امریکا: ایرانی شہریوں پر صحافی کے اغوا کی کوشش کا کیس
14 جولائی 2021
ایرانی خفیہ ایجنسیوں کے چار مشتبہ ارکان پر ایک امریکی صحافی اور انسانی حقوق کے کارکن کو نیویارک سے اغوا کر کے ایران لے جانے کا منصوبہ بنانے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
اشتہار
امریکی محکمہ انصاف نے 13 جولائی منگل کے روز بتایا کہ وفاقی استغاثہ نے ایرانی خفیہ ایجنسیوں کے چار مشتبہ اہلکاروں پر ایک امریکی صحافی اور انسانی حقوق کے کارکن کو اغوا کرنے کی سازش کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔
نیویارک ساؤدرن ڈسٹرکٹ کے اٹارنی انڈریو اسٹراس کاکہنا تھا کہ مشتبہ ایرانی اہلکاروں کے نشانے پر ایک صحافی اور انسانی حقوق کے کارکن تھے جو، ''ایران کی آمرانہ طرز حکومت پر نکتہ چینی کیا کرتے تھے۔'' تاہم ان کا نام مخفی رکھا گیا ہے۔
انڈریو اسٹراس نے بتایا کہ اس کیس کے، ''چار افراد نے اپنے'ہدف‘ کو زبردستی ایران لے جانے کے مقصد سے منصوبہ بندی کے ساتھ ساتھ ان کی نگرانی بھی کی جہاں پہنچنے پر متاثرہ شخص کی تقدیر غیر یقینی صورت حال اختیار کر سکتی تھی۔''
مشتبہ ایرانیوں کے خلاف عائد فرد جرم میں یہ بھی الزام لگایا گیا ہے کہ یہ ایک وسیع پیمانے کی سازش تھی جس کے تحت کینیڈا کے تین افراد اور برطانیہ میں بعض دیگر افراد کو بھی ایران کی طرف راغب کرنے کے کوشش کی گئی تھی۔
حکام نے اس بات کی بھی تصدیق کی ہے کہ اس سازش کے تحت متحدہ عرب امارات میں بھی بعض افراد کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی اور یہ تمام ممکنہ متاثرین وہ افراد تھے جو ایران کی حکومت پر نکتہ چینی کرتے رہے تھے۔
ایران پر امریکی پابندیوں کا نفاذ، کیا کچھ ممکن ہے!
ٹرمپ انتظامیہ نے ایران پر پابندیوں کے پہلے حصے کا نفاذ کر دیا ہے۔ بظاہر ان پابندیوں سے واشنگٹن اور تہران بقیہ دنیا سے علیحدہ ہو سکتے ہیں۔پابندیوں کے دوسرے حصے کا نفاذ نومبر میں کیا جائے۔
تصویر: Reuters/TIMA/N. T. Yazdi
ٹرمپ نے پابندیوں کے ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کر دیے
پابندیوں کے صدارتی حکم نامے پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پانچ اگست کو دستخط کیے۔ ٹرمپ کے مطابق ایران پر اقتصادی دباؤ انجام کار اُس کی دھمکیوں کے خاتمے اور میزائل سازی کے علاوہ خطے میں تخریبی سرگرمیوں کے خاتمے کے لیے ایک جامع حل کی راہ ہموار کرے گا۔ ٹرمپ کے مطابق جو ملک ایران کے ساتھ اقتصادی رابطوں کو ختم نہیں کرے گا، اُسے شدید نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔
تصویر: Shealah Craighead
رقوم کہاں جائیں گی؟
پانچ اگست کو جاری کردہ پابندیوں کے حکم نامے پر عمل درآمد سات اگست سے شروع ہو گیا ہے۔ اس پابندی کے تحت ایران کی امریکی کرنسی ڈالر تک رسائی کو محدود کرنا ہے تاکہ تہران حکومت اپنی بین الاقوامی ادائیگیوں سے محروم ہو کر رہ جائے اور اُس کی معاشی مشکلات بڑھ جائیں۔ اسی طرح ایران قیمتی دھاتوں یعنی سونا، چاندی وغیرہ کی خریداری بھی نہیں کر سکے گا اور اس سے بھی اُس کی عالمی منڈیوں میں رسائی مشکل ہو جائے گی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Kenare
ہوائی جہاز، کاریں اور قالین
سات اگست سے نافذ ہونے والی پابندیوں کے بعد ایران ہوائی جہازوں کے علاوہ کاریں بھی خریدنے سے محروم ہو گیا ہے۔ ایران کی امپورٹس، جن میں گریفائٹ، ایلومینیم، فولاد، کوئلہ، سونا اور بعض سوفٹ ویئر شامل ہیں، کی فراہمی بھی شدید متاثر ہو گی۔ جرمن کار ساز ادارے ڈائملر نے ایران میں مرسیڈیز بینز ٹرکوں کی پروڈکشن غیر معینہ مدت کے لیے معطّل کر دی ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo
جلتی آگ پر تیل ڈالنا
ایران پر پابندیوں کے دوسرے حصے کا نفاذ رواں برس پانچ نومبر کو ہو جائے گا۔ اس پابندی سے ایران کی تیل کی فروخت کو کُلی طور پر روک دیا جائے گا۔ تیل کی فروخت پر پابندی سے یقینی طور پر ایرانی معیشت کو شدید ترین دھچکا پہنچے گا۔ دوسری جانب کئی ممالک بشمول چین، بھارت اور ترکی نے عندیہ دے رکھا ہے کہ وہ توانائی کی اپنی ضروریات کے مدِنظر اس پابندی پر پوری طرح عمل نہیں کر سکیں گے۔
تصویر: Reuters/R. Homavandi
نفسیاتی جنگ
ایران کے صدر حسن روحانی نے امریکی پابندیوں کے حوالے سے کہا ہے کہ واشنگٹن نے اُن کے ملک کے خلاف نفسیاتی جنگ شروع کر دی ہے تا کہ اُس کی عوام میں تقسیم کی فضا پیدا ہو سکے۔ روحانی کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ اپنے اتحادیوں چین اور روس پر تکیہ کرتے ہوئے اپنے تیل کی فروخت اور بینکاری کے شعبے کو متحرک رکھ سکتا ہے۔ انہوں نے ایران میں امریکی مداخلت سے پہنچنے والے نقصان کا تاوان بھی طلب کیا ہے۔
یورپی یونین کی خارجہ امور کی چیف فیڈیریکا موگیرینی کا کہنا ہے کہ اُن کا بلاک ایران کے ساتھ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کو جاری رکھنے کی حوصلہ افزائی کرے گا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ تہران سن 2015 کی جوہری ڈیل کے تحت دی گئی کمٹمنٹ کو پورا نہ کرنے پر بھی شاکی ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ یورپی یونین یورپی تاجروں کے تحفظ کا خصوصی قانون متعارف کرا رکھا رکھا ہے۔
امریکا کے کار گزار اسسٹنٹ اٹارنی جنرل مارک جے لیسکو کا کہنا تھا، ''امریکا میں ہر فرد کو غیر ملکی طاقتوں کی دھمکیوں، ہراسانی اور جسمانی طور پر نقصان پہنچانے سے آزاد ہونا چاہیے۔ اس فرد جرم کے ذریعے ہم ایک ایسے امریکی شہری کو نقصان پہنچانے کی ایک خطرناک سازش کو منظر عام پر لا رہے ہیں جو آزادی اظہار سے متعلق اپنے حقوق کا استعمال کر رہا تھا۔ ہمارا عزم ہے کہ ہم ایسے ملزمان کو انصاف کے کٹہرے میں لاکر ہی رہیں گے۔''
امریکا اور ایران کے خراب رشتے
اسلامی جمہوریہ ایران میں سن 1980 کے انقلاب کے بعد سے ہی امریکا کے ساتھ ایران کے تمام با ضابطہ سفارتی تعلقات ختم ہو گئے تھے اور دونوں میں تعلقات کشیدہ رہے ہیں۔ لیکن سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور صدارت میں اس میں مزید تلخیاں پیدا ہوئیں۔
ایران کے جوہری پروگرام کو کنٹرول کرنے کے لیے عالمی طاقتوں کے ساتھ سن 2015 میں ایک معاہدہ طے پا یا تھا تاکہ ایران پر عائد معاشی پابندیاں ختم ہو سکیں نیزخطے میں ایٹمی ہتھیاروں کا ایک اور خطرہ ٹل سکے۔
تاہم سن 2018 میں ٹرمپ انتظامیہ نے اس معاہدے سے امریکا کو یکطرفہ طور پر الگ کر لیا اور اس کے بعد ایران پر مزید سخت پابندیاں عائد کر دی تھیں۔ اب حالات یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ہی اس معاہدے کو بچانا مزید مشکل ہوتا جا رہا ہے۔