شام میں امریکی میزائل حملوں کے بعد ترکی نے زور دیا ہے کہ واشنگٹن کو صدراسد کے خلاف زیادہ سخت ایکشن لینا چاہیے۔ تاہم انقرہ کے اس مؤقف کے باعث اُس کی ماسکو کے ساتھ مفاہمت کی کوششوں کو نقصان پہنچنے کا امکان زیادہ ہو گیا ہے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے روئٹرز نے ترک صدر رجب طیب ایردوآن کے حوالے سے بتایا ہے کہ امریکا کو شامی صدر بشار الاسد کے خلاف زیادہ سخت ایکشن لینا چاہیے۔ یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب امریکا نے شام کی چھ سالہ خانہ جنگی کے دوران پہلی مرتبہ شامی فورسز کو براہ راست نشانہ بنایا ہے۔
ان امریکی فضائی حملوں کے کچھ گھنٹوں بعد ہی ایردوآن نے اس عسکری کارروائی کو صدر بشار الاسد کی طرف سے کیے جانے والے مبینہ جنگی جرائم کے تناظر میں ’مثبت اور درست قدم‘ قرار دے دیا تھا۔ ساتھ ہی انہوں نے عالمی برداری سے مطالبہ کیا کہ اسد کے خلاف زیادہ مؤثر ایکشن لینے کی ضرورت ہے۔
مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کا رکن ملک ترکی ایک طرف تو شام کے معاملے پر امریکا کے ساتھ زیادہ تعاون کا خواہاں ہے تو دوسری طرف اسد کے حامی ملک روس کے ساتھ بھی مفاہمت کی کوششوں میں ہے۔ تاہم سکیورٹی مبصرین کے مطابق شامی حکومت کے خلاف امریکا کی براہ راست کارروائی محدود ہی رہے گی۔
تھنک ٹینک اٹلانٹک کونسل سے وابستہ ایرون شٹائن کے مطابق ترک حکومت نہ تو امریکا کے ساتھ اور نہ ہی روس کے ساتھ مل کر شام میں حکومت کو تبدیل کر سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس تناظر میں انقرہ حکومت روس اور امریکا کے بیچ سینڈوچ بن کر رہ جائے گی۔
حلب: ایک شاندار شہر تاراج ہوا
جنگ سے پہلے حلب شمالی شام کا ایک بارونق اور ہنستا بستا شہر تھا، جو شام کا اقتصادی مرکز اور سیاحوں میں بے حد مقبول تھا۔ موازنہ دیکھیے کہ کھنڈر بن چکے مشرقی حلب کے کئی مقامات پہلے کیسے تھے اور اب کس حال میں ہیں۔
اموی جامع مسجد پہلے
سن 2010ء میں ابھی اُس باغیانہ انقلابی تحریک نے حلب کی جامع الاموی کے دروازوں پر دستک نہیں دی تھی، جو تب پوری عرب دُنیا میں بھڑک اٹھی تھی۔ یہ خوبصورت مسجد سن 715ء میں تعمیر کی گئی تھی اور یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے میں شامل ہے۔
تصویر: Reuters/K. Ashawi
اموی جامع مسجد آج
سن 2013ء کی جھڑپوں کے نتیجے میں اس مسجد کو شدید نقصان پہنچا۔ چوبیس مارچ سن 2013ء کو اس مسجد کا گیارہویں صدری عیسوی میں تعمیر ہونے والا مینار منہدم ہو گیا۔ آج یہ مسجد ایک ویران کھنڈر کا منظر پیش کرتی ہے۔
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
حمام النحاسین پہلے
حلب شہر کے قدیم حصے میں واقع اس حمام میں 2010ء کے موسمِ خزاں میں لوگ غسل کے بعد سکون کی چند گھڑیاں گزار رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/K. Ashawi
حمام النحاسین آج
چھ سال بعد اس حمام میں سکون اور آرام نام کو نہیں بلکہ یہاں بھی جنگ کے خوفناک اثرات دیکھے جا سکتے ہیں۔
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
حلب کا قلعہ پہلے
حلب کا یہ قلعہ دنیا کے قدیم ترین اور سب سے بڑے قلعوں میں شمار ہوتا ہے۔ اس کے اندر واقع زیادہ تر عمارات تیرہویں صدی عیسوی میں تعمیر ہوئیں۔
تصویر: Reuters/S. Auger
حلب کا قلعہ آج
ایک دور تھا کہ بڑی تعداد میں سیاح اس قلعے کو دیکھنے کے لیے دور دور سے جایا کرتے تھے۔ اب جنگ کے نتیجے میں اس کا بڑا حصہ تباہ و برباد ہو چکا ہے۔
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
حلب کا قدیم علاقہ پہلے
چوبیس نومبر 2008ء: حلب شہر کا قدیم حصہ۔ لوگ رنگ برنگی روشنیوں کے درمیان ایک کیفے میں بیٹھے ہیں۔
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
حلب کا قدیم علاقہ آج
تیرہ دسمبر 2016ء: حلب شہر کا قدیم علاقہ راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکا ہے۔
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
شھباء مول (ڈیپارٹمنٹل اسٹور) پہلے
یہ تصویر دسمبر 2009ء کی ہے۔ حلب کے مشہور ڈیپارٹمنٹل اسٹور شھباء مول کی چھت سے کرسمس کے تحائف لٹک رہے ہیں۔ اس پانچ منزلہ ڈیپارٹمنٹل اسٹور کا افتتاح 2008ء میں ہوا تھا اور اس کا شمار ملک کے سب سے بڑے اسٹورز میں ہوتا تھا۔
تصویر: Reuters/K. Ashawi
شھباء مول (ڈیپارٹمنٹل اسٹور) آج
آج جو کوئی بھی گوگل میں شھباء مول کے الفاظ لکھتا ہے تو جواب میں اُسے یہ لکھا نظر آتا ہے: ’مستقل طور پر بند ہے۔‘‘ اس اسٹور کو 2014ء میں کی جانے والی بمباری سے شدید نقصان پہنچا تھا۔
تصویر: Reuters/A. Ismail
قدیم حلب کا ایک خوبصورت بازار پہلے
یہ تصویر 2008ء کی ہے، جس میں قدیم حلب کے ایک بازار کا داخلی دروازہ روشنیوں سے جگمگا رہا ہے۔
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
قدیم حلب کا ایک خوبصورت بازار آج
یہ تصویر دسمبر 2016ء کی ہے، جس میں قدیم حلب کے اس مشہور بازار کا داخلی دروازہ تقریباً مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے۔
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
12 تصاویر1 | 12
ترکی کی کوشش ہے کہ شامی صدر بشار الاسد کو اقتدار سے الگ کر دیا جائے۔ امریکا بھی یہی چاہتا ہے لیکن ماسکو حکومت اسد کو اقتدار سے الگ کرنے کی مخالفت کرتی ہے۔ ماسکو اور شامی صدر کا کہنا ہے کہ شام کے مستقبل کا فیصلہ عوام کو ہی کرنا چاہیے اور اس مقصد کی خاطر بیرونی حل مسلط کرنا پائیدار ثابت نہیں ہو سکتا۔
استنبول پالیسی سینٹر سے وابستہ تجزیہ نگار اور سابق فوجی افسر متین گورکان کے مطابق شام کے مستقبل کے بارے میں امریکا اور روس کے مابین ایک کشمکش کا سلسلہ جاری ہے اور ترکی ان دونوں ممالک کے بیچ پھنسا ہوا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کبھی ترکی امریکا کے ساتھ ہوتا ہے تو کبھی روس کے ساتھ۔ گورکان کے بقول اس صورتحال میں ترکی شامی تنازعے کی حل کی کوششوں کے سلسلے میں ایک ناقابل اعتبار فریق بن سکتا ہے۔