امریکا ایرانی انتخابات کے حوالے سے نا امید
8 جون 2013سن دو ہزار چار میں شائع ہونے والی کتاب ’دا پرشیئن پزل‘ کے مصنف کینیتھ پولاک اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ایران کے ساتھ مغرب کے تنازعات کا کوئی سیدھا حل نہیں ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ دس برس بعد بھی امریکا اور ایران کا تنازعہ جوں کا توں برقرار ہے۔
چودہ جون کو ہونے والے ایرانی صدارتی انتخابات کو ماہرین دلچسپی کے ساتھ دیکھ رہے ہیں۔ چند کو امید ہے کہ ان انتخابات کے بعد ایران اور مغرب کے تعلقات میں بہتری رونما ہو سکتی ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ صدر احمدی نژاد کا صدارتی دور کم از کم ختم ہو رہا ہے۔ آئینی قدغن کے باعث نژاد تیسری مرتبہ انتخابات میں حصہ لینے کے اہل نہیں ہیں۔ مغربی ممالک ایران پر شدید اقتصادی پابندیاں عائد کر چکے ہیں۔ ماہرین کو امید تھی کہ ایران کی سپریم کونسل سابق صدر اکبر ہاشمی رفسنجانی جیسے نسباتاً اصلاح پسند رہنما کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دے گی مگر ایسا نہ ہوا۔ نہ صرف یہ کہ رفسنجانی بلکہ چھ سو اسی امیدواروں کو صدارتی انتخابات میں حصہ لینے سے روک دیا گیا۔ امریکا اور مغربی ممالک کی نا امیدی بجا ہے۔
واشنگٹن انسٹیٹیوٹ فار نیئر ایسٹ پالیسی کے ڈائریکٹر ریسرچ پیٹرک کلاؤسن نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایرانی انتخابات کے حوالے سے امریکا میں جو موڈ دیکھا جا رہا ہے وہ شدید مایوسی کا ہے۔
کلاؤسن کا کہنا ہے کہ اوباما انتظامیہ کی رائے ہے کہ ایران کا انتخابی عمل انتہائی ناقص رہا ہے اور یہ کہ ایران کے ساتھ کسی امریکی سمجھوتے کا امکان نظر نہیں آ رہا ۔
''یہ سمجھا جا سکتا تھا کہ ایران کسی سمجھوتے کے بارے میں سنجیدہ ہے اگر وہ رفسنجانی یا ان جیسے کسی رہنما کو نامزد کرتا۔ مگر ایرانی سپریم کونسل مرکزی جوہری مذاکرات کار سعید جلیلی کو سبے سے مضبوط صدارتی امیدوار کے طور پر کھڑا کر رہی ہے۔‘‘
نیشنل ایرانیئن امیریکن کونسل کی صدر ٹریٹا پارسی کے مطابق سپریم کونسل کا جلیلی کی طرف جھکاؤ ’’پریشان کن‘‘ ہے۔ ’’ایران میں کوئی نہیں جانتا کہ وہ کون ہیں۔ جلیلی غیر کرشماتی شخصیت ہیں اور ٹی وی پر اس وقت ہی نظر آتے ہیں جب جوہری پروگرام کے حوالے سے کوئی بات ہو۔‘‘ پارسی کے بقول سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ائی انتخابات پر اثر انداز ہو رہے ہیں تا کہ کوئی غیر متوقع نتیجہ سامنے نہ آئے۔
رپورٹ: سابینا کاساگرانڈ ⁄ شامل شمس
ادارت: رابرٹ مج ⁄ شادی خان سیف