1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکا اور ترک تنازعہ، ٹرمپ کے رویے میں نرمی

15 جنوری 2019

امریکا اور ترک صدور نے کُرد ملیشیا ’وائی پی جی‘ کے موضوع پر اب ٹوئیٹر کی بجائے ٹیلیفون پر بات چیت کی ہے۔ ٹرمپ اور ایردوآن کے مابین اس گفتگو کے بعد ترکی کے حوالے سے امریکی رویے میں قدرے نرمی آئی ہے۔

Argentinien G20 Gipfel - Türkischer Präsident Erdogan und US-Präsident Trump
تصویر: picture-alliance/AA/Turkish Presidency/M. Cetinmuhurdar

ترک صدر رجب طیب ایردوآن اور ان کے امریکی ہم منصب ڈونلڈ ٹرمپ نے شام میں ’وائی پی جی‘ کے موضوع پر ٹیلیفون پر بات چیت کی ہے، جس کے بعد ٹرمپ کا دھمکی آمیز رویہ اب مصالحانہ طرز عمل میں تبدیل ہو گیا ہے۔

ٹرمپ نے آج اپنی ایک ٹوئیٹ میں کہا کہ ترکی کے ساتھ اقتصادی روابط میں فروغ کے وسیع امکانات موجود ہیں۔ اتوار کے روز اپنے ایک ٹوئیٹر پیغام میں ٹرمپ نے دھمکی دی تھی کہ اگر ترکی نے شام میں سرگرم کُرد ملیشیا ’وائی پی جی‘ کے خلاف فوجی کارروائی کی تو اسے اقتصادی طور پر تباہ کر دیا جائے گا۔

تصویر: picture-alliance/dpa/Le Pictorium/MAXPPP/C. Huby

تاہم اس دھمکی کے جواب میں ترک وزیر خارجہ مولود چاوش اولو نے کہا تھا کہ ترکی شام میں کُرد ملیشیا ’وائی پی جی‘ کے خلاف کارروائیاں جاری رکھے گا اور کسی کی دھونس و دھمکی میں نہیں آئے گا۔

ان کے بقول وہ شمالی شام میں صدر ٹرمپ کی محفوظ علاقے کے قیام کی تجویز کی حمایت کرتے ہیں۔ ’وائی پی جی‘ کا موضوع گزشتہ کئی برسوں سے امریکا اور ترکی کے مابین وجہ تنازعہ بنا ہوا ہے۔

ترک صدر کے ترجمان کے مطابق، ’’دہشت گرد آپ کے ساتھی اور اتحادی نہیں ہو سکتے۔ ترکی توقع کرتا ہے کہ امریکا ترکی کے ساتھ اپنی اسٹریٹیجک شراکت داری کا احترام کرے گا اور ترکی سے نہیں چاہتا کہ یہ تعاون دہشت گردوں کے پراپگینڈے کی وجہ سے متاثر ہو۔‘‘

تصویر: Reuters/R. Said

امریکا کا موقف ہے کہ شام میں دہشت گرد تنظیم اسلامک اسٹیٹ کے خلاف وائی پی جی کو تعاون فراہم کرنا ضروری ہے۔ تاہم دوسری جانب انقرہ حکومت وائی پی جی کو ملکی سلامتی کے لیے ایک خطرہ سمجھتی ہے۔ انقرہ حکومت کا کہنا ہے کہ وائی پی جی دراصل کالعدم تنظیم کردستان ورکرز پارٹی کا ہی حصہ ہے، جو گزشتہ کئی دہائیوں سے ترکی میں مسلح علیحدگی پسند تحریک جاری رکھے ہوئے ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں