امریکا اور طالبان کے مذاکرات میں پاکستان کا ’پس پردہ‘ کردار
8 فروری 2019
افغانستان کے معاملے پر پاکستان اور امريکا کے مابين ايک عرصے تک اختلافات برقرار رہے تاہم اب امن مذاکرات ميں پاکستان ’پس پردہ‘ لیکن مرکزی کردار ادا کر رہا ہے۔ امريکی اہلکاروں اور طالبان نے اس امر کی تصديق کی ہے۔
اشتہار
امریکا اور طالبان کے مابین جاری مذاکرات کے بارے میں اپنا نام مخفی رکھنے کی شرط پر ايک سينیئر امريکی اہلکار نے کہا، ’’ہم يہ جانتے ہيں کہ پاکستان کی مدد کے بغير مذاکرات ممکن نہيں ہو سکتے۔‘‘ اس اہلکار نے اس بارے ميں مزيد تفصيلات تو فراہم نہيں کيں تاہم یہ ضرور بتايا کہ قطر کے درالحکومت دوحہ ميں منعقدہ مذاکرات کے حاليہ دور کے ليے پاکستان کی جانب سے سفری و ديگر انتظامی معاملات ميں بھی اہم مدد فراہم کی گئی تھی۔ امريکی اہلکار کا يہ بيان خبر رساں ادارے روئٹرز کی اس بارے ميں خصوصی رپورٹ ميں شامل ہے، جو آج بروز جمعہ جاری کی گئی۔
افغانستان ميں قيام امن کے سلسلے ميں جاری امن مذاکرات ميں پاکستان کے کردار کے حوالے سے اس سے قبل زيادہ معلومات دستياب نہیں تھيں۔ روئٹرز کی تازہ رپورٹ ميں البتہ بتايا گيا ہے کہ پاکستان نے عدم تعاون کا مظاہرہ کرنے والے طالبان جنگجوؤں پر ان کے اہل خانہ کو تحويل ميں لے کر بھی دباؤ ڈالا۔ طالبان ذرائع کے مطابق اسلام آباد حکومت نے ايک موقع پر ایک مذہبی شخصیت کے ذریعے طالبان تک يہ پيغام بھی پہنچايا کہ اگر وہ امريکا کے ساتھ مذاکرات پر رضامند نہيں ہوتے، تو ان کے اسلام آباد کے ساتھ تعلقات منقطع ہو سکتے ہیں۔ ايک سينئر طالبان رہنما نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر روئٹرز کو بتایا، ’’ہم نے پاکستان کو اتنا سنجيدہ کبھی نہيں ديکھا۔‘‘ اس رہنما کے مطابق پاکستان نے گزشتہ چند ماہ سے يہ دباؤ برقرار رکھا ہوا ہے اور اس کا مطالبہ ہے کہ طالبان امريکا اور کابل حکومت کے ساتھ بات چيت کے عمل ميں شريک ہوں۔
ماضی کا جدید افغانستان
طالبان کے دور اقتدار میں افغانستان میں خواتین کا گھروں سے باہر نکلتے واقت برقع پہننا لازمی تھا۔ لیکن ایک ایسا وقت بھی تھا جب افغان خواتین کھلے عام مغربی لباس پہننا پسند کرتی تھیں جیسا کہ ان تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
خواتین ڈاکٹرز
یہ تصویر سن 1962 میں لی گئی تھی۔ اس میں کابل یونیورسٹی کی میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے والی طالبات کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اس وقت خواتین افغان معاشرے میں اہم کردار ادا کرتی تھیں۔ خواتین کو تعلیمی سہولیات میسر تھیں اور وہ گھروں سے باہر نکل کر کام کر سکتی تھیں۔
تصویر: Getty Images/AFP
کابل کی سٹرکوں پر فیشن
اس تصویر میں کابل ریڈیو کی عمارت کے باہر دو خواتین کو مغربی لباس پہنے دیکھا جا سکتا ہے۔ بنیاد پرست طالبان کی قیادت کے دوران خواتین برقعے کے بغیر گھروں سے باہر نہیں دیکھی جا سکتی تھیں۔ یہ تصویر سن 1962 میں لی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
مساوی حقوق سب کے لیے
ستر کی دہائی کے دوران کابل کی پولی ٹیکنک یونیورسٹی میں طالبات کو دیکھے جانا ایک عام سی بات تھی۔ اب لگ بھگ 40 برس بعد تنازعات کے شکار اس ملک میں خواتین کے لیے تعلیم کا حصول مشکل ہے۔ افغانستان کے سن 2003 کے آئین کے مطابق لڑکے اور لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے کے برابر حقوق حاصل ہیں۔
تصویر: Getty Images/Hulton Archive/Zh. Angelov
کمپیوٹر کی تعلیم
اس تصویر میں ایک سوویت استاد کابل کے پولی ٹیکنک ادارے میں افغان طلبہ کو پڑھاتی نظر آرہی ہیں۔ سن 1979 سے 1989ء تک جب افغانستان پر سوویت یونین کا قبضہ تھا، کئی سویت اساتذہ افغانستان کے تعلیمی اداروں میں پڑھاتے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP
طلبا اور طالبات
سن 1981 میں لی گئی اس تصویر میں کابل میں مرد اور خواتین طلبہ کو ساتھ دیکھا جاسکتا ہے۔ سن 1979 میں افغانستان پر سوویت یونین کے قبضے کے بعد افغانستان میں دس سالہ طویل جنگ کا آغاز ہوا، جس کے نتیجے میں سن 1989 میں سوویت یونین نے افغانستان سے انخلاء کر لیا۔ ملک میں خانہ جنگی کی صورتحال رہی جس کے نتیجے میں سن 1996 میں طالبان کو اس ملک کی قیادت مل گئی۔
تصویر: Getty Images/AFP
اسکول سب کے لیے
اس تصویر میں افغانستان میں سوویت تسلط کے دور میں افغان لڑکیوں کو ایک سیکنڈری اسکول میں دیکھا جا سکتا ہے۔ طالبان دور حکومت میں لڑکیوں کی تعلیم پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP
وہ وقت نہ رہا
سن 1981 میں لی گئی اس تصویر میں ایک خاتون دوپٹہ اوڑھے بغیر اپنے بچوں کے ساتھ دیکھی جا سکتی ہیں۔ طالبان کے دور کا اختتام تو ہو چکا ہے لیکن افغان معاشرے میں آج بھی خواتین اس پدارانہ معاشرے میں اپنا مقام حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔.
تصویر: Getty Images/AFP
7 تصاویر1 | 7
امريکی فوج کے مرکزی کمان سنبھالنے والے جنرل جوزف ووٹل نے ملکی سينيٹ کو دی گئی اپنی ايک بريفنگ ميں بھی يہ عنديہ ديا تھا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات میں پاکستان کا کليدی کردار ہے۔ تاہم اسی دوران کئی سابقہ اور موجود امريکی اہلکار س بارے ميں شکوک و شبہات بھی رکھتے ہيں۔ يہی وجہ ہے کہ فی الحال اسلام آباد کی مالی امداد پر پچھلے سال عائد کردہ پابندی برقرار رکھی جا رہی ہے۔
دوسری جانب پاکستانی ذرائع کہتے ہيں کہ تازہ اقدامات کے پيچھے امريکی امداد کی بندش نہيں بلکہ علاقائی اقتصادی صورتحال کارفرما ہے۔ پاکستان کو خدشہ ہے کہ افغانستان سے امريکا کے اچانک انخلا سے خطے ميں ايک معاشی بحران کی سی صورتحال پيدا ہو سکتی ہے۔ پاکستان کو ويسے ہی زر مبادلہ کے ذخائر ميں کمی کا سامنا ہے اور اس سلسلے ميں پاکستان عالمی مالياتی ادارے سے رجوع کر چکا ہے۔ دريں اثناء پاکستان اپنے ہاں بيرونی سرمايہ کاری کے ليے بھی کوشاں ہے۔ ايسے ميں افغانستان ميں افراتفری پاکستان کے ليے انتہائی پريشان کن ثابت ہو سکتی ہے۔
2018: دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک
سن 2018 کے ’گلوبل ٹیررازم انڈیکس‘ کے مطابق گزشتہ برس پاکستان میں دہشت گردانہ حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد سن 2013 کے مقابلے میں 64 فیصد کم رہی۔ اس انڈیکس کے مطابق دنیا بھر میں سب سے زیادہ دہشت گردی کے شکار ممالک یہ رہے۔
تصویر: STR/AFP/Getty Images
عراق
گلوبل ٹیررازم انڈیکس کے مطابق گزشتہ برس عراق میں دہشت گردی کے واقعات میں 4271 افراد ہلاک ہوئے جب کہ سن 2016 میں یہ تعداد قریب 10 ہزار تھی۔ داعش کی دہشت گردانہ کارروائیوں میں 52 فیصد کمی ہوئی۔ اس کے باوجود عراق دہشت گردی کے شکار ممالک کی فہرست میں گزشتہ مسلسل چودہ برس سے سر فہرست رہا۔ عراق کا جی ٹی آئی اسکور دس سے کم ہو کر 9.75 رہا۔
تصویر: picture-alliance/AP
افغانستان
تازہ رپورٹ کے مطابق افغانستان اس فہرست میں دوسرے نمبر پر ہے تاہم اس برس افغانستان میں دہشت گردی کے سبب ہلاکتوں کی تعداد عراق سے بھی زیادہ رہی۔ گزشتہ برس افغانستان میں قریب بارہ سو دہشت گردانہ حملوں میں 4653 افراد ہلاک جب کہ پانچ ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔ زیادہ تر حملے طالبان نے کیے جن میں پولیس، عام شہریوں اور حکومتی دفاتر کو نشانہ بنایا گیا۔ افغانستان کا جی ٹی آئی اسکور 9.39 رہا۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Marai
نائجیریا
دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں جی ٹی آئی اسکور 8.66 کے ساتھ نائجیریا اس تیسرے نمبر پر ہے۔ سن 2017 کے دوران نائجیریا میں دہشت گردی کے سبب ہلاکتوں کی تعداد ڈیڑھ ہزار سے کچھ زائد رہی جو اس سے گزشتہ برس کے مقابلے میں سولہ فیصد کم ہے۔
تصویر: Reuters/Stringer
شام
سن 2016 کی نسبت گزشتہ برس شام میں دہشت گردانہ حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد اڑتالیس فیصد کم رہی۔ اس کے باوجود خانہ جنگی کا شکار یہ ملک قریب گیارہ سو ہلاکتوں کے ساتھ دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں چوتھے نمبر پر ہے۔ گزشتہ برسوں کے دوران شام میں دہشت گردانہ کارروائیوں میں زیادہ تر داعش اور النصرہ کے شدت پسند ملوث تھے۔ شام کا اسکور 8.6 سے کم ہو کر اس رپورٹ میں 8.3 رہا۔
تصویر: Getty Images/AFP
پاکستان
پانچویں نمبر پر پاکستان ہے جہاں گزشتہ برس 576 دہشت گردانہ واقعات میں ساڑھے آٹھ سو انسان ہلاک ہوئے۔ 2016ء کے مقابلے میں گزشتہ برس تحریک طالبان پاکستان کی کارروائیوں میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 17 فیصد کم رہی۔ داعش خراسان کے حملوں میں 50 فیصد جب کہ لشکر جھنگوی کے حملوں کے باعث ہلاک ہونے والوں کی تعداد میں 17 فیصد اضافہ ہوا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Hassan
صومالیہ
دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی امسالہ فہرست میں صومالیہ چھٹے نمبر پر رہا، گزشتہ انڈیکس میں صومالیہ ساتویں نمبر پر تھا۔ اس ملک میں الشباب تنظیم سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں نے نوے فیصد سے زائد حملوں کی ذمہ داری قبول کی۔ صومالیہ میں دہشت گردی کے سبب ہلاکتوں کی تعداد میں 93 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔ جی ٹی آئی انڈیکس میں صومالیہ کا اسکور 7.6 سے بڑھ کر 8.02 ہو گیا۔
تصویر: picture alliance/dpa/AAS. Mohamed
بھارت
بھارت بھی اس فہرست میں آٹھ کی بجائے ساتویں نمبر پر آ گیا۔ دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا جب کہ ہلاکتوں کی تعداد میں بھی بارہ فیصد اضافہ نوٹ کیا گیا۔ سن 2017 میں مجموعی طور پر 384 بھارتی شہری دہشت گردی کا نشانہ بن کر ہلاک جب کہ چھ سو سے زائد افراد زخمی ہوئے۔ انڈیکس کے مطابق بھارت کے مشرقی حصے میں ہونے والی زیادہ تر دہشت گردانہ کارروائیاں ماؤ نواز باغیوں نے کیں۔ بھارت کا اسکور 7.57 رہا۔
تصویر: Getty Images/AFP/N. Seelam
یمن
یمن میں متحارب گروہوں اور سعودی قیادت میں حوثیوں کے خلاف جاری جنگ کے علاوہ اس ملک کو دہشت گردانہ حملوں کا بھی سامنا ہے۔ تاہم سن 2016 کے مقابلے میں دہشت گردانہ حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد 75 فیصد کم رہی۔ مجموعی طور پر دہشت گردی کے 141 واقعات میں 378 افراد ہلاک ہوئے۔ دہشت گردی کے ان واقعات میں حوثی شدت پسندوں کے علاوہ القاعدہ کی ایک شاخ کے دہشت گرد ملوث تھے۔ گزشتہ انڈیکس میں یمن چھٹے نمبر پر تھا۔
تصویر: Reuters/F. Salman
مصر
مصر ایک مرتبہ پھر دہشت گردی سے متاثرہ ٹاپ ٹین ممالک میں شامل ہو گیا۔ 169 دہشت گردانہ واقعات میں 655 افراد ہلاک ہوئے۔ زیادہ تر حملے داعش کے گروہ نے کیے۔ مصر کا جی ٹی آئی اسکور 7.35 رہا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Abdallah
فلپائن
دہشت گردی کے 486 واقعات میں 326 انسانوں کی ہلاکتوں کے ساتھ فلپائن بھی ٹاپ ٹین میں شامل کیا گیا۔ فلپائن کا انڈیکس اسکور 7.2 رہا۔ فلپائن میں پینتیس فیصد حملوں کی ذمہ داری کمیونسٹ ’نیو پیپلز آرمی‘ نے قبول کی جب کہ داعش کے ابوسیاف گروپ کے حملوں میں بھی اٹھارہ فیصد اضافہ ہوا۔
تصویر: Reuters/E. de Castro
ڈیموکریٹک ریپبلک آف کانگو
گلوبل ٹیررازم انڈیکس میں 7.05 کے اسکور کے ساتھ گیارہویں نمبر جمہوری جمہوریہ کانگو ہے۔
تصویر: DW/J. Kanyunyu
ترکی
ترکی گزشتہ انڈیکس میں پہلی مرتبہ پہلے دس ممالک کی فہرست میں شامل کیا گیا تھا۔ اس برس ترکی میں دہشت گردی کے واقعات اور ان کے سبب ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد کم ہوئی۔ موجودہ انڈیکس میں ترکی کا اسکور 7.03 رہا۔ دہشت گردی کے زیادہ تر حملوں کی ذمہ داری پی کے کے اور ٹی اے کے نامی کرد شدت پسند تنظیموں نے قبول کی جب کہ داعش بھی ترک سرزمین پر دہشت گردانہ حملے کیے۔
تصویر: Reuters/Y. Karahan
لیبیا
لیبیا میں معمر قذافی کے اقتدار کے خاتمے کے بعد یہ ملک تیزی سے دہشت گردی کی لپیٹ میں آیا۔ گلوبل ٹیررازم انڈیکس کے مطابق 2016ء میں لیبیا میں 333 دہشت گردانہ حملوں میں پونے چار سو افراد ہلاک ہوئے تھے۔ دہشت گردی کی اکثر کارروائیاں دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ سے منسلک مختلف گروہوں نے کیں۔ گزشتہ انڈیکس میں لیبیا 7.2 کے اسکور کے ساتھ دسویں جب کہ تازہ انڈیکس میں 6.99 اسکور کے ساتھ تیرہویں نمبر پر ہے۔