امریکا اقوام متحدہ کے انسانی حقوق سے متعلق ادارے ہیومین رائٹس کونسل میں اپنی شمولیت کے منصوبے کا آج اعلان کرنے والا ہے۔ ٹرمپ نے اسرائیل کے ساتھ تعصب برتنے کا الزام عائد کرتے ہوئے اس ادارے سے امریکا کو الگ کر لیا تھا۔
تصویر: Saul Loeb/AFP/Getty Images
اشتہار
نئی امریکی انتظامیہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ایک اور پالیسی سے انحراف کرتے ہوئے اس ہفتے انسانی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کے اہم ادارے 'ہیومین رائٹس کونسل' میں اپنی دوبارہ شمولیت کے منصوبوں کا اعلان کریگا۔ ٹرمپ انتظامیہ نے اسرائیلی حکومت کے ساتھ تعصب برتنے کا الزام عائد کرتے ہوئے جینیوا میں واقع اس عالمی ادارے سے امریکا کو الگ کر لیا تھا۔
انسانی حقوق سے متعلق اس ادارے میں چین، کیوبا، ایریٹیریا، روس اور وینزویلا جیسے ممالک بھی شامل ہیں جن پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزام عائد ہوتے رہے ہیں۔
امریکا کی اثر و رسوخ واپس حاصل کرنے کی کوشش ہے
اطلاعات کے مطابق امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکین پیر آٹھ فروری کو اس ادارے میں دوبارہ بطور آبزور شامل ہونے کا اعلان کریں گے تاکہ مستقبل میں انتخابات کے ذریعے مکمل رکنیت حاصل کی جا سکے۔
خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق صدر بائیڈن کی انتظامیہ چاہتی ہے کہ وہ ہیومن رائٹس کونسل کے موجودہ اراکین آسٹریا، ڈنمارک اور اٹلی جیسے یورپی ممالک میں سے کسی ایک کی نشست کو حاصل کر سکے۔ اس برس کے اواخر میں ایسے چند ممالک کی رکنیت کی معیاد ختم ہو رہی ہے جس کے بعد اس کے انتخابات ہونے ہیں۔
تصویر: Tom Brenner/REUTERS
امریکی وزارت خارجہ کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے، '' ہم جانتے ہیں کہ کونسل پوری دنیا میں ظلم اور نا انصافی کا مقابلہ کرنے والوں کے لیے ایک اہم فورم کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کی میز پر موجود رہ کر ہم اس میں اصلاحات لانے کی کوشش کرتے ہیں اور اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ وہ اپنی استعداد کے مطابق کام کرسکے۔''
ہیومین رائٹس کونسل کا طریقہ کار
ہیومین رائٹس کونسل کی جنرل اسمبلی کے 193 ارکان اس برس کے اواخر میں اسمبلی کے لیے نئے اراکین کا انتخاب کریں گے۔ یہ اراکین تین برس کی معیاد کے لیے منتخب کیے جاتے ہیں اور کوئی بھی دو بار سے زیادہ مسلسل طور پر اس کا ممبر نہیں رہ سکتا۔ اس میں تمام علاقوں کی مناسب نمائندگی کے لیے ہر خطے کے ممالک کو منتخب کیا جاتا ہے تاکہ سبھی کی برابر نمائندگی ہو سکے۔
اقوام متحدہ کے سابق سکریٹری جنرل کوفی عنان نے اپنے دور میں کافی اصلاحات کی تھیں اور انہیں کے دور میں انسانی حقوق سے متعلق کونسل کا قیام عمل میں آیا تھا۔ اس سے پہلے 'ہیومین رائٹس کمیشن' نامی ایک ادارہ ہوا کرتا تھا جس پر سیاسی شعبدہ بازی اور غیر موثر ہونے کے الزامات لگتے رہتے تھے۔
اشتہار
بائیڈن ٹرمپ کی پالیسیوں پر نظر ثانی کر رہے ہیں
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی، ''امریکا پہلے'' کی پالیسی کے تحت اس ادارے سے امریکا کو الگ کرلیا تھا۔ انہوں نے اسی پالیسی کے تحت ماحولیات سے متعلق پیرس معاہدے، ایران کے ساتھ جوہری معاہدے، عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او، اور یونیسکو سے بھی امریکا کو الگ کرلیا تھا۔
لیکن عہدہ صدارت سنبھالنے کے فوراً بعد صدر جو بائیڈن نے پیرس معاہدے اور ڈبلیو ایچ او میں جہاں واپسی کا اعلان کیا وہیں ایران کے ساتھ جوہری معاہدے اور یونیسکو میں واپسی کا بھی اشارہ دیا ہے۔
ص ز/ ج ا (اے پی، روئٹرز)
امریکی جمہوری تاریخ کا بدنما داغ، دنیا حیران
گزشتہ روز واشنگٹن میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سینکڑوں حامیوں نے ملکی کانگریس کی کیپیٹل ہل کہلانے والی عمارت پر دھاوا بول دیا تھا۔ یہ مشتعل افراد اس وقت اس عمارت میں گھس گئے تھے، جب وہاں کانگریس کا اجلاس جاری تھا۔
تصویر: Leah Millis/REUTERS
پولیس کے مطابق پارلیمانی عمارت میں بدامنی کے دوران چار افراد مارے گئے۔ ان میں سے ایک شخص گولی لگنے سے ہلاک ہوا۔ باقی تین افراد کی موت کی وجہ میڈیکل ایمرجنسی بتائی گئی ہے۔
تصویر: Win McNamee/Getty Images
اس سے قبل ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس کے قریب نکالے جانی والی ایک ریلی کے شرکاء سے کیپیٹل ہل کی جانب مارچ کرنے کا کہا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ ایک موقع پر وہ بھی کیپیٹل ہل میں ان کے ساتھ شریک ہو جائیں گے۔ اس موقع پر ان کے الفاظ اور انداز انتہائی اشتعال انگیز تھا۔
تصویر: Roberto Schmidt/AFP/Getty Images
بعدازاں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کیپیٹل ہل پر دھاوا بولنے والے اپنے حامیوں سے گھر واپس چلے جانے کے لیے کہا۔ ٹرمپ نے ان افراد کو پر امن رہنے کی تلقین کرتے ہوئے ہنگامہ آرائی کے باوجود ان کے اس مشن کی پذیرائی بھی کی۔ یہ افراد ٹرمپ کی صدارتی انتخابات میں شکست پر احتجاج کر رہے تھے۔
تصویر: J. Scott Applewhite/AP Photo/picture alliance
نو منتخب امریکی صدر جو بائیڈن نے امریکی پارلیمان کی عمارت کیپیٹل ہل پر دھاوے پر تنقید کرتے ہوئے کہا، ’’یہ حملہ اس مقدس امریکی عمارت پر ہے، جو عوام کے لیے کام کرتی ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ یہ احتجاج نہیں بلکہ بغاوت ہے۔
تصویر: Manuel Balce Ceneta/AP Photo/picture alliance
اس بدامنی میں ملوث باون افراد کو گرفتار بھی کر لیا گیا۔ اب اس عمارت کو مظاہرین سے خالی کروا لیا گیا ہے۔ امریکی جمہوری تاریخ میں ایسا کوئی واقع پہلی مرتبہ پیش آیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اسے امریکی تاریخ کا ’برا ترین دن‘ قرار دیا جا رہا ہے۔
تصویر: Win McNamee/Getty Images
سابق صدر باراک اوباما نے اس پرتشدد واقعے کی ذمہ داری صدر ٹرمپ پر عائد کرتے ہوئے کہا، ’’یہ ہماری قوم کے لیے بے عزتی اور بے شرمی کا لمحہ ہے۔‘‘
تصویر: Win McNamee/Getty Images
امریکا میں عنقریب اپنے عہدے سے رخصت ہونے والے ریپبلکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سینکڑوں حامیوں کی طرف سے کیپیٹل ہل میں بدامنی کے واقعے کی بین الاقوامی سطح پر مذمت کرتے ہوئے اس پر افسوس کا اظہار کیا گیا ہے۔
تصویر: Andrew Harnik/AP Photo/picture alliance
جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے کہا کہ ٹرمپ اور ان کے حامیوں کو ’جمہوریت کو پاؤں تلے کچلنے‘ کا عمل بند کر دینا چاہیے۔
تصویر: Saul Loeb/AFP/Getty Images
برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے امریکی کانگریس کی عمارت میں پیش آنے والے واقعات کو شرمناک قرار دیتے ہوئے ان کی مذمت کی۔
تصویر: Win McNamee/Getty Images
اسی طرح یورپی یونین کے خارجہ امور کے نگران اعلیٰ ترین عہدیدار یوزیپ بورَیل نے کہا کہ امریکا ایسے واقعات جیسا تو نہیں ہے۔
تصویر: Andrew Caballero-Reynolds/AFP/Getty Images
آسٹرین چانسلر سباستیان کُرس نے بھی کیپیٹل ہل پر دھاوا بولے جانے پر صدمے کا اظہار کرتے ہوئے اس بدامنی کی مذمت کی۔
تصویر: Leah Millis/REUTERS
اس واقعے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ معمول کے مطابق اقتدار نو منتخب صدر جو بائیڈن کے حوالے کر دیں گے۔ تاہم انہوں نے ابھی تک گزشتہ روز کے واقعے کی مذمت نہیں کی۔