امریکا، افغان فورسز میں بچہ بازی کے خلاف سخت اقدام اٹھائے گا
2 ستمبر 2016ان قانون سازوں نےانسانی حقوق سے متعلق ایک قانون کا حوالہ بھی دیا ہے جس کے تحت ایسی خلاف ورزیاں کرنے والے غیر ملکی فوجی دستوں کو دی جانے والی امریکی امداد روک لی جاتی ہے۔ یہ مطالبہ رواں برس جون میں خبر رساں ادارے اے ایف پی کی جانب سے شائع کی جانے والی اس خبر کے تناظر میں کیا گیا ہے جس میں بتایا گیا تھا کہ طالبان جنسی غلامی پر مجبور کیے جانے و الے بچوں کو افغانستان کے غیر مستحکم جنوبی علاقوں میں پولیس پرخونریز حملے کرنے میں استعمال کر رہے ہیں۔
اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق خاص طور پر اروزگان صوبے میں طالبان ’بچہ بازی‘ کا شکار ہونے والے لڑکوں سے رابطے کرتے تھے اور پھر ان بچوں کو انہی افراد پر حملہ کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا جنہوں نے ان سے جنسی تفریح حاصل کی ہوتی تھی۔ اس رپورٹ کے سامنے آنے کے بعد امریکی کانگریس کے رکن ڈنکن ہنٹر نے امریکی سیکرٹری دفاع ایشٹن کارٹر سے افغانستان میں امریکی فوج کی موجودگی میں بچوں کے ریپ کے خلاف سخت اقدامات اٹھانے کا مطالبہ کیا۔
امریکی محکمہ دفاع نے گزشتہ ہفتے ہنٹر کو ان کے مطالبے کے جواب میں خط تحریر کیا ہے جس کے مطابق اس جرم کے مرتکب افراد سے سختی سے نمٹا جائے گا۔ خط میں مزید کہا گیا ہے کہ افغانستان میں امریکی کمانڈر جنرل جان نکلسن نے اس بات کی یقین دہانی کرائی ہے کہ افغانستان میں تعینات امریکی فوجی اہلکار افغان فوجیوں کی جانب سے بچہ بازی یا انسانی حقوق کی کسی دوسری خلاف ورزی میں ملوث ہونے کے شبے پر فوری طور پر افغان حکام کو اطلاع دینے کے پابند ہوں گے۔
ڈنکن ہنٹر نے اس ہفتے اے ایف پی سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ امریکا کو اس حوالے سے سرکاری پالیسی اپناتے ہوئے واضح بیان دینا چاہیے کہ امریکی افواج کی افغانستان میں موجودگی کے دوران بچوں سے جنسی زیادتی کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔ افغانستان میں بچوں سے جنسی زیادتی کے خلاف اسی قسم کے مطالبات کی بازگشت دیگر امریکی قانون سازوں کی طرف سے بھی سنائی دی تھی جنہوں نے واچ ڈاگ ایجنسی 'SIGAR' سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ افغان فورسز میں بچہ بازی کے واقعات کی آزادانہ تحقیقات کرے۔ سگار کی طرف سے کی جانے والی تحقیقات ابھی جاری ہیں۔
افغانستان میں بچوں کو جنسی تفریح کے لیے استعمال کرنے یعنی ’’بچہ بازی‘‘ کی ثقافت بہت پرانی ہے اور اسے انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزی تصور کیا جاتا ہے۔ بچہ بازی میں کم عمر لڑکوں کو اکثر خواتین کے کپڑے پہنا کر مردوں کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ یہ بچے محفلوں کی زینت بنتے ہیں اور بعد میں مرد حضرات ان کے ساتھ جنسی زیادتی کرتے ہیں۔ اس کام کے لیے تیرہ سے لے سترہ سال تک کے بچے منتخب کیے جاتے ہیں۔
رواں برس جون میں شائع ہونے والی اے ایف پی کی ایک رپورٹ میں طالبان پر جنسی استحصال کا شکار بچوں کو استعمال کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ کابل حکومت نے پولیس کی جانب سے بچوں کو باقاعدگی کے ساتھ جنسی غلام بنائے جانے سے متعلق خبروں کی ’مکمل تحقیقات‘ کا حکم بھی دیا تھا تاہم اب تک بچہ بازی کے خلاف قانون پاس نہیں کیا جا سکا۔