اقوام متحدہ کے ثقافتی، سائنسی و تعلیمی ادارے یونیسکو سے امریکا اور اسرائیل نے علیحدگی اختیار کرنے کا اعلان کیا ہے۔ دوسری جانب اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے امریکا کے ساتھ رابطے اور کام جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔
اشتہار
امریکا نے اقوام متحدہ کے ثقافتی، سائنسی، اور تعلیمی ادارے یونیسکو پرجانبدارنہ رویہ اپنانے اور اس میں انتظامی اصلاحات میں ناکامی پر علیحدگی اختیار کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس اعلان کے ساتھ ہی واشنگٹن نے یونیسکو کی مالی معاونت بھی معطل کر دی ہے۔ امریکی اعلان کے بعد اسرائیل نے بھی اس ادارے کو خیرباد کہنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان دونوں ملکوں کے فیصلے پر بعض ملکوں کی جانب سے تشویش اور افسوس کا اظہار کیا گیا ہے۔
امریکی وزارت خارجہ کی جانب سے کہا گیا کہ یونیسکو سے علیحدگی اختیار کرنے کا فیصلے کوئی آسان عمل نہیں لیکن یہ اُس امریکی تشویش کو ظاہر کرتا ہے جو اس ادارے میں بنیادی تبدیلیوں سے متعلق ہے۔ اس بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ یونیسکو اسرائیل کے ساتھ متعصبانہ رویہ بھی رکھتا ہے۔ امریکا نے ادارے کے مالی معاملات پر بھی تشویش ظاہر کی ہے۔ اسرائیلی حکومت نے امریکی فیصلے کو جرات مندانہ اور اخلاقی اقدار مبنی قرار دیا ہے۔
یونیسکو کی سبکدوش ہونے والی سربراہ ایرینا بوکوفا نے امریکی فیصلے پرتاسف کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس سے ادارے کی کثیر القومی شناخت پر ضرب پڑے گی۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش نے بھی امریکی فیصلے پر گہرے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ بدستور صدر ٹرمپ کی انتظامیہ کے ساتھ روابط کو بحال اور برقرار رکھیں گے۔
روس کی وزارت خارجہ نے بھی واشنگٹن حکومت کے فیصلے پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب یونیسکو ایک مشکل صورت حال سے نبرد آزما ہے۔ اقوام متحدہ میں تعینات فرانسیسی سفیر کا کہنا ہے کہ یونیسکو کلچر، تعلیم اور سائنس کی تشہیر اور فروغ کا ادارہ ہے اور اس میں امریکا کی ضرورت ہے۔
سن 1984 میں امریکی صدر رونالڈ ریگن کے دور میں بھی امریکا یونیسکو میں مبینہ مالی بے ضابطگیوں اور امریکا مخالف پالیسوں پر علیحدگی اختیار کر چکا ہے۔ سن 2002 میں صدر جارج ڈبلیو بُش نے یونیسکو میں دوبارہ شمولیت کا فیصلہ کیا تھا۔ سن 2011 سے امریکا اور یونیسکو کے تعلقات میں بگاڑ اُس وقت پیدا ہونا شروع ہوا جب رکن ملکوں نے فلسطین کو ایک رکن کے طور پر منتخب کیا تھا۔
سن 2017 کے لیے یونیسکو کے عالمی ورثے کے مقامات
یونیسکو کی ورلڈ ہیریٹیج کمیٹی پولینڈ کے شہر کاراکوو میں میٹنگ جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس میٹنگ میں نئے مقامات کو عالمے ورثے میں شامل کیا گیا ہے۔ ان مقامات کی تفصیل تصاویر میں موجود ہے۔
تصویر: SCP/P.F. Amar
دساؤ کا باؤ ہاؤس طرز تعمیر کا اسکول
یونیسکو کی عالمی میراث میں باؤ ہاؤس طرز تعمیر کے اسکولوں میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔ رواں برس جرمنی کے شہر دساؤ میں واقع ایک اسکول کو ورلڈ ہیریٹیج میں شامل کیا گیا ہے۔ یہ اسکول باؤہاؤس کے دوسرے ڈائریکٹر ہانیس میئر کی نگرانی میں تعمیر کیا گیا تھا۔
تصویر: Stiftung Bauhaus Dessau/M. Brück
بیرناؤ کا اے ڈی جی بی ٹریڈ یونین اسکول
باؤ ہاؤس طرز تعمیر کے تحت یہ اسکول سن 1930 میں مکمل کیا گیا تھا۔ ہانیس میئر ہی کی رہنمائی میں اِس اسکول کی تعمیر مکمل کی گئی تھی۔ اس کی خاص بات یہ ہے کہ اسکول کی عمارت فطرت سے جدا دکھائی نہیں دیتی۔ بیرناؤ جرمن دارالحکومت برلن کے قریب واقع ہے۔
تصویر: Brenne Architekten
جرمنی: برفانی دور کے نقوش کی غاریں
جنوبی جرمنی کے سوابین الپس میں واقع چھ غاروں میں چالیس ہزار برس پرانے انسان کے نقش و نگار سن 1860 میں دریافت ہوئے تھے۔ ان نقوش کو انسانی تمدن کے اولین نشانات سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یہ جرمنی کا بیالیسواں مقام ہے، جو یونیسکو کی عالمی میراث کا حصہ بنایا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Puchner
اسمارا، اریٹیریا
افریقی ملکوں انگولا اور اریٹیریا کے دو مقامات کو یونیسکو کے عالمی ورثے میں شامل کیا گیا ہے، ان میں ایک قدیمی شہر امبنازا کونگو ہے اور دوسرا اریٹیریا کا دارالحکومت اسمارا ہے۔ اسمارا کا جدید طرز تعمیر اُسے عالمی میراث میں شامل کرنے کا باعث بنا ہے۔
تصویر: picture alliance/robertharding/M. Runkel
اٹلی، کروشیا اور مونٹی نیگرو کا قدیمی دفاعی نظام
پندرہویں صدی سے سترہویں صدی کے درمیان اٹلی، کروشیا اور مونٹی نیگرو کے قلعوں میں قائم کیا جانے والا دفاعی نظام حیران کن ہے۔ ان کے موجود اور محفوظ آثار کو عالمی میراث کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔
تصویر: Municipality of Palmanova
اوکینوشیما جزیرہ، جاپان
چوتھی صدی عیسوی سے نویں صدی تک یہ جاپانی جزیرہ کوریا اور جاپان کے درمیان سمندری گزرگاہ پر ایک رہنما چوکی تھی۔ اسی جزیرہ پر سمندری دیوتا کی پوجا کا مندربھی واقع ہے۔ اسے انتہائی مقدس مقام تصور کیا جاتا تھا اور یہاں اسی لیے غیرملکیوں کا داخلہ بھی بند تھا۔
تصویر: World Heritage Promotion Committee/IMAKI Hidekazu
کُولانگسُو، چین
چین کے کولانگسبو جزیرے کو عالمی میراث میں شامل کیے جانے کی وجہ اس کا بین الاقوامی روپ ہے کیونکہ یہ کئی مختلف حکمرانوں کے نشانات محفوظ کیے ہوئے ہے۔ یہ جزیرہ جنوب مشرقی چین کے بندرگاہی شہر شیامن کے قریبی سمندر میں واقع ہے۔
تصویر: Cultural Heritage Conservation Center of THAD/Qian Yi
ہوہ شِل کی قدرتی منظر گاہ، چین
چین کے چِنگاہی اور تبت کے سطح مرتفع میں 4800 میٹر کی بلندی پر واقع ہوہ شِل کا علاقہ انتہائی کم آبادی کا حامل ہے۔ اس پہاڑی خطے کو چینی حکومت نے سن 1995 سے محفوظ علاقہ قرار دے رکھا ہے۔ یونیسکو کی کمیٹی نے ارجنٹائن اور روس کے ایسے ہی محفوظ قدرتی علاقوں کو بھی عالمی میراث میں شامل کیا ہے۔
تصویر: Picture alliance/Photoshot/W. Bo
ٹاپوٹاپواٹیا، فرانس
فرانسیسی پولینیشیا کا علاقہ جنوبی بحرالکاہل میں واقع ہے۔ اس جزیرہ نما علاقے کا یہ شہر ٹاپوٹاپواٹیا ایک مقدس مقام ہے۔ ماضی میں اسی شہر میں دیوتا اورو کے نام پر انسان قربان کیے جاتے تھے۔
تصویر: SCP/P.F. Amar
کُوجاٹا، ڈنمارک
ڈنمارک کے علاقے گرین لینڈ کی انتہائی حد کُوجاٹا ہے۔ اس علاقے کے لوگوں نے ماحولیاتی تحفظ کے لیے صدیوں پرانی روایت کو برقرار رکھا ہوا ہے۔ یہ علاقہ نٰورسے اور اینُوئٹی لوگوں کا ہے۔
تصویر: Niels Christian Clemmensen/Christian K. Madsen
احمدآباد، بھارت
بھارت کے تاریخی شہر احمد آباد کے قدیمی حصے کو عالمی میراث کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔ یہ شہر بھارتی ریاست گجرات کا دارالحکومت بھی ہے۔ اس کے قدیمی حصے میں اٹھائیس عمارتیں خاص طور پر اہم تصور کی جاتی ہیں۔ ایران کے شہر یزد کے قدیمی حصے کو بھی عالمی ورثے میں شامل کیا گیا ہے۔
تصویر: picture alliance/robertharding/J.-H. Claude Wilson
کھومانی کا ثقافتی منظر، جنوبی افریقہ
جنوبی افریقہ کے شمال میں آباد قدیمی لوگ کھومانی کہلاتے ہیں۔ یہ علاقہ نمیبیا اور بوٹسوانا کے سرحدی علاقے کے قریب ہے۔ کھومانی لوگ پتھر کے دور سے اس علاقے میں آباد خیال کیے جاتے ہیں۔
تصویر: FOP Films/Francois Odendaal Productions
ہیبرون کا قدیمی علاقہ
فلسطینی علاقے ویسٹ بینک یا غرب اردن کے گنجانٓ آباد شہر ہیبرون یا الخیل کے قدیمی حصے کو بھی عالمی ورثے میں شامل کیا گیا ہے۔ اسی علاقے میں ابراہیمی مسجد مسلمانوں، مسیحیوں اور یہودیوں میں مقدس خیال کی جاتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/newscom/D. Hill
13 تصاویر1 | 13
یہ امر اہم ہے کہ امریکا اقوام متحدہ کی مالی معاونت کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ اس عالمی ادارے کے امن دستوں پر اٹھنے والے 7.3 بلین ڈالر میں سے 28.5 فیصد امریکا فراہم کرتا ہے اور 5.4 بلین ڈالر کے مساوی مرکزی بجٹ میں بھی امریکا کا حصہ بائیس فیصد ہے۔
جولیاں: پاکستان میں بدھ مت کی قدیم ترین یونیورسٹی
یونیسکو کی طرف سے عالمی ثقافتی ورثہ قرار دی گئی جولیاں کی قدیم بدھ خانقاہ اور یونیورسٹی کی تاریخی باقیات پاکستانی صوبے خیبر پختونخوا کے ضلع ہری پور میں محفوظ ہیں۔ جولیاں صوبہ پنجاب میں ٹیکسلا کے بہت ہی قریب واقع ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
گندھارا کی تہذیب
راولپنڈی کے قریب پوٹھوہار کے پہاڑی سلسلے میں ٹیکسلا اور صوبے خیبر پختونخوا کے ضلع ہری پور کے درمیان ایک نہر کے پاس لیکن ٹیکسلا کی وادی کے مقابلے میں تین سو فٹ کی بلندی پر واقع جولیاں میں بدھ مت کی قدیم ترین درس گاہ کی تاریخی باقیات گندھارا کی اس تہذیب کے بیش قیمت آثار ہیں، جس کا عرصہ سن پندرہ سو قبل از مسیح سے لے کر پانچویں صدی بعد از مسیح تک پھیلا ہوا تھا۔
تصویر: DW/I. Jabeen
عالمی ثقافتی ورثہ
پاکستان میں مختلف تہذیبوں اور ادوار کے متعدد مقامات کو یونیسکو نے اپنی عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل کر رکھا ہے۔ انہی میں ٹیکسلا بھی شامل ہے، جسے کسی ایک مقام کے طور پر نہیں بلکہ ایک وسیع و عریض کمپلیکس کے طور پر ورلڈ ہیریٹیج سینٹر نے انسانیت کے عالمگیر ثقافتی ورثے میں سن انیس سو اسی میں شامل کیا تھا۔ اس حوالے سے جولیاں کی بدھ خانقاہی درس گاہ ٹیکسلا کمپلیکس ہی کا حصہ سمجھی جاتی ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
بھکشو طلبہ کے کمرے
بدھ مت کی دنیا کی اس قدیم ترین خانقاہ اور یونیورسٹی کی عمارت کا ایک بڑا حصہ اس طرح کے پتھر کے بڑے بڑے ٹکڑوں اور مٹی سے بنائے گئے درجنوں ایسے چھوٹے چھوٹے کمروں پر مشتمل ہے، جن میں آج سے قریب سولہ سترہ صدیاں قبل وہاں مذہب، فلسفے اور روحانیت کی تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ رہا کرتے تھے۔ زمین سے کچھ اونچے بنائے گئے ان رہائشی کمروں میں سے اب کسی کی بھی چھت باقی نہیں لیکن دیواریں ابھی تک محفوظ ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
خانقاہ کا مرکزی استوپ
جولیاں کی خانقاہ میں درس گاہ کے طلبہ کے رہائشی کمروں اور ان کے نہانے کے لیے بنائے گئے وسطی تالاب سے کچھ دور اس یونیورسٹی کا ایک مرکزی استوپ یا بدھ اسٹُوپا تھا، جس کے ارد گرد بدھ بھکشو اور طلبہ عبادت کیا کرتے تھے۔ گزشتہ قریب ڈیڑھ دو ہزار سال کے دوران اس مرکزی استوپ کو تو بہت زیادہ نقصان پہنچا لیکن اس کے ارد گرد بنائے گئے اکیس چھوٹے چھوٹے استوپ آج بھی کافی بہتر حالت میں ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
اکیس ضمنی استوپ
مرکزی استوپ کے ارد گرد آج بھی اکیس ایسے ضمنی استوپوں کی باقیات موجود ہیں، جو مرکزی استوپ کے بعد وہاں بنائے گئے تھے۔ محکمہ آثار قدیمہ کی طرف سے ایک چھت کے ذریعے موسمی اثرات سے محفوظ کیے جانے کے بعد جولیاں کی بدھ خانقاہ کا یہ حصہ کچے فرش پر بنائے گئے ایسے استوپوں پر مشتمل ہے، جن پر مٹی اور گارے سے بنائی گئی مہاتما بدھ کی بہت سی چھوٹی بڑی شبیہات اور مجسمے آج بھی احترام و تقدیس کی عکاسی کرتے ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
مٹی اور پتھروں سے دیرپا تعمیر
یہ تصویر دکھاتی ہے کہ قریب دو ہزار سال پہلے بھی وہاں کے بدھ عقیدت مندوں نے کس طرح صرف پتھروں اور مٹی کا استعمال کرتے ہوئے یہ استوپ یوں تعمیر کیے کہ کئی تباہ کن زلزلوں اور صدیوں کی شکست و ریخت کے بعد وہ آج بھی متاثر کن حد تک اچھی حالت میں ہیں۔ پتھروں کے چوکور ڈھیر پر مٹی کے لیپ کے بعد ہاتھ سے بنائی گئی مہاتما بدھ کی شبیہات اور مجسمے اس روحانی سکون اور ذہنی توجہ کا نتیجہ ہیں، جو بدھ مت کا خاصا ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
طواف کے لیے راہداری
مرکزی استوپ کے ار گرد بنائے گئے درجنوں ضمنی استوپوں کو اس طرح تعمیر کیا گیا کہ تب وہاں سے گزرنے والے بھکشو ان استوپوں کے درمیان میں بن جانے والی تنگ راہداریوں سے گزرتے ہوئے مرکزی استوپ کا طواف کر سکتے تھے۔ ان راہداریوں میں جگہ جگہ نظر آنے والے مہاتما بدھ کے مجسموں میں سے اب بہت ہی کم اپنی مکمل حالت میں ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
بالائی منزل کو جانے والی سیڑھیاں
ایک خاص طرز تعمیر کے ساتھ اور بڑے متناسب انداز میں دوسری تیسری صدی بعد از مسیح میں تعمیر کی گئی یہ سیڑھیاں جولیاں کی خانقاہ اور یونیورسٹی کی اس بالائی منزل تک جاتی ہیں جہاں دائیں بائیں دونوں طرف عبادت کے لیے برآمدے موجود ہیں۔ خانقاہ کے تالاب میں نہا کر اور عبادت کے لیے بڑی تعظیم کے ساتھ قطار در قطار چلنے والے بدھ طلبہ اور بھکشو صبح شام انہی سیڑھیوں سے گزرا کرتے تھے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
’مہاتما بدھ کے دوست‘ کا عطیہ
خانقاہ میں مہاتما بدھ کا ایک ایسا خاص مجسمہ بھی ہے، جس میں انہیں عبادت کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ اسی لیے اس مجسمے کو ’محو عبادت مہاتما بدھ‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اس مجسمے کے نیچے لکھی گئی تحریر اس بدھ عقیدت مند کا نام ہے، جس نے یہ مجسمہ اس دور میں اس خانقاہ کو تحفے میں دیا تھا۔ یہ نام ’بدھا مترا دھرم آنند‘ ہے اور اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اس دور میں تحریری زبان بھی استعمال کی جاتی تھی۔
تصویر: DW/I. Jabeen
مکمل حالت میں مہاتما بدھ کے کئی مجسمے
اس تصویر میں ایک سے زائد تعمیراتی سطحوں والا ایک ایسا استوپ نظر آ رہا ہے، جس کی بیرونی دیوار پر بنے عبادت کرتے ہوئے مہاتما بدھ کے متعدد مجسمے اپنی مکمل اور اصلی حالت میں موجود ہیں۔ اس تصویر میں نظر آنے والے پینتالیس سالہ رفاقت بیگ ایک سائٹ اٹینڈنٹ ہیں، جو گزشتہ اٹھائیس برسوں سے وہاں سرکاری ملازم کے طور پر فرائض انجام دے رہے ہیں اور سیاحوں کے لیے گائیڈ کا کام بھی کرتے ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
طلبہ کا اسمبلی ہال
یہ جگہ طلبہ کے جمع ہونے کی جگہ تھی، جہاں ہر روز طلبہ تعلیم کے لیے اکٹھے ہوتے تھے۔ یہ اوپن ایئر برآمدہ کافی اچھی حالت میں ہے لیکن اگر وہاں لگائے گئے محکمہ آثار قدیمہ کے ٹوٹے ہوئے معلوماتی بورڈ کو دیکھا جائے تو علامتی طور پر یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں موجود یونیسکو کے تسلیم کردہ اس عالمی ثقافتی ورثے کا دھیان شاید اس سے زیادہ اچھی طرح رکھا جا سکتا تھا جیسا کہ اب تک رکھا جا رہا ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
نکاسی آب کا نظام
قریب دو ہزار سال قبل یہ جگہ اس خانقاہ میں رہنے والے بدھ عقیدت مندوں کے زیر استعمال آنے والے کھانا پکانے اور کھانے کے برتنوں کو دھونے کی جگہ تھی۔ اس سے متصل ایک باورچی خانہ تھا، جس کے ساتھ ہی طعام خانے کے مہتمم کے رہنے کا کمرہ ہوتا تھا۔
تصویر: DW/I. Jabeen
گندم پیسنے کی چکی
وہ پتھریلی چکی نظر آ رہی ہے، جسے استعال کرتے ہوئے خانقاہ کے رہائشیوں کے لیے گندم اور دیگر اجناس کو پیس کر روٹی کے لیے آٹا بنایا جاتا تھا۔ جولیاں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ جگہ درویشوں کے رہنے کی جگہ تھی۔ دستاویزی طور پر جولیاں کو اس کا موجودہ نام برطانوی نوآبادیاتی دور میں دیا گیا تھا، جب اس علاقے میں آثار قدیمہ کے انگریز ماہرین نے کھدائی کی تھی۔
تصویر: DW/I. Jabeen
مہاتما بدھ بطور مسیحا
یہ تصویر جولیاں کی عالمی ثقافتی میراث میں شامل تاریخی باقیات میں سے اہم ترین تاریخی نمونہ ہے۔ یہ مجمسہ ’شفا دینے والے مہاتما بدھ‘ یا Healing Buddha کا مجسمہ ہے، جو دنیا بھر میں مشہور ہے۔ یہاں آنے والے عقیدت مند اور مقامی طلبہ اس مجسمے کے ناف کے حصے والی جگہ پر بنے سوراخ میں اپنی دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی ڈال کر اپنے بیمار عزیز و اقارب کے لیے صحت کی دعا مانگا کرتے تھے۔