امریکا پاسداران انقلاب کو ’دہشت گرد تنظیم‘ قرار دے دے گا
8 اپریل 2019
امریکا میں ٹرمپ انتظامیہ تہران میں ملکی سیاسی اور مذہبی قیادت پر دباؤ بڑھانے کے لیے ایک غیر معمولی قدم اٹھاتے ہوئے ایران کے پاسداران انقلاب نامی دستوں کو ایک ’دہشت گرد تنظیم‘ قرار دے دینے کا ارادہ رکھتی ہے۔
اشتہار
امریکی دارالحکومت واشنگٹن سے پیر آٹھ اپریل کو موصولہ نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ کے اس متوقع اقدام کا مقصد ایران کو بین الاقوامی سطح پر زیادہ سے زیادہ الگ تھلگ کر دینا ہے۔ لیکن اس ممکنہ اعلان کے مشرق وسطیٰ اور دنیا کے دیگر علاقوں میں امریکی اہلکاروں کے لیے اور واشنگٹن کی پالیسیوں کے نتائج پر دور رس اثرات بھی مرتب ہوں گے۔
امریکا میں صدر ٹرمپ کی قیادت میں موجودہ ملکی انتظامیہ یوں تو تہران کے خلاف اپنی بیان بازی میں گزشتہ کئی مہینوں میں بہت تیزی لا چکی ہے، لیکن پاسداران انقلاب کو ایک ’دہشت گرد تنظیم‘ قرار دینا اپنی نوعیت کا بہت بڑا واقعہ ہو گا۔
اس کا سبب یہ ہے کہ اگر امریکی حکومت نے پاسداران انقلاب کو واقعی ایک ’دہشت گرد تنظیم‘ قرار دے دیا، تو یہ واشنگٹن کی طرف سے اپنی نوعیت کا ایسا پہلا فیصلہ ہو گا، جس کے تحت کسی غیر ملکی حکومت کے ’پورے کے پورے عسکری بازو‘ کو دہشت گردی کا مرتکب قرار دے دیا جائے گا۔ اس سے قبل واشنگٹن انتظامیہ ایران کے پاسداران انقلاب کے چند ذیلی اداروں کو بھی، جن میں سے ’قدس فورس‘ سب سے اہم تھی، اپنی طرف سے پابندیوں کا ہدف بنا چکی ہے۔
اعلان آج ہی
واشنگٹن میں ٹرمپ انتظامیہ کے چند اہلکاروں نے نیوز ایجنسی اے پی کو بتایا کہ ایران کے پاسداران انقلاب کو ’دہشت گرد تنظیم‘ قرار دینے کا امریکی اعلان آج پیر آٹھ اپریل کو ہی کیا جا سکتا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کے ان ارادوں کی دو اعلیٰ امریکی حکام نے اپنے نام خفیہ رکھے جانے کی شرط پر اور امریکی کانگریس کے ایک مشیر نے بھی تصدیق کر دی۔
ایران کو پہلے ہی سے کچھ اندازہ ہے
امریکی حکومت کے پاسداران انقلاب سے متعلق اس ممکنہ اعلان کے بارے میں خود تہران میں ایرانی حکومت کو بظاہر پہلے ہی سے کچھ اندازہ بھی ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے کل اتوار سات اپریل کو بظاہر صدر ٹرمپ کو مخاطب کرتے ہوئے ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں لکھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو ’’اس سے زیادہ اور بہتر معلومات ہونا چاہییں، بجائے اس کے کہ وہ امریکا کو ایک اور تباہی کی طرف لے جائیں۔‘‘
’ایک اور بڑا ایران مخالف فیصلہ‘
امریکی صدر ٹرمپ یوں تو جب سے اقتدار میں آئے ہیں، وہ ایران پر تنقید بھی کرتے رہے ہیں اور تہران کے خلاف فیصلے بھی، جن میں امریکا کی طرف سے ایران کے خلاف دوبارہ سخت پابندیوں کا نفاذ بھی شامل تھا۔ لیکن اب اگر انہوں نے پاسداران انقلاب کو باقاعدہ طور پر کوئی ’دہشت گرد تنظیم‘ قرار دے دیا، تو یہ ڈونلڈ ٹرمپ کا تہران کے خلاف دوسرا انتہائی سخت اقدام ہو گا۔
ایرانی اسلامی انقلاب کے چالیس برس
سید روح اللہ موسوی خمینی کی قیادت میں مذہبی رہنماؤں نے ٹھیک چالیس برس قبل ایران کا اقتدار سنبھال لیا تھا۔ تب مغرب نواز شاہ کے خلاف عوامی غصے نے خمینی کا سیاسی راستہ آسان کر دیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/FY
احساسات سے عاری
خمینی یکم فروری سن 1979 کو اپنی جلا وطنی ختم کر کے فرانس سے تہران پہنچے تھے۔ تب ایک صحافی نے ان سے دریافت کیا کہ وہ کیسا محسوس کر رہے ہیں تو اس مذہبی رہنما کا جواب تھا، ’’کچھ نہیں۔ مجھے کچھ محسوس نہیں ہو رہا‘۔ کچھ مبصرین کے مطابق خمینی نے ایسا اس لیے کہا کیونکہ وہ ایک ’روحانی مشن‘ پر تھے، جہاں جذبات بے معنی ہو جاتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Images
شاہ کی بے بسی
خمینی کے وطن واپس پہنچنے سے دو ماہ قبل ایران میں حکومت مخالف مظاہرے شروع ہو چکے تھے۔ مختلف شہروں میں تقریبا نو ملین افراد سڑکوں پر نکلے۔ یہ مظاہرے پرامن رہے۔ تب شاہ محمد رضا پہلوی کو احساس ہو گیا تھا کہ وہ خمینی کی واپسی کو نہیں روک سکتے اور ان کی حکمرانی کا وقت ختم ہو چکا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/UPI
خواتین بھی آگے آگے
ایران میں انقلاب کی خواہش اتنی زیادہ تھی کہ خواتین بھی خمینی کی واپسی کے لیے پرجوش تھیں۔ وہ بھول گئی تھیں کہ جلا وطنی کے دوران ہی خمینی نے خواتین کی آزادی کی خاطر اٹھائے جانے والے شاہ کے اقدامات کو مسترد کر دیا تھا۔ سن 1963 میں ایران کے شاہ نے ہی خواتین کو ووٹ کا حق دیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/IMAGNO/Votava
’بادشاہت غیر اسلامی‘
سن 1971 میں شاہ اور ان کی اہلیہ فرح دیبا (تصویر میں) نے ’تخت جمشید‘ میں شاہی کھنڈرات کے قدیمی مقام پر ایران میں بادشاہت کے ڈھائی ہزار سال کی سالگرہ کے موقع پر ایک تقریب میں شرکت کی تھی۔ تب خمینی نے اپنے ایک بیان میں بادشاہت کو ’ظالم، بد اور غیر اسلامی‘ قرار دیا تھا۔
تصویر: picture alliance/akg-images/H. Vassal
جلا وطنی اور آخری سفر
اسلامی انقلاب کے دباؤ کی وجہ سے شاہ چھ جنوری سن 1979 کو ایران چھوڑ گئے۔ مختلف ممالک میں جلا وطنی کی زندگی بسر کرنے کے بعد سرطان میں مبتلا شاہ ستائیس جنوری سن 1980 کو مصری دارالحکومت قاہرہ میں انتقال کر گئے۔
تصویر: picture-alliance/UPI
طاقت پر قبضہ
ایران میں اسلامی انقلاب کے فوری بعد نئی شیعہ حکومت کے لیے خواتین کے حقوق مسئلہ نہیں تھے۔ ابتدا میں خمینی نے صرف سخت گیر اسلامی قوانین کا نفاذ کرنا شروع کیا۔
تصویر: Tasnim
’فوج بھی باغی ہو گئی‘
سن 1979 میں جب خمینی واپس ایران پہنچے تو ملکی فوج نے بھی مظاہرین کو نہ روکا۔ گیارہ فروری کو فوجی سربراہ نے اس فوج کو غیرجانبدار قرار دے دیا تھا۔ اس کے باوجود انقلابیوں نے فروری اور اپریل میں کئی فوجی جرنلوں کو ہلاک کر دیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/EPU
نئی اسلامی حکومت
ایران واپسی پر خمینی نے بادشات، حکومت اور پارلیمان کو غیر قانونی قرار دے دیا تھا۔ تب انہوں نے کہا تھا کہ وہ ایک نئی حکومت نامزد کریں گے کیونکہ عوام ان پر یقین رکھتے ہیں۔ ایرانی امور کے ماہرین کے مطابق اس وقت یہ خمینی کی خود التباسی نہیں بلکہ ایک حقیقت تھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/FY
انقلاب کا لبرل رخ
اسکالر اور جمہوریت نواز سرگرم کارکن مہدی بازرگان شاہ حکومت کے خلاف چلنے والی عوامی تحریک میں آگے آگے تھے۔ خمینی نے انہیں اپنا پہلا وزیر اعظم منتخب کیا۔ تاہم بازرگان اصل میں خمینی کے بھی مخالف تھے۔ بازرگان نے پیرس میں خمینی سے ملاقات کے بعد انہیں ’پگڑی والا بادشاہ‘ قرار دیا تھا۔ وہ صرف نو ماہ ہی وزیرا عظم رہے۔
تصویر: Iranian.com
امریکی سفارتخانے پر قبضہ
نومبر سن 1979 میں ’انقلابی طالب علموں‘ نے تہران میں قائم امریکی سفارتخانے پر دھاوا بول دیا تھا اور اس پر قبضہ کر لیا تھا۔ تب سفارتی عملے کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔ یہ انقلابی خوفزدہ تھے کہ امریکا کی مدد سے شاہ واپس آ سکتے ہیں۔ خمینی نے اس صورتحال کا فائدہ اٹھایا اور اپنے مخالفین کو ’امریکی اتحادی‘ قرار دے دیا۔
تصویر: Fars
خمینی کا انتقال
کینسر میں مبتلا خمینی تین جون سن 1989 میں چھیاسی برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔ ان کو تہران میں واقع بہشت زہرہ نامی قبرستان میں دفن کیا گیا۔ ان کی آخری رسومات میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔
تصویر: tarikhirani.ir
علی خامنہ ای: انقلاب کے رکھوالے
تین جون سن 1989 میں سپریم لیڈر خمینی کے انتقال کے بعد علی خامنہ ای کو نیا رہنما چنا گیا۔ انہتر سالہ خامنہ ای اس وقت ایران میں سب سے زیادہ طاقتور شخصیت ہیں اور تمام ریاستی ادارے ان کے تابع ہیں۔
تصویر: Reuters/Official Khamenei website
12 تصاویر1 | 12
ٹرمپ کا پہلا بہت بڑا ایران مخالف اقدام گزشتہ برس مئی میں کیا جانے والا وہ اعلان تھا، جس کے تحت امریکا یکطرفہ طور پر ایران کے عالمی طاقتوں کے ساتھ طے پانے والے جوہری معاہدے سے نکل گیا تھا۔
پاسداران انقلاب کی اہمیت
ایران میں پاسداران انقلاب نامی دستوں کو ملک کی ایک کلیدی اور بہت جدید فورس سمجھا جاتا ہے، جس کے کئی ذیلی عسکری بازو بھی ہیں۔ اس کے علاوہ ان دستوں کو نہ صرف ملکی معیشت کے ایک حصے پر کنٹرول حاصل ہے بلکہ وہ ایرانی معیشت کے کئی دیگر حصوں پر گہرے اثر و رسوخ کی حامل بھی ہے۔
اگر امریکا نے پاسداران انقلاب کو دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا، تو امریکا کے خاص طور پر عراق اور لبنان کے ساتھ عسکری اور سفارتی اشتراک عمل میں بھی بہت سی نئی مشکلات پیدا ہو جائیں گی۔ اس لیے کہ عراق میں کئی شیعہ ملیشیا گروپوں اور متعدد سیاسی جماعتوں کے ایران کے ان دستوں کے ساتھ قریبی روابط ہیں۔ دوسری طرف لبنان میں عسکری اور سیاسی تنظیم حزب اللہ نہ صرف ایرانی پاسداران انقلاب کی بہت بڑی اتحادی ہے بلکہ وہ بیروت میں لبنان کی موجودہ حکومت میں شامل ایک انتہائی اہم سیاسی جماعت بھی ہے۔
م م / ک م / اے پی
حزب اللہ، ایرانی پشت پناہی رکھنے والی لبنانی تنظیم
لبنان کی شیعہ تنظیم حزب اللہ کے سیاسی اور عسکری گروپ ملک میں نہایت طاقتور تصور کیے جاتے ہیں۔ تاہم اس کی طاقت، لبنان سمیت اس خطے میں تناؤ کا باعث ثابت ہو رہی ہے۔
تصویر: Reuters/A. Taher
حزب اللہ کا قیام
حزب اللہ یا ’ خدا کی جماعت‘ کی بنیاد مذہبی رہنماؤں کی جانب سے جنوبی لبنان پر اسرائیل کے 1982ء میں کیے جانے والے حملے کے ردعمل میں ڈالی گئی تھی۔ اس جماعت کے دو گروپ ہیں۔ ایک سیاسی اور دوسرا عسکری۔
تصویر: picture-alliance/dpa
اسرائیل کے خلاف قومی حمایت
1980ء کی دہائی میں حزب اللہ بطور شیعہ ملیشیا کے ابھر کر سامنے آئی جس نے لبنان کی خانہ جنگی میں بڑا کردار ادا کیا۔ سن 2000ء میں اسرائیلی فوج کے جنوبی لبنان چھوڑنے کے پیچھے حزب اللہ کی ہی گوریلا کارروائیاں تھیں۔ پھر اسرائیل اور حزب اللہ کے مابین 2006ء میں جنگ ہوئی اور اسرائیل کے مقابلے میں لبنان کا دفاع کرنے کے سبب حزب اللہ کے لیے مذہب ومسلک سے مبراء ہو کر ملکی حمایت میں اضافہ کیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Zaatari
ایران کی پشت پناہی
اپنے معرض وجود میں آنے کے بعد حزب اللہ کو ایران اور شام سے عسکری، معاشی اور سیاسی حمایت حاصل رہی ہے۔ اس وقت اس جماعت کا عسکری ونگ، ملکی ا فوج سے زیادہ طاقتور اور خطے میں میں اثر ورسوخ کا حامل ہے۔
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
سیاسی آلہ کار
لبنان میں 1975ء سے 1990ء تک جاری رہنے والی خانہ جنگی کے اختتام پر اس جماعت نے اپنی توجہ سیاست کی جانب مبذول کر لی۔ حزب اللہ لبنان کی اکثریتی شیعہ آبادی کی نمائندگی کے علاوہ ملک میں موجود دیگر فرقوں مثلاﹰ مسیحیوں کی اتحادی بھی ہے۔ حزب اللہ میں یہ سیاسی تبدیلی تنظیم کے موجودہ سربراہ حسن نصر اللہ کی سربراہی میں ہوئی جنہوں نے 1992ء سے اس تنظیم کی باگ ڈور سنبھالی ہوئی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
عسکری بازو
خانہ جنگی کے بعد لبنان کی دیگر جماعتوں کے بر عکس حزب اللہ نے اپنی جماعت کے عسکری بازو کو تحلیل نہیں کیا۔ اس پر ملک کی چند سیاسی جماعتوں نے اعتراض بھی کیا تاہم حزب اللہ کا مؤقف ہے کہ عسکری بازو کی موجودگی اسرائیل اور دیگر بیرونی خطرات سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے۔
تصویر: picture-alliance/AA
دہشت گرد گروپ؟
چند ممالک مثلاﹰ امریکا، اسرائیل، کینیڈا اور عرب لیگ کی جانب سے اس جماعت کو دہشت گرد تنظیم گردانا جاتا ہے۔ تاہم برطانیہ، آسٹریلیا اور یورپی یونین اس کی قانونی سیاسی سرگرمیوں اور عسکری بازو کے درمیان فرق کو ملحوظ رکھتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Pacific Press/I. Press
شامی خانہ جنگی میں موجودگی
حزب اللہ شام میں صدر بشار الاسد کی حمایت کر رہی ہے۔ حزب اللہ کی شامی خانہ جنگی میں شمولیت نے نہ صرف صدر بشار الاسد کو محفوظ کیا بلکہ شامی افواج کے لیے ہتھیاروں کی ترسیل کے راستے محفوظ کیے اور لبنان کے ارد گرد ایسا محفوظ علاقہ تشکیل دیا ہے جو ان سنی عسکری جماعتوں کو شام سے دور رکھنے کا سبب ہے، جن سے شام کو خطرہ ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Syrian Central Military Media
فرقہ بندی
لبنان ایک طویل عرصے سے خطے میں خصوصی طور پر ایران اور سعودی عرب کے مابین طاقت کی جنگ میں مرکزی حیثیت کا حامل رہا ہے۔ تاہم حزب اللہ کے سیاسی اور عسکری غلبے اور شام کی جنگ میں شمولیت کے باعث لبنان سمیت خطے میں فرقوں کے درمیان تناؤ میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔