹ سے خارج کیے جانے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ ابھی تک اس بيان پر امريکا یا افغان حکومت کا کوئی رد عمل سامنے نہيں آيا۔
فوجی انخلاء کا وعدہ
قطر کے دارالحکومت دوحہ ميں طویل عرصے تک جاری رہے والے مذاکراتی عمل کے بعد گزشتہ برس فروری ميں اس ڈيل کو حتمی شکل دی گئی تھی۔ ڈيل کے تحت افغانستان ميں تعينات تمام غير ملکی دستوں کو يکم مئی تک افغان سرزمين کو چھوڑ دینا ہے جبکہ طالبان نے اپنی پر تشدد کارروائياں ترک کر دینے اور ديگر شدت پسند گروپوں کو پناہ گاہیں مہیا نا کرنے کا وعدہ کيا تھا۔ ساتھ ہی طالبان قيديوں کی رہائی بھی طے پا گئی تھی۔
چند سياسی مبصرين کی رائے میں سابق امريکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے سياسی وعدے کی تکميل کے ليے اپنے دور حکومت ہی ميں امريکا کی تاريخ کی طويل ترين جنگ کا خاتمہ اور افغانستان سے تمام امریکی فوجيوں کی وطن واپسی چاہتے تھے۔ اسی ليے انہوں نے افغانستان ميں فعال مغربی دفاعی اتحاد نيٹو کے رکن ديگر ممالک سے زيادہ مشاورت کے بغير ہی اس ڈيل کو حتمی شکل دی تھی اور اپنی حکومت کے آخری دنوں ميں مزيد امریکی فوجيوں کے انخلاء کا اعلان بھی کر ديا تھا۔ تاہم کئی يورپی ممالک کی سوچ یہ ہے کہ افغانستان سے غیر ملکی افواج کے بہت جلد انخلاء سے وہاں طالبان پھر زور پکڑ سکتے ہيں۔ يہی وجہ ہے کہ صدر جو بائيڈن کی قیادت ميں موجودہ امريکی انتظاميہ اس ڈيل کا از سر نو جائزہ لے رہی ہے۔
افغانستان میں طالبان کی قیادت میں زندگی کیسی ؟
03:50
طالبان کی دھمکی اور حملوں ميں اضافہ
نيٹو کے رکن ممالک ان دنوں افغانستان سے اپنی افواج کے انخلاء ميں تاخير پر غور کر رہے ہيں۔ اس تناظر ميں شدت پسند گروہ طالبان نے دھمکی دی ہے کہ اگر انخلاء کے شيڈول ميں ترمیم کی گئی تو يہ ممکنہ فيصلہ 'پہلے کبھی نا ديکھی جانے والی جنگ‘ کا سبب بن سکتا ہے۔
ڈيل کی شرائط کے تحت افغان حکومت اور طالبان کے مابين براہ راست مذاکرات کا سلسلہ گزشتہ برس ستمبر سے جاری ہے۔ مگر اس دوران افغانستان ميں طالبان کے حملوں ميں بھی خاطر خواہ اضافہ نوٹ کيا گيا ہے، جس پر بين الاقوامی برادری شديد تشويش کا شکار ہے اور دوحہ ڈيل کے مؤثر ہونے سے متعلق کئی سوال بھی اٹھنے لگے ہيں۔
’ہميں کہيں بھول نہ جانا‘
کورونا وائرس کے بحران کے باعث کئی عالمی مسائل و تنازعات آج کل عدم توجہ کا شکار ہيں۔ موسمياتی تبديلياں، کشمير ميں بندشيں، ليبيا ميں جنگ، شام ميں شورش اور افغانستان کی صورتحال سميت دنيا کو آج بھی کئی مسائل کا سامنا ہے۔
تصویر: DW/ P. Vishwanathan
موسمياتی تبديلياں
زمين کے درجہ حراست ميں اضافہ، بے لگام معاشی سرگرمياں، برف پگھلنے سے سطح سمندر ميں اضافہ، فضائی آلودگی، پلاسٹک کا بے دريغ استعمال، حياتياتی تنوع ميں کمی جيسے مسائل سے زمين کو خطرات لاحق ہيں۔ سائنسدان بارہا خبردار کر چکے ہيں کہ ان عوامل کو روکنے کے ليے وقت بہت محدود ہے۔ ايک مطالعے ميں يہ بات بھی سامنے آئی کہ انسانی سرگرمياں قدرتی ماحول کی تباہی کی ذمہ دار ہيں اور نئے نئے وائرسوں اور بيماريوں کی بھی۔
تصویر: picture-alliance/AP/Imaginechina
ڈگمگاتی ہوئی افغان امن ڈيل
افغانستان ميں اٹھارہ سالہ جنگ کے خاتمے کے ليے حال ہی ميں امريکا اور طالبان کے مابين ڈيل طے ہوئی۔ البتہ کبھی قيديوں کے تبادلے پر اختلاف، کبھی مختلف افغان دھڑوں ميں عدم اتفاق تو کبھی وقفے وقفے سے حملوں کے باعث اس ڈيل کا مستقبل اب بھی غير واضح دکھائی ديتا ہے۔ يہ امر اہم ہے کہ افغانستان ميں دو ہزار کے قريب ’اسلامک اسٹيٹ‘ کے جنگجو بھی سرگرم ہيں، جو امن و امان کی کسی بھی اميد کو توڑنے کے ليے سرگرم ہيں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Sayed
پاک بھارت کشيدگی اب بھی برقرار
پلوامہ حملے کے بعد سے پاکستان اور بھارت ميں کشيدگی رہی ہے۔ ان دنوں دونوں ترقی پذير ممالک کو وبا کا سامنا ہے البتہ سرحد پر صورتحال ميں اب بھی کوئی تبديلی نہيں ديکھی گئی۔ بھارتی فوج کا دعویٰ ہے کہ مارچ ميں پاکستان کی جانب سے لائن آف کنٹرول پار فائرنگ کے چار سو سے زائد واقعات ريکارڈ کيے گئے۔ پاکستان نے بھی سال رواں ميں بھارت پر سات سو سے زائد مرتبہ بلا اشتعال فائرنگ کا الزام عائد کيا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Naveed
بے يار و مددگار کشميری عوام
کشمير ميں گزشتہ برس اگست ميں کيے گئے متنازعہ بھارتی اقدامات کے بعد سے لاک ڈاؤن نافذ تھا جبکہ موجودہ وبا ميں اس پر عملدرآمد اور بھی سخت کر ديا گيا ہے۔ بندشوں کے سبب کشميری عوام کی اقتصادی کمر ويسے ہی ٹوٹی ہوئی تھی۔ کام کاج، کاروبار ہر چيز پچھلے قريب نو ماہ سے بند پڑی ہے۔ وبا سے کشميريوں کے مسائل ميں اور زيادہ اضافہ ہو رہا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Ali
ايران کی پہلے سے تباہ حال معيشت، مزيد گراوٹ کا شکار
سن 2015 ميں طے پانے والی جوہری ڈيل سے امريکا کی يک طرفہ عليحدگی اور پابنديوں کی بحالی کے سبب ايرانی معيشت کا پہلے ہی بيڑا غرق ہو چکا تھا کہ وبا نے اسے مزيد نقصان پہنچايا۔ ايران مشرق وسطیٰ ميں کورونا کی وبا سے سب سے زيادہ متاثرہ ملک ہے۔ سپريم ليڈر آيت اللہ علی خامنہ ای امريکی مدد ٹھکرا چکے ہيں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ اگر امريکا مدد کرنا ہی چاہتا ہے، تو پابندياں اٹھائے، جسے امريکی صدر مسترد کر چکے ہيں۔
تصویر: khabaronline
روہنگيا مہاجرين کا بحران، آج بھی حل طلب
بنگلہ ديشی حکام نے اپريل کے اوائل ميں کوکس بازار ميں مکمل لاک ڈاؤن نافذ کر ديا۔ اس ضلعے ميں لگ بھگ ايک ملين روہنگيا مہاجرين پناہ ليے ہوئے ہيں۔ روہنگيا مہاجرين ميانمار ميں فوج کے مبينہ تشدد سے فرار ہو کر بنگلہ ديش پہنچے تھے۔ اقوام متحدہ کئی رپورٹوں ميں ميانمار ميں کيے گئے اقدامات کا موازنہ ’نسل کشی‘ سے کر چکی ہے۔ اس معاملے پر عالمی فوجداری عدالت ميں کيس بھی جاری ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Qadri
يمنی جنگ کے متاثرين لاکھوں
اقوام متحدہ يمن کے بحران کو موجود وقت کا ’بد ترين انسانی الميہ‘ قرار دے چکی ہے۔ پانچ برس سے زائد عرصے سے جاری يمنی جنگ ميں ايک لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہيں جبکہ بے گھر ہونے والوں اور قحط کے خطرے سے دوچار افراد کی تعداد کئی ملين ميں ہے۔ سعودی عسکری اتحاد نے اپريل کے اوائل ميں دو ہفتوں کی جنگ بندی کا اعلان کيا تاہم يہ بدحالی کے خاتمے کے ليے ناکافی ہے۔
تصویر: picture alliance / Xinhua News Agency
شامی مسلح تنازعہ آج بھی جاری
شام ميں سن 2011 سے چلی آ رہی خانہ جنگی اب بھی ختم نہيں ہوئی ہے۔ ان دنوں صوبہ ادلب شامی و روسی جنگی طياروں کی بمباری کی زد ميں ہے۔ ابھی پچھلے ہی دنوں صدر بشار الاسد کی افواج پر ماضی میں ایک واقعے میں کيميائی ہتھياروں کے استعمال کا الزام بھی پھر سے لگايا گيا۔ اقوام متحدہ شامی جنگ کے تمام فريقين پر انسانی حقوق کی سنگين خلاف ورزيوں کا الزام عائد کر چکی ہے۔
تصویر: AFP/O. H. Kadour
يورپ کو درپيش مہاجرين کا بحران
سن 2015 ميں مشرق وسطیٰ و شمالی افريقہ سے ايک ملين سے زائد پناہ گزينوں کی يورپ آمد کے تناظر ميں شروع ہونے والا بحران ايک طرح سے آج بھی جاری ہے۔ لاکھوں مہاجرين ترکی، لبنان، اردن اور يورپ کے مختلف ملکوں ميں مہاجر کيمپوں ميں گزر بسر کر رہے ہيں۔ ان میں سب سے برا حال يونانی جزائر پر موجود کيمپوں کا ہے، جن ميں پہلے ہی سے گنجائش سے کہيں زيادہ مہاجرين آباد تھے۔ وبا سے ان افراد کو شديد خطرات لاحق ہيں۔