امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک طالبان رہنما سے ٹیلی فون پر بات چیت کی ہے۔ کسی بھی امریکی صدر کی جانب سے کسی دہشت گرد گروپ کے رہنما سے غالباً یہ پہلی براہ راست گفتگو ہے۔
اشتہار
طالبان رہنما سے گفتگو کے بعد صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا، ”آج طالبان رہنما کے ساتھ ہماری بہت اچھی بات چیت رہی۔ وہ جنگ کو ختم کرنا چاہتے ہیں اور ہم بھی يہی چاہتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے مفادات مشترکہ ہیں۔“
صدر ٹرمپ نے بتایا کہ طالبان رہنما کے ساتھ ان کی تقریباً پينتيس منٹ تک بات چیت جاری رہی۔ انہوں نے بتايا، ”وہ افغانستان سے متعلق بات کر رہے ہیں لیکن ہم دیکھیں گے کہ کیا ہوتا ہے۔ در اصل ہم نے طالبان لیڈر سے بہت اچھی گفتگو کی۔“ ٹرمپ نے مزید کہا کہ 'ملا غبدالغنی برادر کے ساتھ ان کے تعلقات بہت اچھے ہیں اور وہ بھی تشدد کو ختم کرنا چاہتے ہیں‘۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ طالبان کے کسی لیڈر کے ساتھ بات چیت کرنے والے پہلے امریکی صدر ہیں تو ٹرمپ کا کہنا تھا، ”میں ایسا نہیں کہہ سکتا۔“
واضح رہے کہ امریکا افغانستان میں طالبان کو اپنے ہزاروں فوجیوں کی ہلاکت کا ذمہ دار سمجھتا ہے۔
قبل ازیں طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ٹوئيٹ کر کے بتایا تھا کہ امریکی صدر نے فون پر ملا عبدالغنی برادر سے بات چیت کی ہے۔ ملا عبدالغنی طالبان کے شریک بانی اور قطر میں طالبان کے سیاسی دفتر کے سربراہ ہیں۔
امریکا اور ملا برادر نے انتیس فروری ہفتے کے روز دوحہ میں ایک امن معاہدے پر دستخط کے ہیں۔ اس معاہدے کے تحت دس مارچ سے افغانستان ميں داخلی سطح پر مذاکرات کا آغاز ہونا ہے۔ تاہم مذاکرات سے قبل افغان حکومت کی جانب سے طالبان کے پانچ ہزار اور طالبان کی جانب سے افغان حکومت کے ایک ہزار قیدیوں کو رہا کیا جانا ہے۔ دوسری طرف غیر ملکی افواج چودہ ماہ کے اندر افغانستان سے نکل جائیں گی جس کے بدلے میں طالبان افغانستان کی سرزمین کو امریکا اور اس کے اتحادیوں کے خلاف دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے استعمال نہیں ہونے ديں گے۔
گزشتہ انيس برسوں سے افغانستان میں جنگ میں مصروف امریکی افواج کی واپسی صدر ٹرمپ کی آئندہ صدارتی انتخابی مہم کا ایک اہم وعدہ ہے۔ اس جنگ میں ہزاروں امریکی فوجی اب تک ہلاک ہوچکے ہیں۔
2019 میں دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثرہ دس ممالک
سن 2019 کے ’گلوبل ٹیررازم انڈیکس‘ کے مطابق گزشتہ برس پاکستان میں دہشت گردانہ حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد سن 2013 کے مقابلے میں 81 فیصد کم رہی۔ اس انڈیکس کے مطابق دنیا بھر میں سب سے زیادہ دہشت گردی کے شکار ممالک یہ رہے۔
تصویر: Reuters/E. Su
1۔ افغانستان
دنیا بھر میں دہشت گردی سے متاثر ممالک میں افغانستان اس برس سر فہرست رہا۔ سن 2018 کے دوران افغانستان میں 1443 دہشت گردانہ واقعات ہوئے جن میں 7379 افراد ہلاک اور ساڑھے چھ ہزار افراد زخمی ہوئے۔ 83 فیصد ہلاکتیں طالبان کے کیے گئے حملوں کے سبب ہوئیں۔ طالبان نے پولیس، عام شہریوں اور حکومتی دفاتر کو نشانہ بنایا۔ داعش خراسان کی دہشت گردانہ سرگرمیوں میں بھی اضافہ ہوا۔ افغانستان کا جی ٹی آئی اسکور 9.60 رہا۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Marai
2۔ عراق
عراق دہشت گردی کے شکار ممالک کی فہرست مسلسل تیرہ برس سے سر فہرست رہنے کے بعد دوسرے نمبر پر آیا۔ رواں برس کے گلوبل ٹیررازم انڈیکس کے مطابق 2018ء کے دوران عراق میں دہشت گردی کے 1131 واقعات پیش آئے جو اس سے گزشتہ برس کے مقابلے میں 57 فیصد کم ہیں۔ گزشتہ برس کے مقابلے میں ہلاکتوں میں 75 فیصد کمی دیکھی گئی۔ دہشت گرد تنظیم داعش نے سب سے زیادہ دہشت گردانہ کارروائیاں کیں۔ عراق کا جی ٹی آئی اسکور 9.24 رہا۔
تصویر: picture-alliance/AP
3۔ نائجیریا
دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں جی ٹی آئی اسکور 8.59 کے ساتھ نائجیریا تیسرے نمبر پر ہے۔ اس افریقی ملک میں 562 دہشت گردانہ حملوں میں دو ہزار سے زائد افراد ہلاک اور 772 زخمی ہوئے۔ سن 2001 سے اب تک نائجیریا میں 22 ہزار سے زائد افراد دہشت گردی کے باعث ہلاک ہو چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/Stringer
4۔ شام
جی ٹی آئی انڈیکس کے مطابق خانہ جنگی کا شکار ملک شام دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں چوتھے نمبر پر ہے۔ شام میں دہشت گردانہ کارروائیوں میں زیادہ تر داعش، حیات تحریر الشام اور کردستان ورکرز پارٹی کے شدت پسند ملوث تھے۔ شام میں سن 2018 کے دوران دہشت گردی کے 131 واقعات رونما ہوئے جن میں 662 انسان ہلاک جب کہ سات سو سے زائد زخمی ہوئے۔ جی ٹی آئی انڈیکس میں شام کا اسکور 8.0 رہا۔
تصویر: Getty Images/AFP
5۔ پاکستان
پاکستان اس فہرست میں پانچویں نمبر پر ہے جہاں گزشتہ برس 366 دہشت گردانہ واقعات میں 537 افراد ہلاک اور ایک ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔ گزشتہ برس دہشت گردی کی زیادہ تر کارروائیاں داعش خراسان اور تحریک طالبان پاکستان نے کیں۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں دہشت گردی کے باعث ہلاکتوں کی تعداد سن 2013 کے مقابلے میں 81 فیصد کم رہی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Hassan
6۔ صومالیہ
دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں صومالیہ چھٹے نمبر پر رہا جہاں الشباب تنظیم سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں نے نوے فیصد سے زائد حملوں کی ذمہ داری قبول کی۔ صومالیہ میں دہشت گردی کے 286 واقعات ریکارڈ کیے گئے جن میں 646 افراد ہلاک ہوئے۔ جی ٹی آئی انڈیکس میں شام کا اسکور 7.8 رہا۔
تصویر: picture alliance/dpa/AAS. Mohamed
7۔ بھارت
اس برس کے عالمی انڈیکس میں بھارت آٹھویں سے ساتویں نمبر پر آ گیا۔ بھارت میں دہشت گردی کے قریب ساڑھے سات سو واقعات میں 350 افراد ہلاک جب کہ 540 زخمی ہوئے۔ بھارت کے مشرقی حصے میں ہونے والی زیادہ تر دہشت گردانہ کارروائیاں ماؤ نواز باغیوں نے کیں۔ 2018ء کے دوران کشمیر میں 321 دہشت گردانہ حملوں میں 123 افراد ہلاک ہوئے۔ کشمیر میں دہشت گردانہ حملے حزب المجاہدین، جیش محمد اور لشکر طیبہ نے کیے۔
تصویر: Getty Images/AFP/N. Seelam
8۔ یمن
یمن میں متحارب گروہوں اور سعودی قیادت میں حوثیوں کے خلاف جاری جنگ کے علاوہ اس ملک کو دہشت گردانہ حملوں کا بھی سامنا ہے۔ مجموعی طور پر دہشت گردی کے 227 واقعات میں 301 افراد ہلاک ہوئے۔ دہشت گردی کے ان واقعات میں حوثی شدت پسندوں کے علاوہ القاعدہ کی شاخ AQAP کے دہشت گرد ملوث تھے۔ تاہم سن 2015 کے مقابلے میں یمن میں دہشت گردی باعث ہلاکتوں کی تعداد 81 فیصد کم رہی۔
تصویر: Reuters/F. Salman
9۔ فلپائن
فلپائن نویں نمبر پر رہا جہاں سن 2018 کے دوران دہشت گردی کے 424 واقعات پیش آئے جن میں قریب تین سو شہری مارے گئے۔ سن 2001 سے اب تک فلپائن میں تین ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ رواں برس جی ٹی آئی انڈیکس میں فلپائن کا اسکور 7.14 رہا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Favila
10۔ جمہوریہ کانگو
تازہ انڈیکس میں دسویں نمبر پر جمہوریہ کانگو رہا جہاں الائیڈ ڈیموکریٹک فورسز اور دیگر گروہوں کے دہشت گردانہ حملوں میں اٹھارہ فیصد اضافہ نوٹ کیا گیا۔ ان گروہوں کے حملوں میں زیادہ تر عام شہریوں کو نشانہ بنایا گیا۔
تصویر: DW/J. Kanyunyu
10 تصاویر1 | 10
دريں اثناء امن کی کوششوں کی راہ میں ایک نئی دشواری حائل ہوگئی ہے۔ افغان صدر اشرف غنی نے طالبان قیدیوں کو رہا کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں پہلے بات چیت ہونی چاہیے۔ دوسری طرف طالبان کا کہنا ہے کہ مذاکرات سے قبل ان کے پانچ ہزار قیدیوں کو رہا کیا جائے۔
طالبان کے ترجمان کے مطابق صدر ٹرمپ کے ساتھ ٹیلی فون پر بات چیت کے دوران ’ملا برادر نے امریکی صدر سے کہا کہ یہ افغان شہريوں کا بنیادی حق ہے کہ جتنا جلد ممکن ہو، اس سمجھوتے کے تمام نکات پر عمل درآمد ہو تاکہ افغانستان میں امن آ سکے۔‘ ذبیح اللہ مجاہد کے مطابق صدر ٹرمپ نے ملا برادر سے کہا کہ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو افغان صدر سے بات کریں گے تاکہ مذاکرات میں حائل رکاوٹ کو ختم کیا جا سکے۔
دریں اثنا پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ افغانستان میں قیام امن کے سلسلے میں دوحہ امن معاہدہ ایک بہت بڑی پیش رفت ہے اور جو موقع میسر آیا ہے اسے گنوانا نہیں چاہیے۔ پاکستانی دفتر خارجہ کی طرف سے جاری ایک بیان کے مطابق شاہ محمود قریشی نے کہا، ’’افغان قیادت پر اب ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ سازگار ماحول پیدا کرے جس سے گفتگو آ گے بڑھے۔ گوکہ یہ عمل آسان نہیں ہے لیکن اگر یہ کامیاب نہیں ہوا تو نقصان افغانستان اور افغان عوام کا ہوگا۔ یہ افغان قیادت کی آزمائش ہے، وہ آگے بڑھتے ہیں یا اسی تنگ نظری کا مظاہرہ کرتے ہیں جو پہلے کرتے رہے ہیں۔“
پاکستانی وزیر خارجہ نے افغان صدر سے اپیل کی کہ انہیں ملک اورعوام کے مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے آگے بڑھنا چاہیے اور طالبان کو بھی فراخ دلی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
طالبان اور امریکا کی ڈیل سب کی کامیابی ہے، شاہ محمود قریشی