امريکی اہلکاروں نے مطلع کيا ہے کہ افغان صوبے لوگر ميں ايک امريکی ڈرون حملے ميں تيرہ شہريوں کی ہلاکت کے واقعے کی باقاعدہ طور پر تحقيقات شروع کر دی ہيں۔ افغانستان ميں تعينات امريکی کمان کی جانب سے بدھ کی شب جاری کردہ بيان ميں کہا گيا ہے کہ امريکی افواج شہريوں کی جانوں کے ضياع سے بچنے کے ليے ہر ممکن کوشش کرتی ہے اور اس مخصوص واقعے کے حقائق جاننے کے ليے افغان حکام کے ساتھ کام جاری ہے۔
افغان حکام نے دعویٰ کيا ہے کہ طالبان عسکريت پسندوں کے خلاف کيے گئے ايک امريکی ڈرون حملے ميں ايک ہی خاندان کے تيرہ ارکان ہلاک جبکہ پندرہ ديگر شہری زخمی ہو گئے ہيں۔ يہ حملہ صوبہ لوگر ميں دشت باری نامی ديہات کے ايک مکان پر بدھ کے روز کيا گيا، جس ميں قريب ايک درجن عسکريت پسند بھی مارے گئے۔ واقعے کی تفصيلات بيان کرتے ہوئے صوبائی گورنر کے ترجمان سليم صالح نے بتايا کہ پہلے طالبان باغيوں نے امريکی افواج پر حملہ کيا۔ فوجيوں کی جوابی کارروائی کے نتيجے ميں عسکريت پسندوں نے ايک مکان ميں پناہ لی۔ بعد ازاں فضائی مدد طلب کی گئی، جس کی کارروائی ميں پھر ہلاکتيں رپورٹ کی گئيں۔ سليم صالح نے مزيد بتايا کہ ہلاک ہونے والے شہريوں ميں زيادہ تر عورتيں اور بچے شامل تھے۔
يہ امر اہم ہے کہ اکتوبر سن 2001 سے افغانستان ميں طالبان کے خلاف جاری اس جنگ ميں ہزارہا افغان شہری مارے جا چکے ہيں۔ رواں سال کو شہريوں کی ہلاکت يا زخمی ہونے کے حوالے سے بد ترين سال قرار ديا جا رہا ہے۔ پہلے چھ ماہ ميں 1,662 سويلين ہلاک اور ساڑھے تين ہزار کے لگ بھگ زخمی ہو چکے ہيں۔ اقوام متحدہ کی ايک رپورٹ کے مطابق افغانستان ميں ہونے والی مجموعی ہلاکتوں ميں شہريوں کا تناسب بيس فيصد ہے۔
طالبان کے دور اقتدار میں افغانستان میں خواتین کا گھروں سے باہر نکلتے واقت برقع پہننا لازمی تھا۔ لیکن ایک ایسا وقت بھی تھا جب افغان خواتین کھلے عام مغربی لباس پہننا پسند کرتی تھیں جیسا کہ ان تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpaیہ تصویر سن 1962 میں لی گئی تھی۔ اس میں کابل یونیورسٹی کی میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے والی طالبات کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اس وقت خواتین افغان معاشرے میں اہم کردار ادا کرتی تھیں۔ خواتین کو تعلیمی سہولیات میسر تھیں اور وہ گھروں سے باہر نکل کر کام کر سکتی تھیں۔
تصویر: Getty Images/AFPاس تصویر میں کابل ریڈیو کی عمارت کے باہر دو خواتین کو مغربی لباس پہنے دیکھا جا سکتا ہے۔ بنیاد پرست طالبان کی قیادت کے دوران خواتین برقعے کے بغیر گھروں سے باہر نہیں دیکھی جا سکتی تھیں۔ یہ تصویر سن 1962 میں لی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpaستر کی دہائی کے دوران کابل کی پولی ٹیکنک یونیورسٹی میں طالبات کو دیکھے جانا ایک عام سی بات تھی۔ اب لگ بھگ 40 برس بعد تنازعات کے شکار اس ملک میں خواتین کے لیے تعلیم کا حصول مشکل ہے۔ افغانستان کے سن 2003 کے آئین کے مطابق لڑکے اور لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے کے برابر حقوق حاصل ہیں۔
تصویر: Getty Images/Hulton Archive/Zh. Angelovاس تصویر میں ایک سوویت استاد کابل کے پولی ٹیکنک ادارے میں افغان طلبہ کو پڑھاتی نظر آرہی ہیں۔ سن 1979 سے 1989ء تک جب افغانستان پر سوویت یونین کا قبضہ تھا، کئی سویت اساتذہ افغانستان کے تعلیمی اداروں میں پڑھاتے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFPسن 1981 میں لی گئی اس تصویر میں کابل میں مرد اور خواتین طلبہ کو ساتھ دیکھا جاسکتا ہے۔ سن 1979 میں افغانستان پر سوویت یونین کے قبضے کے بعد افغانستان میں دس سالہ طویل جنگ کا آغاز ہوا، جس کے نتیجے میں سن 1989 میں سوویت یونین نے افغانستان سے انخلاء کر لیا۔ ملک میں خانہ جنگی کی صورتحال رہی جس کے نتیجے میں سن 1996 میں طالبان کو اس ملک کی قیادت مل گئی۔
تصویر: Getty Images/AFPاس تصویر میں افغانستان میں سوویت تسلط کے دور میں افغان لڑکیوں کو ایک سیکنڈری اسکول میں دیکھا جا سکتا ہے۔ طالبان دور حکومت میں لڑکیوں کی تعلیم پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFPسن 1981 میں لی گئی اس تصویر میں ایک خاتون دوپٹہ اوڑھے بغیر اپنے بچوں کے ساتھ دیکھی جا سکتی ہیں۔ طالبان کے دور کا اختتام تو ہو چکا ہے لیکن افغان معاشرے میں آج بھی خواتین اس پدارانہ معاشرے میں اپنا مقام حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔.
تصویر: Getty Images/AFP