امريکی صدر نے جی سیون سمٹ کی میزبانی سے ’يو ٹرن‘ لے ليا
20 اکتوبر 2019
امريکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے آئندہ جی سيون سمٹ کا انعقاد رياست فلوريڈا ميں اپنے ايک ذاتی گالف کلب ميں کرانے کا اعلان کيا تھا۔ تاہم بد عنوانی کے الزامات کے بعد اب انہوں نے اپنا يہ فيصلہ تبدیل کر ليا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Harnik
اشتہار
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ايک ٹوئٹر پيغام ميں لکھا کہ ’ذرائع ابلاغ اور ڈيموکريٹس کی بے مقصد جارحیت کی وجہ سے سن 2020 ميں آئندہ جی سيون سمٹ کی ميزبانی کے ليے ميامی ميں ٹرمپ نيشنل ڈورل کا مقام اب زير غور نہيں۔‘ انہوں نے مزيد لکھا کہ ترقی يافتہ ممالک کے گروپ جی سیون کے سربراہی اجلاس کی ميزبانی کے ليے مقام کی تلاش جاری ہے اور ممکن ہے کہ يہ کيمپ ڈيوڈ ميں ہو۔
وائٹ ہاؤس کے قائم مقام چيف آف اسٹاف مک مُلوانے نے رواں ہفتے جمعرات کو اعلان کيا تھا کہ آئندہ جی سيون سمٹ صدر ٹرمپ کے گالف کلب ميں منعقد ہو گی۔ اس پر کانگريس ميں ڈيموکريٹس کی طرف سے شديد ردعمل ديکھا گيا اور اسے ’ٹرمپ کی کھلی کرپشن کا ايک اور ثبوت‘ قرار ديا گيا۔ قبل ازيں مُلوانے نے اپنے بيان ميں کہا تھا کہ آئندہ برس دس تا بارہ جون ہونے والے اجلاس کی ميزبانی کے ليے قريب ايک درجن مقامات زير غور تھے، جن ميں ٹرمپ نيشنل ڈورل سب سے بہتر ثابت ہوا۔ اس فيصلے کے ناقدين کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کے گالف کلب پر سمٹ کا انعقاد چند قانونی شقوں کی خلاف ورزی کے زمرے ميں آ سکتا ہے۔
امريکی ايوان نمائندگان کی عدليہ کے حوالے سے طاقت ور کميٹی کے چيئرمين جيری نيڈلر نے اس بارے ميں کہا کہ صدر ٹرمپ اپنے اختيارات کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے، حکومتی فيصلے اپنے ذاتی مفاد کے ليے استعمال کر رہے ہيں۔
واشنگٹن پوسٹ کے مطابق ’ٹرمپ نيشنل ڈورل‘ ايک وقت ميں کافی منافع بخش رہا ہے تاہم اِن دنوں يہ مالی مشکلات کا شکار ہے۔ رواں برس مئی ميں اس اخبار نے اپنی ايک رپورٹ ميں يہ انکشاف بھی کيا تھا کہ پچھلے دو سالوں ميں اس کلب کی آمدنی ميں قريب ستر فيصد کی کمی رونما ہوئی ہے۔
ٹرمپ دنيا بھر ميں کس کس سے ناراضی مول لیے بيٹھے ہيں!
مسائل داخلی ہوں يا بين الاقوامی امريکی صدر ٹرمپ کے ان سے نمٹنے کے انداز کو متنازعہ خیال کیا جاتا ہے۔ يہی وجہ ہے کہ روايتی حريف روس اور چين ہی نہيں بلکہ يورپی يونين جيسے قريبی اتحادی بھی ٹرمپ سے نالاں دکھائی دیتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/N. Kamm
پاکستان اور امريکا، ايک پيچيدہ رشتہ
ڈونلڈ ٹرمپ نے رواں سال کے آغاز پر اپنی ٹوئيٹس ميں پاکستان پر شديد تنقيد کی۔ انتظاميہ چاہتی ہے کہ اسلام آباد حکومت ملک ميں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کے خلاف زيادہ موثر کارروائی کرے۔ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کے حلیفوں پاکستان اور امريکا کے بيچ فاصلے بڑھتے جا رہے ہيں۔ ستمبر 2018ء ميں امريکی وزير خارجہ کے دورے سے بھی زيادہ فرق نہيں پڑا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Hassan
اقتصادی جنگ ميں چين اور امريکا ميں مقابل
روسی ہتھياروں کی خريداری پر امريکا نے چينی فوج پر ستمبر 2018ء ميں تازہ پابندياں عائد کيں۔ جواباً چين نے دھمکی دی کہ پابندياں خنم کی جائيں يا پھر امريکا اس کا خميازہ بھگتنے کے ليے تيار رہے۔ چين اور امريکا کے مابين يہ واحد تنازعہ نہيں، دنيا کی ان دو سب سے بڑی اقتصادی قوتوں کے مابين تجارتی جنگ بھی جاری ہے۔ دونوں ممالک ايک دوسرے کی درآمدات پر اضافی محصولات عائد کرتے آئے ہيں۔
تصویر: picture-alliance/newscom/S. Shaver
روس کے ساتھ بھی چپقلش
ادھر روس نے کہا ہے کہ ’امريکا آگ سے کھيل رہا ہے‘ اور اس سے عالمی امن و استحکام کو خطرہ لاحق ہے۔ يہ بيان روس کے خلاف امريکی پابنديوں کے تناظر ميں سامنے آيا۔ امريکا اور روس کے مابين ان دنوں شام، يوکرائن، امريکی صدارتی انتخابات ميں مبينہ مداخلت، سائبر جنگ اور کئی ديگر اہم امور پر سنگين نوعيت کے اختلافات پائے جاتے ہيں۔ کئی ماہرين کے خیال میں اس وقت ’ايک نئی سرد جنگ‘ جاری ہے۔
اسرائيل اور فلسطين کے مابين تنازعے ميں بھی ٹرمپ کے کردار پر سواليہ نشان لگايا جاتا ہے۔ پچھلے سال کے اواخر ميں جب ٹرمپ انتظاميہ نے يروشلم کو اسرائيل کا دارالحکومت تسليم کيا، تو اس کا عالمی سطح پر رد عمل سامنے آيا اور خطہ اس کے نتائج آج تک بھگت رہا ہے۔ يورپی رياستيں اس پرانے مسئلے کے ليے دو رياستی حل پر زور ديتی ہيں، ليکن ٹرمپ کے دور ميں دو رياستی حل کی اميد تقريباً ختم ہو گئی ہے۔
تصویر: Imago/ZumaPress
اتحاديوں ميں بڑھتے ہوئے فاصلے
ٹرمپ کے دور ميں واشنگٹن اور يورپی يونين کے تعلقات بھی کافی حد تک بگڑ چکے ہيں۔ معاملہ چاہے تجارت کا ہو يا ايران کے خلاف پابنديوں کی بحالی کا، برسلز اور واشنگٹن کے نقطہ نظر مختلف ہوتے ہيں۔ امريکی صدر مہاجرين کے بحران، بريگزٹ، يورپی يونين ميں سلامتی کی صورتحال، يورپ ميں دائيں بازو کی قوتوں ميں اضافہ و مغربی دفاعی اتحاد نيٹو کے بجٹ جيسے معاملات پر يورپی قيادت کو کافی سخت تنقيد کا نشانہ بنا چکے ہيں۔
جی سيون بھی تنازعے کی زد ميں
اس سال جون ميں کينيڈا ميں منعقد ہونے والی جی سيون سمٹ تنقيد، متنازعہ بيانات اور الزام تراشی کا مرکز بنی رہی۔ ٹرمپ نے اس اجلاس کے اختتام پر مشترکہ اعلاميے پر دستخط کرنے سے انکار کر ديا، جس پر تقريباً تمام ہی اتحادی ممالک کے رہنماؤں نے ٹرمپ کے اس رويے کی مذمت کی۔ کيوبک ميں ہونے والی جی سيون سمٹ کے بعد ميزبان ملک کے وزير اعظم جسٹن ٹروڈو اور ٹرمپ کے مابين لفظوں کی ايک جنگ بھی شروع ہو گئی تھی۔