طالبان کے ترجمان سہيل شاہين کے مطابق افغانستان سے مغربی دفاعی اتحاد نيٹو اور امريکی افواج کے انخلاء کے حوالے سے دونوں فريقين نے نئی تجاويز پيش کی ہيں۔ شاہين نے خبر رساں ادارے ايسوسی ايٹڈ پريس کو ہفتے چار مئی کے روز ارسال کردہ اپنے ايک آڈيو پيغام ميں اس پيش رفت کی اطلاع دی۔ قطر کے دارالحکومت دوحہ ميں افغان طالبان کے ترجمان نے کہا، ’’فريقين کے مابين فاصلے کم کرنے کے ليے تجاويز موجود ہيں تاہم کسی حتمی نتيجے تک پہنچنے کے ليے مزيد بات چيت درکار ہے۔‘‘
دوحہ ميں افغان طالبان کے افغانستان کے ليے خصوصی امريکی مندوب زلمے خليل زاد اور ان کے وفد کے ساتھ مذاکرات کا چھٹا دور جاری ہے۔ يہ مذاکراتی عمل پچھلے سال سے جاری ہے۔ خليل زاد کی سربراہی ميں ان مذاکرات ميں افغانستان سے امريکی افواج کے انخلاء کے ٹائم ٹيبل پر توجہ مرکوز رہی ہے۔ امريکا اس امر کی يقين دہانی بھی چاہتا ہے کہ طالبان دہشت گردوں کو پناہ فراہم نہيں کريں گے اور يہ بھی کہ وہ ’اسلامک اسٹيٹ‘ کے خلاف لڑائی ميں بھی مدد فراہم کريں گے۔ شام اور عراق ميں شکست کے بعد ديگر کئی خطوں کے علاوہ داعش مشرقی افغانستان ميں بھی اپنے قدم جمانے کی کوششوں ميں ہے۔
مذاکراتی عمل سے واقف ديگر طالبان اہلکاروں نے قبل ازيں بتايا تھا کہ امريکا کو افغانستان ميں تعينات اپنے قريب چودہ ہزار فوجيوں کے انخلاء کا عمل مکمل کرنے کے ليے ڈيڑھ سال تک کا وقت درکار ہے۔ اس کے برعکس طالبان کا مطالبہ ہے کہ يہ عمل چھ ماہ ميں مکمل کيا جائے۔ فی الحال يہ واضح نہيں کہ سہيل شاہين جن نئی تجاويز کا ذکر کر رہے ہيں، ان ميں اس مدت کے بارے ميں کيا پيش رفت ہے۔
دريں اثناء امن مذاکرات کے تازہ دور کے آغاز سے قبل خليل زاد نے اپنے ايک ٹوئٹر پيغام ميں عنديہ ديا تھا کہ بات چيت کی توجہ افواج کے انخلاء، انسداد دہشت گردی کی يقين دہانی، افغانستان ميں داخلی سطح پر مذاکرات اور تشدد ميں کمی لانے پر مرکوز رہے گی۔ واضح رہے کہ مذاکراتی عمل کے باوجود طالبان نے اپنے حملوں اور پر تشدد کارروائنوں کا سلسلہ ترک نہيں کيا ہے۔
طالبان کے دور اقتدار میں افغانستان میں خواتین کا گھروں سے باہر نکلتے واقت برقع پہننا لازمی تھا۔ لیکن ایک ایسا وقت بھی تھا جب افغان خواتین کھلے عام مغربی لباس پہننا پسند کرتی تھیں جیسا کہ ان تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpaیہ تصویر سن 1962 میں لی گئی تھی۔ اس میں کابل یونیورسٹی کی میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے والی طالبات کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اس وقت خواتین افغان معاشرے میں اہم کردار ادا کرتی تھیں۔ خواتین کو تعلیمی سہولیات میسر تھیں اور وہ گھروں سے باہر نکل کر کام کر سکتی تھیں۔
تصویر: Getty Images/AFPاس تصویر میں کابل ریڈیو کی عمارت کے باہر دو خواتین کو مغربی لباس پہنے دیکھا جا سکتا ہے۔ بنیاد پرست طالبان کی قیادت کے دوران خواتین برقعے کے بغیر گھروں سے باہر نہیں دیکھی جا سکتی تھیں۔ یہ تصویر سن 1962 میں لی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpaستر کی دہائی کے دوران کابل کی پولی ٹیکنک یونیورسٹی میں طالبات کو دیکھے جانا ایک عام سی بات تھی۔ اب لگ بھگ 40 برس بعد تنازعات کے شکار اس ملک میں خواتین کے لیے تعلیم کا حصول مشکل ہے۔ افغانستان کے سن 2003 کے آئین کے مطابق لڑکے اور لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے کے برابر حقوق حاصل ہیں۔
تصویر: Getty Images/Hulton Archive/Zh. Angelovاس تصویر میں ایک سوویت استاد کابل کے پولی ٹیکنک ادارے میں افغان طلبہ کو پڑھاتی نظر آرہی ہیں۔ سن 1979 سے 1989ء تک جب افغانستان پر سوویت یونین کا قبضہ تھا، کئی سویت اساتذہ افغانستان کے تعلیمی اداروں میں پڑھاتے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFPسن 1981 میں لی گئی اس تصویر میں کابل میں مرد اور خواتین طلبہ کو ساتھ دیکھا جاسکتا ہے۔ سن 1979 میں افغانستان پر سوویت یونین کے قبضے کے بعد افغانستان میں دس سالہ طویل جنگ کا آغاز ہوا، جس کے نتیجے میں سن 1989 میں سوویت یونین نے افغانستان سے انخلاء کر لیا۔ ملک میں خانہ جنگی کی صورتحال رہی جس کے نتیجے میں سن 1996 میں طالبان کو اس ملک کی قیادت مل گئی۔
تصویر: Getty Images/AFPاس تصویر میں افغانستان میں سوویت تسلط کے دور میں افغان لڑکیوں کو ایک سیکنڈری اسکول میں دیکھا جا سکتا ہے۔ طالبان دور حکومت میں لڑکیوں کی تعلیم پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFPسن 1981 میں لی گئی اس تصویر میں ایک خاتون دوپٹہ اوڑھے بغیر اپنے بچوں کے ساتھ دیکھی جا سکتی ہیں۔ طالبان کے دور کا اختتام تو ہو چکا ہے لیکن افغان معاشرے میں آج بھی خواتین اس پدارانہ معاشرے میں اپنا مقام حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔.
تصویر: Getty Images/AFP ع س / ا ا، نيوز ايجنسياں