واشنگٹن حکومت نے حالیہ چند ماہ کے اندر اندر دوسری مرتبہ چینی درآمدات پر اضافی ٹیکس عائد کر دیے ہیں۔ چین نے بھی اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کا اعلان کیا ہے۔ مبصرین حیران ہیں کہ دونوں ممالک کب تک آگ سے کھیلنا جاری رکھیں گے۔
اشتہار
امریکی حکومت نے جمعرات کو چینی درآمدات پر مزید سولہ ارب ڈالر کے محصولات عائد کر دیے ہیں۔ یہ ایسا دوسرا راؤنڈ ہے کہ امریکا نے چین کی درآمدی مصنوعات پر اضافی ٹیکس عائد کیے ہیں۔ چین اور امریکا کے مابین اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کا سلسلہ جاری ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق یہ دو طرفہ اقدامات فی الحال تو اس درجے کے ہیں کہ دونوں ممالک ہی انہیں برداشت کر سکتے ہیں لیکن اس تجارتی جنگ میں مزید وسعت پیدا ہو گئی تو پھر کیا بنے گا؟ کیا بیجنگ حکومت اس قابل ہے کہ وہ اپنے سب سے بڑے تجارتی پارٹنر کے ساتھ یہ جنگ جاری رکھ سکے؟
دریں اثناء چینی کامرس ادارے نے کہا ہے کہ بیجنگ حکومت امریکی اقدامات کا موثر جواب دیتی رہے گی۔ جاری ہونے والے بیان کے مطابق امریکی درآمدی مصنوعات پر بھی بلا تاخیر سولہ ارب ڈالر کے اضافی محصولات عائد کر دیے گئے ہیں۔ چین نے کہا ہے کہ ان کا نفاذ اسی وقت ہو گیا تھا، جب ٹرمپ نے چینی مصنوعات پر اضافی ڈیوٹی عائد کی تھی۔
کئی تجزیہ کار چین کے جوابی اقدامات کو دانشمندانہ اقدامات قرار دینے سے گریزاں ہیں۔ جون میں امریکا نے پہلی مرتبہ چینی مصنوعات پر چونتیس بلین ڈالر کے اضافی محصولات عائد کیے تھے اور چین نے فوری ردعمل ظاہر کرتے ہوئے جوابی اقدامات اٹھائے تھے۔ جرمنی کی کولون یونیورسٹی کے ماہر سیاسیات تھوماس ییگر کا کہنا ہے، ’’چین نے جواب دینے میں جلدی کی ہے۔ لیکن اب چینی اندرونی حلقے سوچ رہے ہیں کہ آیا ان کا ردعمل درست تھا؟‘‘ دوسری جانب متاثرہ چینی کمپنیاں بھی اس حوالے سے پریشان ہیں کہ یہ سلسلہ کہاں تک چلے گا؟
چینی ماہر معاشیات لِن سیشی کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’میرے خیال سے یہ تجارتی جنگ امریکا جیت سکتا ہے کیوں کہ وہ چین سے کہیں آگے ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ چین کی آبادی زیادہ ہے لیکن امریکا کو تجارت میں خاصی بڑھت حاصل ہیں۔‘‘
بیالیس سالہ فنانس مینیجر چن جون کے مطابق دونوں ملکوں کے اپنے اپنے مفادات ہیں اور دونوں ہی اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ دوسری جانب چینی رہنماؤں نے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر یہ تجارتی جنگ وسیع ہوتی ہے تو آخر کار سب سے زیادہ امریکی معیشت کو ہی نقصان پہنچے گا۔ چند روز پہلے حکومت کے حامی امریکی اخبار گلوبل ٹائمز نے بھی تنبیہ کرتے ہوئے لکھا تھا، ’’یہ تجارتی تنازعہ مڈل کلاس خاندانوں کو متاثر کرے گا اور غریب سب سے زیادہ نقصان اٹھائیں گے۔‘‘
دوسری جانب چینی عوام بھی مشکل وقت کے لیے قبل از وقت تیاری کر رہے ہیں۔ بہت سے چینی یوآن جیسے اپنے اثاثوں کو ڈالر، یورو یا سونے میں تبدیل کر رہے ہیں۔
ا ا / ع ح (ڈی ڈبلیو، ڈی پی اے، اے ایف پی، اے پی)
دنیا کے امیر ترین ممالک - ٹاپ ٹین
قوت خرید میں مساوات (پی پی پی) کو پیش نظر رکھتے ہوئے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے اعداد و شمار کے مطابق سن 2018 میں جی ڈی پی کے اعتبار سے دنیا کے امیر ترین ممالک کے بارے میں تفصیلات اس پکچر گیلری میں دیکھیے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Ota
۱۔ چین
رواں برس برس اپریل تک کے اعداد و شمار کے مطابق قوت خرید میں مساوات کے اعتبار سے جی ڈی پی کو پیش نظر رکھتے ہوئے 25.24 ٹریلین امریکی ڈالر کے ساتھ پہلے نمبر پر چین ہے۔ سن 2017 کے مقابلے میں چینی اقتصادی نمو نو فیصد رہی۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Dufour
۲۔ امریکا
اسی معیار کو پیش نظر رکھا جائے تو امریکا 20.4 ٹریلین ڈالر کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔ امریکا میں گزشتہ برس کے مقابلے میں اقتصادی ترقی کی شرح 5.3 فیصد رہی۔
تصویر: Getty Images/J. Swensen
۳۔ بھارت
10.4 ٹریلین ڈالر کے ساتھ بھارت اس فہرست میں تیسرے نمبر پر ہے۔ عالمی مالیاتی فنڈ کے مطابق بھارت کی اقتصادی ترقی کی شرح گزشتہ برس کے مقابلے میں 9.8 فیصد زائد رہی۔
تصویر: AP
۴۔ جاپان
5.6 ٹریلین ڈالر اور پچھلے سال کے مقابلے میں جی ڈی پی میں اضافے کی ساڑھے تین فیصد شرح کے ساتھ جاپان چوتھے نمبر پر رہا۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Yamanaka
۵۔ جرمنی
عالمی مالیاتی ادارے کے مطابق سن 2018 اپریل تک جرمنی کا پی پی پی (Purchasing Power Parity) کے اعتبار سے جی ڈی پی 4.37 ٹریلین ڈالر جب کہ اقتصادی ترقی کی سالانہ شرح پانچ فیصد کے قریب رہی۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Schwarz
۶۔ روس
روس اس فہرست میں چھٹے نمبر پر ہے جہاں مساواتی قوت خرید کے اعتبار سے جی ڈی پی 4.17 ٹریلین ڈالر رہی جس میں گزشتہ برس کے مقابلے میں چار فیصد زیادہ ترقی ہوئی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Smirnov
۷۔ انڈونیشیا
ساتویں نمبر پر انڈونیشیا رہا جہاں گزشتہ برس کے مقابلے میں ترقی کی شرح 7.7 فیصد زیادہ رہی جب کہ جی ڈی پی 3.5 ٹریلین ڈالر ریکارڈ کیا گیا۔
تصویر: DW/T. Siregar
۸۔ برازیل
برازیل کا شمار بھی تیزی سے ترقی کرنے والی معیشتوں میں ہوتا ہے 3.39 ٹریلین ڈالر اور 4.6 فیصد ترقی کی سالانہ شرح کے ساتھ برازیل آئی ایم ایف کے مطابق دنیا میں آٹھویں نمبر پر ہے۔
تصویر: Reuters/R. Moraes
۹۔ برطانیہ
اس برس کی فہرست میں برطانیہ 3.03 ٹریلین ڈالر پی پی پی جی ڈی پی کے ساتھ دنیا میں نویں نمبر پر رہا۔ ترقی کی سالانہ شرح 3.9 فیصد ریکارڈ کی گئی۔
تصویر: picture-alliance/empics/K. O'Connor
۱۰۔ فرانس
2.96 ٹریلین ڈالر کے ساتھ فرانس ٹاپ ٹین میں جگہ بنانے والا تیسرا یورپی ملک ہے اور گزشتہ برس کے مقابلے میں فرانس میں اقتصادی ترقی کی اس برس شرح 4.4 فیصد تھی۔
تصویر: Reuters/A. Bernstein
۲۵۔ پاکستان
آئی ایم ایف کی اس فہرست کے مطابق پاکستان عالمی درجہ بندی میں پچیسویں نمبر پر ہے۔ قوت خرید میں برابری کے اعتبار سے پاکستانی جی ڈی پی کا تخمینہ 1.14 ٹریلین ڈالر لگایا گیا ہے جس میں گزشتہ برس کے مقابلے میں آٹھ فیصد اضافہ ہوا۔ آئی ایم ایف کی اس اعتبار سے کی گئی درجہ بندی میں پاکستان ہالینڈ اور متحدہ عرب امارات سے آگے ہے جو بالترتیب چھبیسویں اور تینتیسویں نمبر پر ہیں۔