امريکی اسٹاک ایکسچینجز سے چينی کمپنيوں کا اخراج زير غور
28 ستمبر 2019
امريکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظاميہ چينی کمپنيوں کو امريکی بازار حصص سے خارج کرنے پر غور کر رہی ہے۔ يہ ممکنہ اقدام واشنگٹن اور بيجنگ حکومتوں کے باہمی تعلقات ميں مزید خرابی کا سبب بن سکتا ہے۔
اشتہار
ان دنوں واشنٹگن انتظاميہ ملکی اسٹاک ايکسچينجز ميں رجسٹرڈ چينی کمپنيوں کو 'ڈی لسٹ‘ يا خارج کرنے پر غور کر رہی ہے۔ اس معاملے سے واقفيت رکھنے والے تين مختلف ذرائع نے خبردار کيا ہے کہ يہ ايک بڑا اقدام ہو گا اور اس کے امريکا اور چين کے باہمی تجارتی تعلقات پر کافی سنگين اور منفی نتائج برآمد ہوں گے۔ دو ذرائع نے بتايا کہ يہ ممکنہ اقدام چينی کمپنيوں ميں امريکی سرمايہ کاری محدود رکھنے کے ليے کیا جا سکتا ہے۔ ايک ذريعے کے مطابق يہ اقدام ممکنہ طور پر چينی کمپنيوں کی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نظر ميں 'مشکوک حرکات‘ يا سلامتی سے متعلق خدشات کے سبب زير غور ہے۔
چين ميں يکم اکتوبر سے 'عوامی جمہوریہ‘ کے قيام کے ستر برس مکمل ہونے کے حوالے سے تقريبات شروع ہو رہی ہيں۔ اس موقع پر دنيا کی دوسری سب سے بڑی اقتصادی قوت والے ملک ميں قریب ايک ہفتے تک کاروباری سرگرمياں بند رہيں گی۔ چينی کمپنيوں کا اخراج زير غور ہونے سے متعلق خبروں کے منظر عام پر آنے کے بعد جمعے ستائيس ستمبر کو کئی امريکی بازار حصص ميں مندی کا رجحان ديکھا گيا۔
فی الحال يہ واضح نہيں کہ اگر واشنگٹن انتظاميہ اس منصوبے پر عمل درآمد شروع کرتی ہے تو چينی کمپنيوں کی 'ڈی لسٹنگ‘ کے عمل کو عملی جامعہ کيسے پہنايا جائے گا۔ رواں سال جون ميں دونوں امريکی سياسی جماعتوں کے قانون سازوں نے ايک بل متعارف کرايا تھا، جس کے تحت امريکی بازار حصص ميں درج چينی کمپنيوں کو ايک ريگوليٹری نظام کے ماتحت کام کرنے کا پابند کيا گيا تھا۔ اس ميں يہ شق بھی شامل تھی کہ اگر کمپنيوں نے اپنی آڈٹ رپورٹس پيش نہ کيں تو انہيں ڈی لسٹنگ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
يہ امر بھی اہم ہے کہ فی الحال اس بارے ميں حتمی فيصلہ نہيں کيا گيا ہے۔ رواں برس فروری کے اعداد و شمار کے مطابق امريکی اسٹاک مارکیٹ میں رجسٹرڈ چينی کمپنيوں کی تعداد 156 ہے۔
امريکا اور چين کے مابين جاری تجارتی تنازعے کے حل کے ليے جاری مذاکراتی عمل ميں بات چيت کا آئندہ دور دس تا گيارہ اکتوبر متوقع ہے۔ چند ماہرين کی رائے ميں يہ پيش رفت اور اس سے جڑی خبريں مذاکراتی عمل ميں سبقت حاصل کرنے کی ايک کوشش بھی ہو سکتی ہے۔ تاہم کئی ماہرين کا خيال ہے کہ اس اقدام کا ممکنہ مقصد چينی ٹيکنالوجی کمپنيوں ميں سويلين فوجی اشتراک کے ممکنہ اثرات کو محدود رکھنا بھی ہو سکتا ہے۔
ٹرمپ دنيا بھر ميں کس کس سے ناراضی مول لیے بيٹھے ہيں!
مسائل داخلی ہوں يا بين الاقوامی امريکی صدر ٹرمپ کے ان سے نمٹنے کے انداز کو متنازعہ خیال کیا جاتا ہے۔ يہی وجہ ہے کہ روايتی حريف روس اور چين ہی نہيں بلکہ يورپی يونين جيسے قريبی اتحادی بھی ٹرمپ سے نالاں دکھائی دیتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/N. Kamm
پاکستان اور امريکا، ايک پيچيدہ رشتہ
ڈونلڈ ٹرمپ نے رواں سال کے آغاز پر اپنی ٹوئيٹس ميں پاکستان پر شديد تنقيد کی۔ انتظاميہ چاہتی ہے کہ اسلام آباد حکومت ملک ميں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کے خلاف زيادہ موثر کارروائی کرے۔ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کے حلیفوں پاکستان اور امريکا کے بيچ فاصلے بڑھتے جا رہے ہيں۔ ستمبر 2018ء ميں امريکی وزير خارجہ کے دورے سے بھی زيادہ فرق نہيں پڑا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Hassan
اقتصادی جنگ ميں چين اور امريکا ميں مقابل
روسی ہتھياروں کی خريداری پر امريکا نے چينی فوج پر ستمبر 2018ء ميں تازہ پابندياں عائد کيں۔ جواباً چين نے دھمکی دی کہ پابندياں خنم کی جائيں يا پھر امريکا اس کا خميازہ بھگتنے کے ليے تيار رہے۔ چين اور امريکا کے مابين يہ واحد تنازعہ نہيں، دنيا کی ان دو سب سے بڑی اقتصادی قوتوں کے مابين تجارتی جنگ بھی جاری ہے۔ دونوں ممالک ايک دوسرے کی درآمدات پر اضافی محصولات عائد کرتے آئے ہيں۔
تصویر: picture-alliance/newscom/S. Shaver
روس کے ساتھ بھی چپقلش
ادھر روس نے کہا ہے کہ ’امريکا آگ سے کھيل رہا ہے‘ اور اس سے عالمی امن و استحکام کو خطرہ لاحق ہے۔ يہ بيان روس کے خلاف امريکی پابنديوں کے تناظر ميں سامنے آيا۔ امريکا اور روس کے مابين ان دنوں شام، يوکرائن، امريکی صدارتی انتخابات ميں مبينہ مداخلت، سائبر جنگ اور کئی ديگر اہم امور پر سنگين نوعيت کے اختلافات پائے جاتے ہيں۔ کئی ماہرين کے خیال میں اس وقت ’ايک نئی سرد جنگ‘ جاری ہے۔
اسرائيل اور فلسطين کے مابين تنازعے ميں بھی ٹرمپ کے کردار پر سواليہ نشان لگايا جاتا ہے۔ پچھلے سال کے اواخر ميں جب ٹرمپ انتظاميہ نے يروشلم کو اسرائيل کا دارالحکومت تسليم کيا، تو اس کا عالمی سطح پر رد عمل سامنے آيا اور خطہ اس کے نتائج آج تک بھگت رہا ہے۔ يورپی رياستيں اس پرانے مسئلے کے ليے دو رياستی حل پر زور ديتی ہيں، ليکن ٹرمپ کے دور ميں دو رياستی حل کی اميد تقريباً ختم ہو گئی ہے۔
تصویر: Imago/ZumaPress
اتحاديوں ميں بڑھتے ہوئے فاصلے
ٹرمپ کے دور ميں واشنگٹن اور يورپی يونين کے تعلقات بھی کافی حد تک بگڑ چکے ہيں۔ معاملہ چاہے تجارت کا ہو يا ايران کے خلاف پابنديوں کی بحالی کا، برسلز اور واشنگٹن کے نقطہ نظر مختلف ہوتے ہيں۔ امريکی صدر مہاجرين کے بحران، بريگزٹ، يورپی يونين ميں سلامتی کی صورتحال، يورپ ميں دائيں بازو کی قوتوں ميں اضافہ و مغربی دفاعی اتحاد نيٹو کے بجٹ جيسے معاملات پر يورپی قيادت کو کافی سخت تنقيد کا نشانہ بنا چکے ہيں۔
جی سيون بھی تنازعے کی زد ميں
اس سال جون ميں کينيڈا ميں منعقد ہونے والی جی سيون سمٹ تنقيد، متنازعہ بيانات اور الزام تراشی کا مرکز بنی رہی۔ ٹرمپ نے اس اجلاس کے اختتام پر مشترکہ اعلاميے پر دستخط کرنے سے انکار کر ديا، جس پر تقريباً تمام ہی اتحادی ممالک کے رہنماؤں نے ٹرمپ کے اس رويے کی مذمت کی۔ کيوبک ميں ہونے والی جی سيون سمٹ کے بعد ميزبان ملک کے وزير اعظم جسٹن ٹروڈو اور ٹرمپ کے مابين لفظوں کی ايک جنگ بھی شروع ہو گئی تھی۔