امریکا اور اسرائیل کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے، ایرانی رہنما
22 اگست 2018
ایرانی اعلیٰ مذہبی رہنما احمد خاتمی نے خبردار کیا ہے کہ واشنگٹن نے حملہ کیا تو امریکا اور اس کے اتحادی ملک اسرائیل کو نشانہ بنایا جائے گا۔ امریکی پابندیوں کی بحالی کے بعد ان دونوں ممالک میں لفظوں کی جنگ شدید ہو چکی ہے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے روئٹرز نے ایرانی اعلیٰ مذہبی رہنما احمد خاتمی کے حوالے سے بتایا ہے کہ اگر امریکا نے ایران پر حملہ کیا تو اس کے جواب میں امریکا اور اس کے اتحادی اسرائیل کو نشانہ بنایا جائے گا۔
عید الاضحیٰ کی نماز کے بعد خاتمی نے ایران میں اپنے ایک عوامی خطاب میں مزید کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے ایرانی قیادت کے ساتھ مذاکرات ناقابل قبول ہیں۔ خاتمی کے بقول واشنگٹن کی خواہش ہے کہ ایران اپنا میزائل پروگرام ختم کر دے اور خطے میں اپنا اثرو رسوخ کھو دے۔
ایرانی میڈیا کے مطابق خاتمی نے اس خطاب میں مزید کہا،’’امریکا چاہتا ہے کہ مذاکرات میں وہ جو بھی کہے، اسے قبول کر لیا جائے۔ اس لیے یہ مذاکرات نہیں بلکہ آمرانہ رویہ ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران اور اس کی قوم اس طرح کی آمریت کے خلاف متحد رہے گی۔‘‘
انہوں نے خبردار کیا کہ ایران کے ساتھ جنگ شروع کرنے پر امریکا کو بھاری قیمت چکانا پڑے گی، ’’وہ جانتے ہیں کہ اگر انہوں نے ایران کو معمولی سا نقصان بھی پہنچایا تو اس کے جواب میں امریکا اور خطے میں اس کی اتحادی صیہونی ریاست (اسرائیل) کو نشانہ بنایا جائے گا۔‘‘
ایرانی صدر حسن روحانی اور سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ بھی حالیہ دنوں میں امریکا کے خلاف بیانات دے چکے ہیں۔ ادھر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی لفظوں کی جنگ کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ دریں اثنا یورپی ممالک کی کوشش ہے کہ اس تناؤ کو ختم کیا جائے اور عالمی جوہری ڈیل کو بچانے کی کوشش کی جائے۔
امریکا کی طرف سے ایران اور عالمی طاقتوں کے مابین سن دو ہزار پندرہ میں طے پائے جانے والے تاریخی جوہری معاہدے سے دستبرداری کے بعد حالیہ مہینے ہی ایران پر پابندیاں بحال کی گئی ہیں۔
امریکی صدر ٹرمپ کے مطابق سابق صدر باراک اوباما کے دور میں طے پانے والی یہ ڈیل درست نہیں تھی اور اس سے ایران کے جوہری ہتھیاروں کے حصول کے راستے نہیں روکے جا سکتے تھے۔
اسی ہفتے امریکی صدر ٹرمپ کے قومی سلامتی کے مشیر نے کہا ہے کہ وائٹ ہاؤس ایران پر زیادہ سے زیادہ دباؤ برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ جان بولٹن نے کہا تھا کہ وہ اس معاملے کو پرامن طریقے سے حل کرنے کے لیے پرعزم ہیں لیکن اگر ایران کی طرف سے صورتحال خراب کی گئی تو اس کے جواب میں تمام آپشن کھلے ہیں۔
ع ب / ع ا / خبر رساں ادارے
ایرانی انقلاب سے لے کر اب تک کے اہم واقعات، مختصر تاریخ
جنوری سن 1979 میں کئی ماہ تک جاری رہنے والی تحریک کے بعد ایرانی بادشاہ محمد رضا پہلوی کے اقتدار کا خاتمہ ہوا۔ تب سے اب تک ایرانی تاریخ کے کچھ اہم واقعات پر ایک نظر اس پکچر گیلری میں۔
تصویر: takhtejamshidcup
16 جنوری 1979
کئی ماہ تک جاری مظاہروں کے بعد امریکی حمایت یافتہ رضا پہلوی ایران چھوڑ کر چلے گئے۔ یکم فروری کے روز آیت اللہ خمینی واپس ایران پہنچے اور یکم اپریل سن 1979 کو اسلامی ریاست کے قیام کا اعلان کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AFP/G. Duval
4 نومبر 1979
اس روز خمینی کے حامی ایرانی طلبا نے تہران میں امریکی سفارت خانہ پر حملہ کر کے 52 امریکیوں کو یرغمال بنا لیا۔ طلبا کا یہ گروہ امریکا سے رضا پہلوی کی ایران واپسی کا مطالبہ کر رہے تھے۔ ان مغویوں کو 444 دن بعد اکیس جنوری سن 1981 کو رہائی ملی۔
تصویر: picture-alliance/AP Images/M. Lipchitz
22 ستمبر 1980
عراقی فوجوں نے ایران پر حملہ کر دیا۔ یہ جنگ آٹھ برس تک جاری رہی اور کم از کم ایک ملین انسان ہلاک ہوئے۔ اقوام متحدہ کی کوششوں سے بیس اگست سن 1988 کے روز جنگ بندی عمل میں آئی۔
تصویر: picture-alliance/Bildarchiv
3 جون 1989
خمینی انتقال کر گئے اور ان کی جگہ علی خامنہ ای کو سپریم لیڈر بنا دیا گیا۔ خامنہ سن 1981 سے صدر کے عہدے پر براجمان تھے۔ صدر کا انتخاب نسبتا روشن خیال اکبر ہاشمی رفسنجانی نے جیتا اور وہ سن 1993 میں دوبارہ صدارتی انتخابات بھی جیت گئے۔ رفسنجانی نے بطور صدر زیادہ توجہ ایران عراق جنگ کے خاتمے کے بعد ملکی تعمیر نو پر دی۔
تصویر: Fararu.com
23 مئی 1997
رفسنجانی کے اصلاح پسند جانشین محمد خاتمی قدامت پسندوں کو شکست دے کر ملکی صدر منتخب ہوئے۔ وہ دوبارہ سن 2001 دوسری مدت کے لیے بھی صدر منتخب ہوئے۔ انہی کے دور اقتدار میں ہزاروں ایرانی طلبا نے ملک میں سیکولر جمہوری اقدار کے لیے مظاہرے کیے۔ سن 1999 میں ہونے والے ان مظاہروں میں کئی طلبا ہلاک بھی ہوئے۔
تصویر: ISNA
29 جنوری 2002
امریکی صدر جارج ڈبلیو بش جونیئر نے ایران کو عراق اور شمالی کوریا کے ساتھ ’بدی کا محور‘ قرار دیا۔ امریکا نے ایران پر مکمل تجارتی اور اقتصادی پابندیاں سن 1995 ہی سے عائد کر رکھی تھیں۔
تصویر: Getty Images
25 جون 2005
قدامت پسند سیاست دان محمود احمدی نژاد ایرانی صدر منتخب ہوئے۔ اگست میں انہوں نے کہا کہ ’اسرائیل کو دنیا کے نقشے سے مٹا دینا چاہیے‘ اور انہی کے دور اقتدار میں ایرانی ایٹمی پروگرام تیزی سے بڑھایا گیا۔ سن 2009 میں وہ دوسری مرتبہ صدر منتخب ہوئے تو ملک گیر سطح پر اصلاح پسند ایرانیوں نے احتجاج شروع کیا جس کے بعد ایران میں ایک بحرانی صورت حال بھی پیدا ہوئی۔
تصویر: Fars
25 جون 2005
قدامت پسند سیاست دان محمود احمدی نژاد ایرانی صدر منتخب ہوئے۔ اگست میں انہوں نے کہا کہ ’اسرائیل کو دنیا کے نقشے سے مٹا دینا چاہیے‘ اور انہی کے دور اقتدار میں ایرانی ایٹمی پروگرام تیزی سے بڑھایا گیا۔ سن 2009 میں وہ دوسری مرتبہ صدر منتخب ہوئے تو ملک گیر سطح پر اصلاح پسند ایرانیوں نے احتجاج شروع کیا جس کے بعد ایران میں ایک بحرانی صورت حال بھی پیدا ہوئی۔
تصویر: Reuters/Tima
جنوری 2016
خطے میں ایرانی حریف سعودی عرب نے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر دیے جس کا سبب ایران کی جانب سے سعودی عرب میں شیعہ رہنما شیخ نمر کو پھانسی دیے جانے پر تنقید تھی۔ سعودی عرب نے ایران پر شام اور یمن سمیت عرب ممالک کے معاملات میں مداخلت کا الزام بھی عائد کیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Kenare
19 مئی 2017
اصلاح پسند حلقوں اور نوجوانوں کی حمایت سے حسن روحانی دوبارہ ایرانی صدر منتخب ہوئے اور اسی برس نئے امریکی صدر ٹرمپ نے جوہری معاہدے کی ’تصدیق‘ سے انکار کیا۔ حسن روحانی پر اصلاحات کے وعدے پورے نہ کرنے پر تنقید کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا اور اٹھائیس دسمبر کو پر تشدد مظاہرے شروع ہو گئے جن میں اکیس ایرانی شہری ہلاک ہوئے۔