امریکا اور یورپ کو مل کر کا کام کرنا ہوگا: جرمن وزیر دفاع
3 نومبر 2020
جرمن وزیر دفاع نے کہا ہے کہ امریکی صدارتی انتخابات کے نتائج خواہ جو بھی ہوں لیکن روس اور چین دونوں سے سکیورٹی کو لاحق خطرات کے مدنظر امریکا اور یورپ کو ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا ہوگا۔
اشتہار
جرمن وزیر دفاع اینگریٹ کرامپ کارین باوا نے پیر کے روز کہا کہ امریکی صدارتی انتخابات کے نتائج خواہ جو بھی سامنے آئیں لیکن مغربی قدروں کو لاحق متعدد خطرات کے مدنظر امریکا اور یورپ کو ان قدروں کی حفاظت کے لیے باہمی تعاون برقرار رکھنا ہوگا۔
اینگریٹ کرمپ نے ایک جرمن میڈیا ادارے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ”انتخابات کے نتائج سے قطع نظر، روس کے اپنی طاقت کے استعمال اور چین کے دنیا پر غلبہ حاصل کرنے کی خواہش کے مدنظر، صرف امریکا اور یورپ ہی ایک ساتھ مل کر مغرب کو مضبوط رکھ سکتے ہیں۔"
چانسلر انگیلا میرکل کی حکمراں کنزرویٹیو کرسچیئن ڈیموکریٹک یونین (سی ڈی یو) پارٹی سے تعلق رکھنے والی اینگرٹ کرامپ کا کہنا تھا، ”ہمیں امریکا کی ان آزادانہ قدروں کادفاع کرنا ہوگا جو کسی دوسرے کے مقابلے سب سے زیادہ اہم ہیں اور جس نے انہیں جرمنی میں بھی فروغ دینے میں تاریخی طورپر مدد کی ہے۔"
انہوں نے کہا کہ جرمنی گوکہ امریکا کے اسٹریٹیجک تحفظ پر منحصر رہا ہے لیکن اسی کے ساتھ متنبہ کیا کہ جرمنی اور یورپ دونوں نے ہی، مغربی نظام کو کہیں زیادہ سرگرم طریقے سے فروغ دیا ہے۔"
حقیقت کا سامنا کرنے کے لیے تیار
جرمن وزیر دفا ع کا یہ بیان جرمنی کے نائب چانسلر اولاف سوئیتس کے اسی طرح کے ایک بیان کے بعد آیا ہے۔ اولاف سوئیتس، جو وزیر خزانہ بھی ہیں، نے جرمن میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکی انتخابات کے نتائج خواہ جو بھی سامنے آئیں ہمیں 'ہر طرح کی حقیقت‘ کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ اولاف کو ان کی پارٹی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی نے اگلے عام انتخابات میں چانسلر کے عہدے کے لیے نامز کیا ہے۔
اولاف کا کہنا تھا”اس دنیا میں ایسے بہت سے مرد و خواتین کے ہاتھوں میں اقتدار کی باگ ڈور ہے جواس سمت میں نہیں چلتے جس کی طرف ہم سفر کرتے ہیں۔" انہوں نے کہا کہ اگر وہ چانسلر بن جاتے ہیں تووہ ”دنیا میں ان سب کے ساتھ مل کر کام کریں گے جو اقتدار میں ہیں لیکن وہ اس امر کو واضح کردیں گے کہ ہم ایک ایسا ملک ہیں جو جمہوریت اور آزادی کے ساتھ کھڑا ہے اور جو ایک مضبوط یورپی یونین چاہتا ہے۔"
انہوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر بالواسطہ حملہ کرتے ہوئے کہا کہ ”جمہوریت اور انصاف کے مشترکہ نظریات پر 'امریکا فرسٹ‘ قسم کی سیاست کا پردہ ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ خیال رہے کہ 'امریکا فرسٹ‘ صدر ٹرمپ کی متعدد اہم پالیسیوں کا مرکزی نقطہ ہے۔
اشتہار
الیکشن پر قریبی نگاہ
امریکا میں منگل تین نومبر کو ہونے والے صدارتی انتخابات میں صدر ٹرمپ اور ان کے حریف ڈیموکریٹک جو بائیڈن کے درمیان مقابلہ ہورہا ہے۔ امریکا کے متعدد یورپی حلیف دوسری عالمی جنگ کے بعد قائم عالمی نظام کو نظر انداز کرنے کی ٹرمپ انتظامیہ کی کوششوں پر تشویش کا اظہار کرتے رہے ہیں۔
ٹرمپ دیگر امور کے علاوہ جرمنی اور دیگر یورپی ملکوں کے خلاف واضح لفظوں میں الزام عائد کرتے رہے ہیں کہ ان ملکوں نے نیٹو کی خاطر خواہ مالی مدد نہیں کی۔ وہ امریکا کے اس اتحاد کے ساتھ رکنیت برقرار رکھنے پر شبہات کا اظہار بھی کرتے رہے ہیں۔
ج ا/ ص ز (ڈی پی اے، اے ایف پی)
جرمنی میں امریکی فوج کی تاریخ
امریکی فوج تقریباﹰ 75 سالوں سے جرمنی میں موجود ہے۔ یہ فوج دوسری عالمی جنگ کے بعد جرمنی میں فاتح کے طور پر داخل ہوئی اور کچھ عرصے میں ہی جرمنی کی اتحادی بن گئی۔ لیکن یہ باہمی تعلق ہمیشہ ہموار نہیں رہا ۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. May
رمشٹائن ملٹری ائیربیس کا اہم دورہ
جرمنی میں تقریباﹰ 35 ہزار امریکی فوجی تعینات ہیں جن کی اکثریت ملک کے مغرب اور جنوب میں ہے۔ لیکن اب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس 75 سالہ پرانے تعلق میں تبدیلیاں لانے کے خواہشمند ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے جرمنی سے بارہ ہزار امریکی فوجیوں کو واپس بلانے کا فیصلہ کیا۔ فوج کی واپسی کا یہ عمل امریکا اور جرمنی کے مابین فوجی اتحاد کے لیے ایک بہت بڑا امتحان ثابت ہو سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/J. Ernst
سوویت یونین کا کردار
جرمنی میں امریکی فوج دوسری جنگ عظیم کے بعد آنا شروع ہوئی تھی۔ امریکا نے اپنے اتحادیوں کی مدد سے جرمنی کو نازیوں سے آزاد کروایا تھا۔ تاہم اس وقت اس کا اتحادی ملک سوویت یونین جلد ہی دشمن بن گیا تھا۔ اس تصویر میں تقسیم شدہ برلن میں امریکی فوج اورسابقہ سوویت یونین کے ٹینک ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ایلوس پریسلے
امریکی فوجیوں نے جرمنی کو امریکی ثقافت سے بھی روشناس کروایا۔ کنگ آف ’روک ن رول‘ ایلوس پریسلے نے ایک امریکی فوجی کے طور پر سن 1958 میں جرمنی میں اپنی فوجی خدمات کا آغاز کیا تھا۔ اس تصویر میں پریسلے یہ اپنے مداحوں کو ہاتھ ہلاتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/L. Heidtmann
جرمنی اب اپنا گھر
پچھلے کچھ برسوں سے امریکی فوج جرمن سر زمین پر مستقل قیام کیے ہوئے ہے۔ امریکی اڈوں کے گردونواح میں امریکی فوج اور ان کے خاندانوں کے لیے کئی رہائشی مقامات تعمیر کیے گئے ہیں۔ الگ تھلگ رہائش کا یہ نظام امریکی فوجیوں کا جرمنی میں مکمل انضمام میں دشواری کا سبب بھی بنتا ہے۔ سن 2019 میں امریکی فوج نے 17،000 امریکی سویلین شہریوں کو جرمنی میں ملازمت پر رکھا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Dedert
امریکا اور جرمن خاندانوں کا تعلق
الگ رہائشی علاقوں کے باوجود، جرمن اور امریکی خاندانوں میں رابطہ رہا ہے۔ فوج کی تعیناتی کے ابتدائی برسوں میں برلن میں موسم گرما اور سرما میں پارٹیوں کا انعقاد کیا جاتا تھا۔ امریکی فوج مقامی بچوں کے لیے کرسمس پارٹی کا اہتمام بھی کرتی تھی اور ہر سال جرمنی اور امریکا دوستی کے ہفتہ وار جشن منائے جاتے تھے۔
سرد جنگ کے دوران وفاقی جمہوریہ جرمنی ایک اہم اسٹریٹیجک مقام بن گیا تھا۔ سن 1969 میں نیٹو ’مینوور ریفورجر ون‘ امریکی اور جرمن فوج کے زیر اہتمام بہت سی مشترکہ جنگی مشقون میں سے ایک تھی۔ اس میں دشمن سوویت یونین اور مشرقی جرمنی سمیت وارسا معاہدے پر دستخط کرنے والے دیگر ممالک تھے۔
تصویر: picture-alliance/K. Schnörrer
جوہری میزائل پر تنازعہ
سن 1983 میں متلانگن میں امریکی اڈے پر پریشنگ 2 راکٹ لائے گئے تھے۔ جوہری وار ہیڈس سے لیس شدہ یہ راکٹس ایک سیاسی مسئلہ بن گئے تھے۔ امن کے خواہاں سرگرم کارکنان ان میزائلوں کے خلاف تھے۔ ان کے احتجاجی مظاہروں میں مشہور شخصیات بھی شریک ہوتی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
راستے جدا
تقریباﹰ20 سال بعد یعنی 2003ء میں امریکی صدر جارج بش نےعراق کے خلاف جنگ کا اعلان کیا۔ جنگ کی وجہ عراق کا وہ مبینہ پروگرام تھا، جس کے تحت وہ بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار تیار کر رہے تھے۔ اس دور کے جرمن چانسلر گیرہارڈ شروڈر نے جرمنی کو اس جنگ سے دور رکھا۔ اور برلن اور واشنگٹن کے درمیان کشیدگی پیدا ہو گئی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/dpa_pool/A. Altwein
جرمنی پھر بھی اہم
اگر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جرمنی سے اپنے بارہزار فوجیوں کو واپس بلانے کے فیصلے پر قائم رہتے بھی ہیں تو بھی جرمنی امریکا کے لیے ایک اہم اسٹریٹیجک ملک رہے گا۔ رمشٹائن کا اڈہ خاص اہمیت کا حامل ہے کیونکہ یہ یورپ میں امریکی فضائیہ کا ہیڈ کوارٹر بھی ہے۔ یہاں سے ہی متنازعہ ڈرون مشنز افریقہ اور ایشیا میں پرواز کرتے ہیں۔