1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امريکا طالبان مذاکرات: صحافيوں کو کن مسائل کا سامنا ہے؟

31 اگست 2019

امريکی نمائندگان اور افغان طالبان کے مابين مذاکرات کی رپورٹنگ کے ليے دنيا بھر کے صحافی قطر کے دارالحکومت دوحہ ميں کسی بڑی خبر کے منتظر ہيں۔ ذرائع ابلاغ کے نمائندگان کے ليے ايسی صورتحال ميں رپورٹنگ اتنا آسان کام بھی نہيں۔

Doha  Intra Afghan Dialogue Afghanistan Konferenz
تصویر: Getty Images/AFP/K. Jaafar

قطر کے دارالحکومت دوحہ ميں امريکی نمائندگان و افغان طالبان کے مابين مذاکرات کا فيصلہ کن دور ان دنوں جاری ہے۔ ڈی ڈبليو کے رپورٹرز نے دوحہ سے رپورٹنگ کے حوالے اہم انکشافات کيے ہيں جن سے يہ پتہ چلتا ہے کہ غير ملکی رپورٹرز کو اپنی صحافتی ذمہ دارياں پوری کرنے ميں کن رکاوٹوں اور حالات کا سامنا ہے۔ ڈی ڈبليو کے تجربات پر مبنی معلومات کے مطابق گو کہ رپورٹرز کو دوحہ ميں ان مذاکرات کی رپورٹنگ کی اجازت ملی تاہم انہيں دوحہ سے براہ راست کچھ بھی نشر کرنے کی اجازت نہيں۔ وہ اسکائپ کے ذريعے پہلے سے ريکارڈ کردہ مواد اپنے نشرياتی ادارے کو بھيج سکتے ہيں، جسے نشر کيا جا سکتا ہے۔ اس کی ايک وجہ يہ بھی ہے کہ اس عمل ميں دستاويزی کارروائی کافی طويل ثابت ہوتی ہے۔

يہ امر اہم ہے کہ امريکا اور طالبان کے مابين مذاکرات کی کورج صحافتی اعتبار سے کافی پيچيدہ کام ہے۔ فريقين کے مابين اس وقت جاری بات چيت در اصل مذاکرات کا نواں دور ہے۔ ان امن مذاکرات کا مقصد افغانستان ميں اٹھارہ سال سے جاری جنگ کا خاتمہ اور قيام امن ہے۔ گو کہ کابل حکومت ان مذاکرات کا حصہ نہيں ليکن کسی ڈيل کے طے ہو جانے کی ممکنہ صورت ميں افغانستان ميں داخلی سطح پر اور متحارب قوتوں کے مابين بات چيت کا امکان موجود ہے۔

کيا افغان طالبان اور امريکا کے مابين ڈيل ہو سکتی ہے؟

فی الحال يہ واضح نہيں۔ دوحہ ميں موجود ڈی ڈبليو کے رپورٹرز کو البتہ يہ بتايا گيا ہے کہ ان دنوں فريقين کسی ممکنہ معاہدے کی تفصيلات طے کرنے کے عمل ميں مصروف ہيں۔ يہ تفصيلات مستقبل ميں کسی سياسی و قانونی الجھن سے بچنے کے ليے اہم ہيں۔ يعنی ڈيل کسی بھی وقت طے ہو سکتی ہے تاہم اس بارے ميں سرکاری طور پر اعلان شايد فی الحال نہ ہو سکے۔ يہ بھی ممکن ہے کہ مذاکرات کا يہ دور بے نتيجہ ختم ہو جائے۔

ايک طرف اس خليجی ملک ميں حالات، تو دوسری طرف مذاکرات جس مقام پر ہو رہے ہيں، وہ بھی غير ملکی صحافيوں کے ليے ايک مسئلہ ہے۔ مذاکرات کے مقام پر صحافيوں کو کسی کا بھی انٹرويو لينے کی اجازت نہيں۔ انہيں تصاوير لينے کی اجازت بھی نہيں۔ فريقين يعنی امريکی نمائندگان اور طالبان کی جانب سے رپورٹرز تک براہ راست اطلاعات و معلومات کے تبادلے کا کوئی راستہ نہيں۔ کہيں کہيں سے کچھ اشارے اور باتيں سننے کو ملتی ہيں۔ ايسی صورتحال صحافيوں کو غلط سمت ميں بھی لے جا سکتی ہے۔ يہی وجہ ہے کہ کبھی کبھار غلط خبريں بھی ذرائع ابلاغ پر نشر ہوئيں۔ مثال کے طور پر بات چيت کے نويں دور کے آغاز پر ہی چند افغان نشرياتی اداروں نے ايسی خبريں چلائی تھيں کہ ڈيل ہو چکی ہے، جن ميں کوئی حقيقت نہ تھی۔

چند غير ملکی رپورٹرز نے ڈی ڈبليو کو بتايا کہ مذاکرات کے آغاز پر تو انہيں اس عمارت ميں داخلے کی اجازت نہ تھی، جس ميں بات چيت جاری ہے۔ گو کہ يہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اس دور ميں چيزيں سابقہ ادوار کے مقابلے ميں زيادہ آسان ہيں۔ جيسے جيسے بات چيت کا دور آگے بڑھا، معاملات آسان ہوتے گئے۔ اب صحافيوں کو مخصوص کمروں ميں بيٹھ کر اپنے ليپ ٹاپس اور کام کرنے، کافی پينے اور کھانا وغيرہ کھانے کی اجازت ہے۔

اب يہ صحافيوں کے ليے امريکی و طالبان کے وفود کے ارکان سے بات چيت کی بھی اجازت ہے ليکن صرف وقفوں کے درميان اور اس وقت جب وہ مذاکراس سے باہر آتے ہيں۔ تاہم سکيورٹی اہلکار قوانين کے بارے ميں کافی سخت ہيں اور نمائندگان بھی زيادہ کچھ نہيں بتاتے۔

دريں اثناء يہ مذاکرات کافی طويل دورانيے کے ليے ہوتے ہيں۔ عموماً دوپہر کے وقت شروع ہو کر بات چيت آئندہ صبح تين يا چار بجے تک جاری رہتی ہے۔ اس کا مطلب يہ ہے کہ رپورٹرز کو بھی يوميہ پندرہ پندرہ سولہ سولہ گھنٹے چوکنا رہنا پڑتا ہے کہ کہيں کوئی خبر ان کے ہاتھ سے نکل نہ جائے۔

مذاکراتی عمل ميں امريکی فوجيوں کا افغانستان سے انخلاء، طالبان قيديوں کی رہائی، افغانستان ميں انسداد دہشت گردی کے ليے مستقبل کی حکمت عملی اہم ترين موضوعات ميں شامل ہيں۔

ع س / ع ب، (شامل شمس اور مسعود جاہش)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں