امريکہ، پاکستان اور بن لادن
4 مئی 2011جہاں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے امريکی آپريشن کی مزيد تفصيلات سامنے آرہی ہيں وہاں ايک يہ سوال بھی جواب طلب ہے کہ ايبٹ آباد کی ايک اتنی بڑی کوٹھی ميں بن لادن کا طويل عرصے تک قيام کس طرح راز ميں رہا۔ کيا حقيقتاً پاکستانی حکومت کو اس کا کوئی علم نہيں تھا؟ امريکہ کے ممتاز ڈيمو کريٹ سينيٹر کارل ليون کے خيال ميں ايسا ممکن نہيں ہے۔
سينيٹر ليون کا کہنا ہے:’’يہ کيسے ممکن ہے کہ پاکستانی فوج، پوليس اور خفيہ سروس کو بن لادن کی رہائش گاہ کا کوئی علم نہيں تھا حالانکہ وہ ايک ايسی مرکزی جگہ پر مقيم تھے۔ اسامہ کی کوٹھی کے گرد ايک اونچی ديوار تھی۔ اس پر کوئی سيٹلائٹ ٹيلی وژن اينٹنا نصب نہيں تھا، اور نہ ہی ان کے پاس کوئی ٹيليفون يا انٹرنيٹ کنکشن تھا۔ آخر اس پر تو شبہ پيدا ہونا لازمی تھا۔ اب پاکستانی حکومت کو ان سب سوالات کا جواب دينا ہوگا۔‘‘
امريکہ ميں کسی کو بھی اس پر يقين نہيں آ تا کہ ان تمام برسوں کے دوران اسامہ بن لادن کو صرف اُن کے ہم خيال دوستوں سے ہی مدد ملتی رہی۔ بار بار يہ گمان ظاہر کيا جارہا ہے کہ پاکستانی فوج اور حکومت کے نمائندوں تک نے بھی دہشت گردوں کے قائد کی قيام گاہ کو راز ميں رکھا۔
امريکی حکومت اس قسم کے شبہات کا اظہار کبھی بھی سرکاری طور پر نہيں کرے گی ليکن وہ پاکستانی حکمرانوں کے بارے ميں ايک عرصے سے مشکوک ہے۔ واشنگٹن پاکستان کو سالانہ تين ارب ڈالر کی فوجی امداد بھی ديتا ہے۔ ليکن حقيقی دوستی کچھ اور ہی ہوتی ہے۔ امريکہ کئی برسوں سے پاکستانی حکومت پر اعتماد نہيں کرتا اور يہی صورتحال اُس وقت بھی تھی جب پچھلے سنيچر اوراتوار کی درميانی شب ميں امريکی نيوی کا ايک خصوصی دستہ بن لادن کے خلاف مشن پر روانہ ہو رہا تھا۔ صدر اوباما کے دہشت گردی کے مقابلے کے ماہر جان برينن نے کہا: ’’ہم نے اس آپريشن سے متعلق پاکستان کو اُس وقت اطلاع دی جب ہمارے تمام فوجی اور طيارے پاکستانی فضائی حدود سے باہر نکل چکے تھے۔‘‘
ظاہر ہے کہ عالمی قانون کے لحاظ سے يہ ساری فوجی کارروائی ايک پيچيدہ مسئلہ تھی، ليکن خود اقوام متحدہ کی طرف سے بھی بن لادن کی ہلاکت کی حمايت کے بعد واشنگٹن کو اپنے اقدام کے درست ہونے کا اور زيادہ يقين ہو گيا ہے۔
امريکہ ميں کسی کو اس پر بھی تعجب نہيں کہ پاکستان کی سوچ اس بارے ميں بالکل مختلف ہے۔ چنانچہ سابق پاکستانی صدر مشرف کی سخت تنقيد پر توجہ نہيں دی جا رہی ہے۔ مشرف نے ايک ٹيلی وژن انٹرويو ميں کہا:’’غيرملکی فوجی اس آپريشن کے ليے ہماری حدود ميں داخل ہوئے۔ يہ ناقابل قبول اور ہماری خود مختاری کی خلاف ورزی ہے۔ اس سے کہيں بہتر يہ ہوتا کہ ہماری فوج کے خصوصی دستے يہ آپريشن کرتے۔‘‘
ليکن امريکہ اس قسم کی کارروائی کے لئے پاکستانی فوج پر کبھی بھی اعتماد نہيں کرتا۔ خاص طور پر اس ليے بھی کہ بہت سے امريکی ماہرين پاکستان پر دہرا کھيل کھيلنے کا الزام لگاتے ہيں۔ اُن کا کہنا ہے کہ حکومت اور فوج کے بعض حصے شدت پسندوں سے تعاون کر رہے ہيں۔
صدر زرداری نے کہا ہے کہ يہ الزام قطعی بے بنياد ہے کہ اُن کا ملک دہشت گردوں کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ اُنہيں معلوم ہے کہ ہر طرح کی تنقيد کے باوجود بھی امريکہ پاکستان کا ساتھ نہيں چھوڑ سکتا، کيونکہ واشنگٹن کو اپنے اس دشوار اتحادی کی ضرورت ہے۔ چنانچہ امريکی وزير خارجہ ہليری کلنٹن نے بن لادن کی ہلاکت پر منتج ہونے والے آپريش کے بعد کہا کہ ہم آگے کی طرف ديکھ رہے ہيں اور پاکستان کے ساتھ اپنا اشتراک عمل جاری رکھيں گے۔
اس کے پيچھے امريکی سوچ يہ ہے کہ ايک ايسا ساتھی جس پر آدھا اعتماد کيا جا سکے، کوئی ساتھی نہ ہونے سے بہتر ہے۔
رپورٹ: کاسٹ کلاؤس، واشنگٹن/ شہاب احمد صديقی
ادارت: کشور مصطفٰی