امريکا: گيارہ ملکوں کے مہاجرين کے داخلے پر عائد پابندی ختم
عاصم سلیم
30 جنوری 2018
امريکی حکام نے گيارہ ملکوں سے آنے والے مہاجرين پر عائد پابندی کے خاتمے کا اعلان کيا ہے تاہم ساتھ ہی نئے سکيورٹی اقدامات متعارف کرائے گئے ہيں۔ حکام کے مطابق ان اقدامات سے مسلم ملکوں کے مہاجرين کو نشانہ نہيں بنايا جا رہا۔
اشتہار
امريکا کی جانب سے اعلان کيا گيا ہے کہ گيارہ ممالک سے تعلق رکھنے والے پناہ گزينوں کی امريکا داخلے پر پابندی ختم کی جا رہی ہے تاہم امريکا داخلے پر ان ملکوں کے شہريوں کی نگرانی پہلے کے مقابلے ميں اور بھی زيادہ سخت کر دی جائے گی۔ خبر رساں ادارے اے ايف پی کی امريکی دارالحکومت واشنگٹن سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق ان ملکوں کے نام بيان نہيں کيے گئے ليکن عام خيال يہی ہے کہ ان ميں مسلم اکثريتی آبادی والے ممالک اور شمالی کوريا شامل ہيں۔ امريکی ہوم لينڈ سکيورٹی کی سيکرٹری کرسٹن نيلسن نے کہا کہ يہ انتہائی لازمی ہے کہ ان کے محکمے کو يہ معلوم ہو کہ ملک ميں کون داخل ہو رہا ہے۔ ان کا مزيد کہنا تھا، ’’اضافی سکيورٹی اقدامات غلط لوگوں کو ہمارے مہاجرين سے متعلق پروگرام کا فائدہ اٹھانے سے روک پائيں گے اور اس بات کو يقينی بنائيں گے کہ ہم اپنی سرزمين کی حفاظت کی خاطرس ممکنہ خطرات کا جائزہ ليیں سکیں۔‘‘
واشنگٹن انتظاميہ نے تراميم کے بعد اپنی مہاجرين پاليسی کے تحت گزشتہ برس اکتوبر ميں گيارہ ملکوں سے تعلق رکھنے والے مہاجرين کی امريکا داخلے پر پابندی عائد کی تھی۔ سرکاری طور پر متاثرہ ممالک کا نام عام نہیں کیا گيا تھا تاہم سفارتی ذرائع کے حوالے سے بتایا گا ہے کہ ان ميں مصر، ايران، عراق، ليبيا، مالی، شمالی کوريا، صوماليہ، جنوبی سوڈان، سوڈان، شام اور يمن شامل ہيں۔
انتظاميہ کے ايک سينیئر رکن نے اپنا نام مخفی رکھنے کی شرط پر روئٹرز کو بتايا کہ ان نئے سکيورٹی اقدامات کا مقصد مسلمانوں کو نشانہ بنانا ہر گز نہيں۔ اس اہلکار نے کہا کہ ٹرمپ انتظاميہ لوگوں ميں مذہب کی بنياد پر تفريق نہيں کرتی۔
يہ امر اہم ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اقتدار سنبھالنے کے بعد اپنے پيش رو باراک اوباما کے مقابلے ميں سخت تر اميگريشن پاليسياں اپنا رکھی ہيں۔ اوباما نے مالی سال 2017 کے ليے امريکا آنے والے مہاجرين کی تعداد ايک لاکھ دس ہزار مقرر کر رکھی تھی، جسے ٹرمپ نے پہلے ترپن ہزار اور پھر مزيد کم کر کے پينتاليس ہزار کر ديا تھا۔
وويمن مارچ 2018 : شرکاء کی تعداد کم مگر ہمت و حوصلہ زيادہ
امريکا کے متعدد شہروں ميں عورتوں نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مخالفت اور اپنے حقوق کے تحفظ کے ليے بيس جنوری کو ريلياں نکاليں۔ يہ ملک گير احتجاجی ريلياں، ٹرمپ کے منصب صدارت پر براجمان ہونے کے ایک سال مکمل ہونے پر نکالی گئیں۔
تصویر: Getty Images/S. Platt
امريکا اور کئی ديگر ملکوں ميں احتجاجی ريلياں
امريکا کے تقريباً ڈھائی سو شہروں کے علاوہ دنيا بھر ميں کئی اور مقامات پر ہفتہ بيس جنوری کو ہزاروں کی تعداد ميں عورتوں نے ريلياں نکاليں۔ ريليوں ميں اکثريتی طور پر خواتين نے حصہ ليا تاہم ايک بڑی تعداد ميں مرد بھی عورتوں کی حمايت ميں سڑکوں پر نکلے۔ گزشتہ برس کی وويمن مارچ ميں قريب پانچ ملين افراد نے شرکت کی تھی۔ تاہم اس سال مارچ ميں شرکت کرنے والی عورتوں کی تعداد پچھلے سال کے مقابلے ميں کافی کم رہی۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Ralston
ہر طرف ’پُسی ہيٹس‘
مارچ شرکاء نے ٹرمپ کی پاليسيوں اور مبينہ نسل پرستانہ اقدامات پر احتجاج کيا اور عورتوں کے حقوق کے تحفظ کے ليے بھی اپنی آوازيں بلند کيں۔ شرکاء کی ايک بڑی تعداد نے احتجاج ميں گلابی رنگ کی ايک مخصوص طرز کی ٹوپياں پہن رکھی تھيں۔ صدر ٹرمپ نے پچھلے سال کی مارچ سے قبل ايک متنازعہ بات کہی تھی، جس کے نتيجے ہی ميں يہ ’پُسی ہيٹس‘ صدر کے بيان کے خلاف عورتوں کے احتجاج کی علامت کے طور پر سامنے آئيں۔
تصویر: Reuters/B. Snyder
مارچ کے رد عمل ميں ٹرمپ کا طنزيہ ٹوئٹر پيغام
عورتوں کی اس مارچ کے رد عمل ميں صدر ٹرمپ نے اپنے ٹوئٹر پيغام ميں طنزيہ انداز ميں لکھا، ’’آج ہمارے پورے ملک ميں بہترين موسم ہے، عورتوں کی مارچ کے ليے ايک موزوں دن۔ اب وہ سڑکوں سے دور ہٹ جائيں تاکہ پچھلے ايک سال ميں سامنے آنے والے تاريخی سنگ ميل، اقتصادی ترقی اور دولت اکھٹی کرنے کے عوامل پر خوشی منائی جا سکے۔‘‘
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Brandon
مارچ کے مقاصد کيا ہيں؟
منتظمين کی کوشش ہے کہ امريکا ميں اس سال نومبر ميں ہونے والے مڈ ٹرم اليکشن ميں ترقی پسندانہ سوچ کے حامل اميدوار آگے آ سکيں اور ايسی ريليوں کے ذريعے ٹرمپ کی مخالفت اور مطلوبہ اميدواروں کی حمايت ميں اضافہ ہو سکے۔ ’وويمن مارچ‘ کے منتظمين انتخابات تک ايک ملين اضافی ووٹروں کو رجسٹر کرانا بھی چاہتے ہيں تاکہ حکومت ميں ايسے افراد اور قوتيں شامل ہو سکيں جو عورتوں کے حقوق کے تحفظ ميں بہتر کردار ادا کر سکيں۔
تصویر: picture-alliance/Newscom/J. Middlebrook
مارچ اور ريلياں دوسرے روز بھی جاری
امريکا کے کئی بڑے شہروں ميں اتوار کے روز بھی ريلياں نکالی جا رہی ہيں۔ لاس ويگاس مڈ ٹرم کانگريشنل اليکشن ميں ايک اہم مقام ہے اور اسی وجہ سے اکيس جنوری کو وہاں چند تقريبات منعقد ہو رہی ہيں۔ اس کے علاوہ اتوار کو ميامی، آسٹريلوی شہر ميلبورن اور جرمن شہر ميونخ ميں بھی ایسی ریلیوں کی منصوبہ بندی کی گئی وہے۔
تصویر: picture-alliance/ZUMAPRESS.com/L. Lizana
عورتوں کی آواز کا اہم سال
سن 2018 کی ’وويمن مارچ‘ اس ليے بھی اہم ہے کہ پچھلا ايک سال متعدد مہمات کے سبب عورتوں کے حوالے سے کافی اہم ثابت ہوا۔ #Metoo کے ہيش ٹيگ کے ساتھ عورتوں نے جنسی طور پر ہراساں کيے جانے کے اپنے تجربات پر آواز اٹھائی۔ گزشتہ برس ہی ہالی ووڈ ميں کئی معروف اداکاراؤں کو جنسی طور پر ہراساں کيے جانے کے واقعات سامنے آئے۔ #Timesup نامی مہم ميں بھی دنيا بھر کی عورتوں نے ايسے ہی منفی تجربات بيان کيے۔