امریکا اورعراق امریکی افواج کے انخلاء پر بات چیت کے لیے تیار
24 مارچ 2021
امریکا اور عراق کے مابین تعلقات کشیدہ ہیں اور مشرق وسطی کے اس ملک میں موجود ڈھائی ہزار امریکی افواج کے انخلاء کے طریقہ کار پر فریقین کے درمیان اتفاق رائے نہیں ہے۔
اشتہار
وائٹ ہاوس نے منگل کے روز بتایا کہ امریکا اور عراق اپریل میں اسٹریٹیجک مذاکرات بحال کرنے والے ہیں۔
ان مذاکرات کا آغاز ٹرمپ انتظامیہ کے دوران جون 2020 میں ہوا تھا اور گزشتہ جنوری میں عہدہ صدارت سنبھالنے کے بعد جو بائیڈن انتظامیہ میں یہ پہلی میٹنگ ہوگی۔
امریکی فوج 'آئی ایس‘ کے خلاف جنگ میں معاون
دونوں ممالک عراق میں اس وقت موجودہ ڈھائی ہزار امریکی فورسز کی واپسی کے طریقہ کار پر بات چیت کریں گے۔
وائٹ ہاوس کی ترجمان جین ساکی نے ایک بیان میں کہا”ان میٹنگوں سے یہ بات مزید واضح ہوجائے گی کہ اتحادی افواج کی عراق میں موجودگی کا واحد مقصد عراقی فوج کو تربیت دینا اور اس امر کو یقینی بنانے میں ان کی مدد کرنا ہے کہ آئی ایس آئی ایس یا اسلامی ریاست دوبارہ خود کو منظم کرنے نا پائے۔"
انہوں نے مزید کہا کہ حکام سکیورٹی، تجارت، ماحولیات اور ثقافت جیسے دیکر امور پر بھی بات چیت کریں گے۔ امید ہے کہ فریقین 'باہمی مفادات‘ کے اہم امور اور واشنگٹن اور بغداد کے مابین تعلقات پر پڑنے والے ان کے اثرات پر بھی تبادلہ خیال کریں گے۔
جنرل سلیمانی کی میت آبائی شہر کرمان پہنچا دی گئی
00:53
سلیمانی کی ہلاکت سے ناراض
دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کشیدہ ہیں۔ باہمی تعلقات میں کشیدگی میں جنوری 2020 سے اس وقت مزید اضافہ ہو گیا ہے جب امریکا نے بغداد ہوائی اڈے کے ٹھیک باہر ایران کے چوٹی کے فوجی رہنما جنرل قاسم سلیمانی اور عراقی ملیشیا کے لیڈر ابو مہندی المنہدس کو ہلاک کر دیا تھا۔
اس حملے کے بعدعراقی قانون سازوں نے ملک سے امریکی اتحادی افواج کو باہر نکال دینے کے حوالے سے پارلیمان میں ایک قرارداد منظور کی تھی۔
حالانکہ گزشتہ سال مئی میں وزیر اعظم مصطفی القدیمی کے عراقی حکومت کی باگ ڈور سنبھالنے کے بعد سے تعلقات میں نسبتاً بہتری آئی ہے لیکن بعض جماعتیں اور بالخصوص پارلیمان میں ایرانی حمایت یافتہ فتح گروپ اب بھی امریکی افواج کی واپسی کے مطالبے پر مصر ہے۔
داعش کی رکن کے والد اپنی بیٹی، نواسے کی واپسی کے لیے پر امید
03:29
This browser does not support the video element.
عراقی اور امریکی حکام دونوں کا کہنا ہے کہ وہ ایک طے شدہ پروگرام کے تحت عراق سے افواج کے انخلاء کی حمایت کرتے ہیں لیکن اصل سوال اس کے وقت اور 'اسلامی ریاست‘ گروپ کی جانب سے ممکنہ خطرے کے حوالے سے ہے۔
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سن 2016 کے اپنے ایک صدارتی انتخابی وعدے کو پورا کرنے کے لیے ان کے بقول”کبھی نہ ختم ہونے والی جنگوں" سے امریکی افواج کو واپس بلانے کی پالیسی پر عمل شروع کر دی تھی۔
ج ا/ ص ز (اے پی، روئٹرز)
بغداد میں امریکی سفارت خانے پر حملے کی تصاویر
عراقی دارالحکومت بغداد میں مشتعل شیعہ مظاہرین نے امریکی سفارت خانے پر دھاوا بول دیا ہے۔ یہ افراد مرکزی دروازہ توڑ کر سفارت خانے میں داخل ہوئے اور استقبالیہ کے سامنے امریکی پرچم نذر آتش کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP/K. Mohammed
بتایا گیا ہے کہ اس سے قبل سفارتی عملے کو عمارت سے نکال لیا گیا تھا۔ بغداد کے محفوظ ترین علاقے میں جاری اس احتجاج میں ہزاروں افراد شریک ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP/K. Mohammed
یہ مظاہرے ایرانی حمایت یافتہ شیعہ جنگجوؤں پر امریکی فضائی حملے کے خلاف کیے جا رہے ہیں۔ اتوار کو امریکی فضائیہ نے ایرانی حمایت یافتہ کتائب حزب اللہ ملیشیا کے ایک ٹھکانے کو نشانہ بنایا تھا، جس میں کم از کم پچیس جنگجو مارے گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP/K. Mohammed
نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق سفارت خانے کے حفاظتی دستوں کی جانب سے مظاہرین کو واپس دھکیلنے اور منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP/K. Mohammed
مظاہرین امریکی سفارت خانے کے بالکل سامنے امریکا مردہ باد کے نعرے بلند کرتے ہوئے سفارت خانے کی حدود میں داخل ہوئے۔ مظاہرین نے پانی کی بوتلیں بھی پھینکیں اور سفارت خانے کے بیرونی سکیورٹی کیمرے بھی توڑ ڈالے۔
تصویر: Reuters/T. al-Sudani
آج بغداد کے گرین زون میں واقع امریکی سفارت خانے پر حملہ امریکی فضائی حملے میں ہلاک ہونے والے جنگجوؤں کی تدفین کے بعد کیا گیا۔
تصویر: Reuters/T. al-Sudani
جنگجوؤں کی نماز جنازہ میں شرکت کے بعد مظاہرین نے امریکی سفارت خانے کی طرف مارچ جاری رکھا اور آخر کار سفارت خانے کا بیرونی دروازہ توڑنے میں کامیاب رہے۔
تصویر: Reuters/T. al-Sudani
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بغداد میں امریکی سفارت خانے پر حملے کی منصوبہ سازی کا الزام ایران پر عائد کیا ہے۔ ٹرمپ کے بقول ایران نے ایک امریکی ٹھیکیدار کو ہلاک اور کئی کو زخمی کیا، جس کے جواب میں فضائی کارروائی کی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AA/M. Sudani
امریکی صدر کے مطابق آج کے اس واقعے پر سخت امریکی رد عمل سامنے آئے گا۔ ان کے مطابق اب ایران بغداد میں امریکی سفارت خانے پر حملے کا ذمہ دار بھی ہے۔ انہوں نے اس موقع پر عراقی حکام سے سفارت خانے کی حفاظت کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AA/M. Sudani
امریکی سفارت خانے کے باہر ایک دستی بم پھٹنے سے دو افراد زخمی ہو گئے ہیں۔ دوسری جانب امریکی صدر نے عراقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ طاقت کا استعمال کرتے ہوئے مظاہرین کو قابو میں لائے۔ ماہرین کے رائے میں طاقت کے استعمال سے احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ مزید تقویت پکڑ سکتا ہے۔